زمانہ قبل از تاریخ میں بھی
تاریخی شعور کے آثار ملتے ہیں ۔تاریخ سے کوئی سبق نہ سیکھنا اور تاریخ کے
مسلسل عمل سے یکسر بیگانہ ہو جانادو رجدید کا ایک ایسا منفی رجحان ہے جس نے
زندگی کی اقدار عالیہ کی دھجیاں اڑا کر رکھ دی ہیں ۔یہ زمانہ قبل از تاریخ
کا مذکور ہے کہ دنیا میں ایک وسیع و عریض جنگل ہو ا کرتا تھا ۔اس جنگل کا
بادشاہ ڈائنو سار تھا۔اس دیو ہیکل جانور کی ہیبت سے پورا جنگل کانپتا تھا ۔
جنگل میں شیر بھی اس عظیم لجثہ ڈائنو سار کے سامنے بلی بن جاتا تھا ۔ڈائنو
سار کی نسل اتنی طاقت ور اور بڑی جسامت کی تھی کہ جنگل کا کوئی اور جانور
اس کا سامنا کرنے کی تاب نہ رکھتا تھا ۔زرافہ اس ڈائنو سار کے سامنے چوہا
دکھائی دیتا تھا ۔اس ڈائنو سا رکی بھاری بھرکم دم ایک گرز کے مانند تھی ،یہ
جس جانور کو لگتی اس کا کام تما م کر دیتی۔اسے دیکھتے ہی جنگل کی تما م
مخلوق کی گھگی بند ھ جاتی اور خون آشام درندوں کو نہ صرف دن کو تارے دکھائی
دیتے بلکہ چھٹی کے دودھ کے ساتھ نانی بھی یاد آجاتی۔ڈائنو سار بڑے ٹولوں
اور گروہوں کی صورت میںپورے جنگل کا گشت کرتے ایسا محسوس ہوتا کہ جنگلی
حیات کے دلوں کے ساتھ ساتھ دھرتی بھی دھڑک رہی ہے ۔ڈائنو سار کا ہجوم جس
طرف یلغار کرتا تما م جنگلی حیات جل تو جلال تو آئی بلا ٹال تو کا ورد کرنے
لگتی ۔ڈائنو سار کی ہیبت جہانگیر تھی ۔وہ تمام درندے جن کا آج درندگی کے
باعث لوگوں کے دلوں کو دھڑکا لگا رہتا ہے ،ڈائنو سار کے سامنے بھیگی بلی بن
جاتے تھے۔خاص طور پر شیر ،ہاتھی ،چیتا،بھیڑیا ،ریچھ ،تیندوا،اور خنزیر تو
ڈائنو سار کو دیکھتے ہی ایسے دم دبا کر بھاگتے اور ایسے غائب ہوتے جیسے
گدھے کے سر سے سینگ۔اس زمانے کے گدھے بھی آج کل کے گدھوں کی طرح محض پانڈی
ہی ہوتے تھے۔اس جنگل میں کالی بھیڑیں،سفید کوے ،بگلا بھگت اور لومڑیوں کی
کثیر تعداد تھی۔پرانے درختوں اور سنسان جنگلوں میں الو بڑی تعداد میں رہتے
تھے ۔یہ الو جس درخت کی شاخ پر اپنا آشیاں بناتے اس کا سوکھنا ٹھہر جاتا بس
صبح گیا کہ شام گیا ۔الو ہر دور میں اسی طرح نحوست ،بد بختی ،ذلت ،تخریب او
رویرانی کی علامت رہا ہے ۔جب کہ بعض لوگ الو او رچغد کو فلسفی قرار دیتے
ہیں ۔سچ تو یہ کہ جو لوگ الو کی تعریف میں زمیں آسمان کے قلابے ملاتے ہیں
ان کا تعلق بھی اسی نسل سے ہے ۔کند ہم جنس با ہم جس پرواز کی بات درست ہے ۔
ڈائنو سار نے طاقت کے بل بوتے پر ہر طرف اندھیر مچا رکھا تھا ۔مجبور،بے بس
اور مظلو م جنگلی حیات پر ستم ڈھانا اور ان کے چام کے دام چلانااس بد نصیب
جنگل میں روز کا معمول تھا ۔ڈائنو سار کی ہیبت اور دہشت کے باعث جنگلی حیات
اور تمام جاندارفکر ،اندیشے اور خو ف و ہراس کے کرب میں گھل گھل کے
لاغرہوتے چلے گئے۔ان کی کیفیت سے صاف ظاہر ہوتا تھا کہ اگر ڈائنو سار کی
مطلق العنان شاہی جنگل میں برقرار رہی تو تما م جنگلی حیات بال کے برابر
دبلی ،پتلی اور لاغر ہو جائے گی۔ہر جانور زبان حال سے یہ پکار رہا تھا :
ظلم تیرے سہہ کے آدھا ہو گیا
دیکھ ڈائنو اب میں مو سا ہو گیا
اس جنگل میں جو ا کھیلنا ایک عام شغل تھا ۔در اصل جوے کے تمام دھندے کو
جنگل کے بادشاہ کی آشیر باد حاصل تھی ۔ڈائنو سار کی سرپرستی میں جوے
،منشیات ،درندگی ،چیر پھاڑ اور خون آشامی کا کبھی نہ ختم ہونے والا سلسلہ
جاری تھا ۔جو جانور بھی جوا ہارتا اسے عبرت کی مثال بنانے کے لیے ڈائنو سار
کی طرف سے عجیب سزا دی جاتی ۔جنگلی حیات کا کوئی بھی شعبہ جوئے کی قبیح
عادت سے بچا ہوا نہ تھا ۔جوئے کی بازی ہارنے والے بعض اوقات ڈائنو سار کے
مجنونانہ،ظالمانہ اور بد نیتی پر مبنی احکامات کی وجہ سے اکثر زندگی کی
بازی بھی ہار جاتے ۔یو ںتو جنگل میں تما م جانورو ں کی زندگی ایک جبر مسلسل
کے مانند تھی مگر جو اکھیلنے والوں کا واسطہ جن عقوبتی سزاﺅں سے پڑتا انھیں
دیکھ کر مگر مچھ بھی آٹھ آٹھ آنسو بہاتا،شتر مرغ ریت میں سر چھپا لیتا تا
کہ وہ اس صریح ظلم کو نہ دیکھ سکے لیکن ڈائنو سار جنگل میں لگی آگ کو دیکھ
کر خوشی سے پھولے نہ سماتا اور جنگل میں بھڑکتے شعلوں کو دیکھ کر دیپک راگ
الاپتا ۔سنا ہے بعد میں نیرو نے بھی روم کو سپرد آتش کر کے بھی یہی روش
اپنائی ۔داستان گو کہتے ہیں کہ نیرو بھی جوے ،منشیات اور شباب کی ترنگ سے
دل کی امنگ کی تسکین کا دلدادہ تھا ۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جب بھی کسی کی
بد قسمتی اس کو دبوچ لیتی ہے تو خواہ کتنا ہی بلندی پر ہو پہاڑ کے نیچے آکر
رہتا ہے ۔اس جنگل کو بھی اب تغیر و تبدل کا سامنا تھا ۔لوٹ مار اور ظلم و
ستم کی رات اب ختم ہونے والی تھی۔اس جنگل میں تما م فیصلے ڈائنو سار کا
جرگہ کرتا تھا ۔اس جرگے کا فیصلہ حتمی ہوتا اور اس کے خلاف رحم کی اپیل کو
کوئی تصور نہ تھا ۔جس جنگل میں اہل ہوس درندے مدعی بھی ہوں اور منصف بھی
وہاں مظلوم جانور اپنے لہو سے ہولی کھیلنے پر مجبور تھے اور کالے کٹھن
دکھوں کے پہاڑ اپنے دل کا خون کرکے سر پر جھیل رہے تھے ۔
ڈائنو کے جشن تاج پوشی کے موقع پر ایک جانور دوڑ کا اہتما م کیا گیا ۔
خرگوش کچھوا اور کنڈیالا چوہا اس دوڑمیں مد مقابل تھے۔اس زمانے میں کچھوے
کی لمبی گرد ن صرف باہر ہی کی سمت مضبوطی سے جڑی ہوتی تھی۔کنڈیالا چوہا بھی
عام چوہے کے مانند ہوتا تھا اور یہ دونوں پرانے حریف تھے ۔کچھوے اور
کنڈیالے چوہے کو یہ زعم تھا کہ خرگوش نیند کا متوالا ہے اور ہمیشہ مردوں سے
شرط باندھ کر سوتا ہے ۔انھوں نے خرگوش کی غیرذمہ دارانہ روش اور تن آسانی
کی وجہ سے اسے دوڑنے کا چیلنج کیا۔ڈائنوسار نے اعلان کیا کہ جو بھی دوڑ میں
ہار جائے گا اس کے کان کاٹ لیے جائیں گے ۔ڈائنو سار نے جنگل میں اس قسم کے
عقوبتی طریقے اپنا کر اپنی دھاک بٹھا رکھی تھی ۔اعضا کی قطع و برید کی اس
قسم کی سزاﺅں کی وجہ سے تما م جانور ڈائنو سار سے بیزا ر ہو چکے تھے۔اس کے
باوجود پورے جنگل میں ہو کا عالم تھا ۔مسلسل شکست دل کے باعث ایک بے حسی کا
عالم تھا ۔بہت سے جانور اپنے نا کردہ گنا ہوں کی پاداش میں جنگل کے بادشاہ
ڈائنو سار کے ظالمانہ احکامات کے تحت ناک اور کان کٹو اچکے تھے ۔اس تمام
ذلت اور رسوائی کے باوجود بے حسی کا یہ عالم تھا کہ نکٹے اور کن کٹے جنگل
کے بادشاہ کے مصاحب بن بیٹھے تھے ۔نکٹے اور کن کٹے جانور جنگل کے بادشاہ کو
غلط مشورے دیتے اور اس اندھیر نگری میں خوب رنگ رلیاں مناتے ۔
دوڑ شروع ہونے کا دن آ ہی گیا ۔اس دوڑ کے ضامن بھی تھے ۔چمگادڑ نے کنڈیالے
چوہے کی ضمانت دی ،الو نے کچھوے کی ضمانت دی ۔دیو ہیکل ،قوی الجثہ ڈائنو
سار اور اس کے دم کٹے ،کان کٹے اور نکٹے مشیروں کا ایک ہجوم یہ تماشا
دیکھنے کے لیے جمع تھا ۔دوڑ کا آغاز ہوا۔خرگوش جس کے لیے سگان ترکی و تازی
کو جل دے کر آگے نکل جانا معمولی بات تھی ،اس نے دیکھتے ہی دیکھتے جست
لگائی اور منزل کی جانب تیزی سے آگے نکل گیا اور جلد ہی منزل مقصود پر جا
پہنچا ۔کنڈیالا چوہا اور کچھوا اپنی روایتی کاہلی ،تن آسانی اور سست روی کے
باعث بہت پیچھے رہ گئے ۔ڈائنو سار نے گردن اکڑا کر اور دم جھاڑ کر جرگے کا
فیصلہ سنایا کہ ہارنے والوں اور ان کے ضامنوں کے کان کاٹ لیے جائیں ۔یہ
سننا تھا کہ کچھوے کی گردن جو روز ازل سے پتھر جیسی جلد پر باہر کی جانب
نصب تھی ،وہ اس نے اندر کھینچی تو اندر غائب ہو گئی ۔اس کے بعدکچھوے نے ایک
گہری جھیل میں چھلانگ لگا دی ۔کنڈیالے چوہے نے بھی آﺅ دیکھا نہ تاﺅ کچھوے
کے مانند اپنی گردن اندر کھینچی اور ایک گیند بن کر لڑھکتا ہو ایک گہرے غار
میں جاگرا ۔حالانکہ پہلے وہ ایسا جسمانی اعتبار سے نہیں تھا۔خوف اور اندیشے
کے باعث اس کی یہ ہیئت کذائی بن گئی۔اب یہ عجیب الخلقت جانوروں کی فہرست
میں شامل ہو گئے ۔ڈائنو سار نے جنگل کا پورا ماحول ہی پر اسرار ،مہیب
اورعجیب بنا دیا تھا ۔جس طرف نظر اٹھتی حد نگا ہ تک عقوبت خانے پھیلے
دکھائی دیتے تھے ۔ایسا پر آشوب دور پہلے تاریخ میں کبھی نہ تھا۔تھا ۔اب
ضامن بھی روپوش ہو گئے ۔چمگادڑ نے دن کو مستقل طور پر روپوش ہونے کا فیصلہ
کر لیا اور تاریک کونے کھدرے ،جنگل کے خرابات اور خستہ حال درختوں کے جھنڈ
اس کا مسکن بن گئے ۔الو نے اجاڑ اور ویران علاقوں کا رخ کیا یہ تمام پیما ن
شکن اپنی بد اعمالیو ں کے باعث اپنے انجام کو پہنچ گئے ۔وہ کس منہ سے اپنی
رسوائی ،رو سیاہی اور جگ ہنسائی کی روداد بیان کرتے ۔سیل زماں کا ایک
تھپیڑا ایسا آیا کہ ڈائنو سا رکی نسل ایک جلد ی بیماری میں مبتلا ہو گئی
۔ان کی لمبی ،بد وضع ،کھردری اور طاقتور دم گلنے سڑ نے لگی اور ان پر کیڑے
مکوڑوں اور چیونٹیوں نے دھاوا بول دیا۔فطرت کی تعزیروں کی زد میں آتے ہی
ڈائنو سار کی پوری نسل ہی صفحہ ءہستی سے معدو م ہو گئی ۔بلی اور لومڑی نے
یہ صورت حال دیکھی تو شیر کے پاس جا پہنچیں۔بلی شیر کی خالہ تھی ۔اس نے شیر
سے کہا : ” اے میرے بھانجے جنگل کا بادشاہ ڈائنو سار اور اس کی تمام نسل
نیست و نابود ہو گئی ہے ۔کوئی بھی جنگل بادشا ہ کے بغیر نہیں رہ سکتا ۔تم
میں بادشاہ کی ساری خوبیاں موجود ہیں۔تم یہ منصب فوری طور پر سنبھال لو ۔اس
سے پہلے کہ کوئی اور جانور مہم جوئی کرے تم اپنی بادشاہت کا اعلان کر دو ۔“
لومڑی بولی ”درندگی ،بے رحمی ،خون آشامی اور مکاری و عیاری تم نے بلی سے
سیکھ رکھی ہے ۔اب دیر کس بات کی ؟اسی وقت جنگل میں اپنی مطلق ا لعنان
بادشاہت کا اعلان کردو ۔“
شیر زور سے دہاڑا ”آج سے شیر جنگل کا بادشاہ ہو گا ۔اس بات کی منادی کر دی
جا ئے ۔جس کو میر ی بادشاہت میں شک و شبہ ہے وہ میرے ساتھ آکر کشتی کر
لے،اس کو نہ صرف اپنی اوقات بلکہ آٹے دال کا بھاﺅ بھی معلوم ہو جائے گا ۔“
وہ دن اور آج کا دن جنگل میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے ضابطے نافذ ہیں
اور تمام جنگلی حیات نسل در نسل شیر کے سامنے کورنش بجا لاتی ہے ۔ |