ارشادِ ربانی ہے:’’کہو، اے اہل کتاب! آؤ ایک ایسی بات کی
طرف جو ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں ہے‘‘۔ آیت کے اس حصے میں اہل کتاب
کو ایک قدرِ مشترک کی طرف آنے کی دعوت دی جارہی ہے۔ اس کے بعد اگر وضاحت
نہ ہوتی تو لوگ نہ جانے کون کون سے مشترکہ پہلو ڈھونڈ نکالتے اس لیے آگے
فرمایا :’’ یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کریں، اس کے ساتھ کسی کو
شریک نہ ٹھیرائیں، اور ہم میں سے کوئی اللہ کے سوا کسی کو اپنا رب نہ بنا
لے‘‘۔ یعنی وہ مشترک نکتہ رنگ ، نسل، زبان ، علاقہ ، وطن ، ملک ، قوم ،
تہذیب و تمدن وغیرہ نہیں ہے بلکہ عقیدۂ توحید ہے۔ اس دعوت کا اگلا مرحلہ
انکار بھی ہوسکتا ہے اس لیے تلقین فرمائی گئی کہ:’’ اس دعوت کو قبول کرنے
سے اگر وہ منہ موڑیں تو صاف کہہ دو کہ گواہ رہو، ہم تو مسلم (صرف خدا کی
بندگی و اطاعت کرنے والے) ہیں‘‘۔ اس وضاحت کےساتھ ہی ’سرو دھرم سمبھاو‘ کی
آڑ میں حق و باطل کو گڈمڈ کرنے کا دروازہ ازخود بند ہوجاتا ہے۔ فرمانِ
ربانی ہے:’’ حق و باطل کو آپس میں خلط ملط مت کرو، اور نہ ہی حق چھپاؤ،
حالانکہ تم جانتے بھی ہو‘‘۔
اہل ایمان کے برعکس دیگرحاملینِ ادیان خاص طور پر اہل کتاب کا مقصد مختلف
شوشے چھوڑ کر مسلمانوں کو اپنے عقیدے سے برگشتہ کرنے اور انہیں اس بات پر
راضی کرنا ہوتا ہے سارےا دیان کو سچا مان کر ان کو اخروی میں نجات کیلئے
کافی سمجھیں ۔ اس بابت قرآن مجید کی صراحت یہ ہے کہ :’’ یہودی کہتے ہیں کہ
''یہودی ہو جاؤ تو ہدایت پاؤ گے'' اور عیسائی کہتے ہیں کہ ''عیسائی بن جاؤ
تو ہدایت پاؤ گے۔'' آپ ان سے کہہ دیجئے : (بات یوں نہیں) بلکہ جو شخص ملتِ
ابراہیم پر ہوگا وہ ہدایت پائے گا اور ابراہیم موحد تھے شرک کرنے والوں میں
سے نہ تھے‘‘۔ یہاں ان کی دعوت کا انکار تو ہے مگر سب کے متفقہ ابوالانبیاء
کا حوالہ دے کردعوت ِ توحید پیش کرنے کا طریقہ بھی سکھایا گیا ہے۔
آگےفرمان قرآنی ہے:’’ (مسلمانو)! تم اہل کتاب سے یوں کہو کہ : ''ہم اللہ
پر ایمان لائے اور اس پر جو ہم پر اتارا گیا ہے اور اس پر بھی جو حضرت
ابراہیم ،اسماعیل ،اسحاق ،یعقوب ،اور ان کی اولاد پر اتارا گیا تھا۔ اور اس
وحی و ہدایت پر بھی جو موسیٰ ،عیسیٰ، اور دوسرے انبیاء کو ان کے پروردگار
کی طرف سے دی گئی تھی۔ ہم ان انبیاء میں سے کسی میں تفریق نہیں کرتے اور ہم
تو اسی (ایک اللہ ) کے فرمانبردار ہیں‘‘۔ دعوت پہنچا دینے کے بعد دوٹوک
انداز میں بیان کردیا گیا ہے کہ : ’’سواگر یہ اہل کتاب ایسے ہی ایمان لائیں
جیسے تم لائے ہو تو وہ بھی ہدایت پا لیں گے اور اگر اس سے منہ پھیریں تو وہ
ہٹ دھرمی پر اتر آئے ہیں‘‘۔
منکرین حق اپنی ہٹ دھرمی کے سبب انکار کےساتھ اہل ایمان کی دل آزاری اور
ابتلاء و آزمائش میں بھی مبتلا کرسکتے ہیں اس لیے آگے ڈھارس بندھاتے ہوئے
فرمایا گیا: ’’ لہذا اللہ ان کے مقابلے میں آپ کو کافی ہے اور وہ ہر ایک کی
سنتا اور سب کچھ جانتا ہے‘‘۔ سلسلہ کلام گواہ ہے کہ انکار کے باوجود دعوت و
تبلیغ کا کام بند نہیں ہوتا بلکہ جاری و ساری رہتا ہے۔ آگےیہ حکمت عملی
سکھائی گئی ہے کہ:’’(نیز ان سے کہہ دو کہ : ہم نے) اللہ کا رنگ (قبول کیا)
اور اللہ کے رنگ سے بہتر کس کا رنگ ہو سکتا ہے؟ اور ہم تو اسی کی عبادت
کرتے ہیں‘‘۔ یہاں داعیٔ حق کو خود اپنی مثال دے کر دین حق کی جانب بلانے کی
ترغیب دی گئی ہے ۔ ارشادِ ربانی ہے :’’ آپ ان سے کہیے : ''کیا تم لوگ ہم سے
اللہ کے بارے میں جھگڑا کرتے ہو جبکہ وہی ہمارا بھی پروردگار ہے اور تمہارا
بھی؟‘‘۔ یہاں پر پھر سے اللہ پر ایمان کو قدرِمشترک کے طور پر پیش کیا
گیااور اگر کوئی انکار کی روش اختیار کرے تو اتمام حجت اس طرح ادا کیا گیا
کہ :’’ ہمارے اعمال ہمارے لیے ہیں اور تمہارے اعمال تمہارے لیے۔ اور ہم
خالصتہ اسی کی بندگی کرتے ہیں‘‘۔قرآنی اسلوب میں دعوتپیش کرنے کے بعد
ہماری دعا یہ ہو نی چاہیے کہ:’’ یہ تو تیری ایک آزمائش ہےجس سے تو جسے چاہے
گمراہ کرتا ہے اور جسے چاہے سیدھی راہ دکھا دیتا ہے۔ تو ہی ہمارا سرپرست ہے۔
لہذا ہمیں معاف فرما اور ہم پر رحم فرما اور تو ہی سب سے بڑھ کر معاف کرنے
والا ہے‘‘۔
|