بیوی، گرل فرینڈ اور ”بے چارے“ مرد

پاکستان میں وزیر داخلہ کو وزیر مداخلت کہنا زیادہ موزوں ہوگا۔ بات یہ ہے کہ جس طرح گھر میں ”وزیر داخلہ“ ہر معاملے میں بلا جواز اور بلا ضرورت ٹانگ اڑاتی ہے، بالکل اُسی طرح ہمارے ہاں جو بھی وزیر داخلہ کے منصب پر فائز ہوتا ہے وہ ہر معاملے میں بلا ضرورت ٹانگ اڑانے کو بھی اپنے منصبی فرائض کا جُز سمجھتا ہے!

کبھی ہم سوچا کرتے تھے جو باتیں ہماری سمجھ میں نہیں آتیں وہ کس طرح سمجھ میں آسکیں گی، کون سمجھائے گا؟ نصیب دیکھیے کہ ہمیں عبدالرحمٰن ملک مل گئے! موصوف کو اللہ نے یہ صفت دی ہے کہ بولتے ہیں تو لوگوں کو روزی ملتی ہے۔ ہم جیسے پتہ نہیں کتنے ہی نام نہاد کالم نگار عبدالرحمٰن ملک کی میڈیا ٹاک کے منتظر رہتے ہیں کہ اُدھر وہ کچھ کہیں اور اِدھر کچھ لِکھنے کی راہ ہموار ہو!

عام آدمی سے پوچھیے تو وہ کہے گا کہ کراچی کی نفسیات کے بارے میں اگر کوئی کچھ جانتا ہے تو وہ عبدالرحمٰن ملک ہیں۔ کراچی کے معاملے میں موصوف ”پی ایچ ڈی“ ہیں! (اب ہم سے یہ مت پوچھیے گا کہ پی ایچ ڈی سے کیا مراد ہے کیونکہ اِس ڈگری کی عوامی تعریف خاصی شرارت آمیز ہے! ہم یہ تعریف اِس لیے پیش نہیں کر رہے کہ وفاقی وزیر داخلہ ملک بھر کی پولیس کا سربراہ ہوتا ہے!) عبدالرحمٰن ملک صاحب اِس شہر کی رگ رگ سے واقف ہیں اور بالخصوص دُکھتی رگوں (اور دُکھتی رگ والوں) کو خوب پہچانتے ہیں! جب بھی کسی کو کراچی کے مزاج کے بارے میں کچھ معلوم کرنا ہوتا ہے، میڈیا سے عبدالرحمٰن ملک کی گفتگو سُن کر کلیجہ ٹھنڈا کرلیتا ہے! الیکٹرانک میڈیا والوں کی مہربانی ہے کہ صرف آگ نہیں لگاتے بلکہ وزیر داخلہ سے ٹاک کرکے ناظرین کی سماعتوں پر کچھ ٹھنڈی اور مزے کی باتیں بھی برساکر ”کمپنسیٹ“ کردیتے ہیں! کبھی کبھی تو عبدالرحمٰن ملک صاحب ایسے ایسے نکات بیان کر جاتے ہیں کہ ہم سوچتے ہی رہ جاتے ہیں کہ یا اللہ! ہمارے وزیر داخلہ کا ذہن ہے یا ماہرین کا پناہ گزین کیمپ! کرمنولوجی، سوشیالوجی، سائکولوجی اور پتہ نہیں کون کون سی ”لوجی“ نے ان کے ”زر خیز“ ذہن میں ڈیرے ڈال رکھے ہیں!

بڑے بڑے سُورما اور تیس مار خاں آئے اور کراچی کو سمجھنے کی کوشش میں ناکام رہے۔ بعض نے یہ پتھر اُٹھانے کی زحمت بھی گوارا نہ کی، بس چُوم کر چھوڑ دیا! اللہ بھلا کرے وفاقی وزیر داخلہ کا کہ اُنہوں نے ہماری کئی مشکلات آسان کردیں۔ کئی معاملات میں اُنہوں نے اِشکال کی شکل ہی بدل دی اور ہم ماہرین سے پوچھتے رہنے کی زحمت سے چھوٹے! جو کچھ کراچی کے بارے میں عبدالرحمٰن ملک فرماتے ہیں اگر اس کا باضابطہ ترجمہ دنیا کے سامنے پیش کیا جائے تو بڑے بڑے ماہرین اور مبصرین شکست تسلیم کرلیں اور سر تسلیم خم کریں!

کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ کراچی کے لوگوں کو عادت سی پڑگئی ہے دہشت گردوں کے ہاتھوں موت کو گلے لگانے کی! دو چار دن سُکون سے گزرتے ہیں اور پھر کچھ نہ کچھ ہو جاتا ہے، یعنی حالات ”معمول“ پر آجاتے ہیں! یہ ہلاکتیں کیوں واقع ہوتی ہیں، اِس راز پر سے عبدالرحمٰن ملک صاحب نے بڑی خوب صورتی سے پردہ اٹھایا ہے۔ موصوف جسمانی طور پر آن کی آن میں کہیں سے کہیں جا پہنچتے ہیں یعنی ابھی اسلام آباد میں ہیں اور پلک جھپکتے میں دُبئی سے ہوتے ہوئے لندن جا نکلتے ہیں۔ اور پھر اِتنی ہی تیزی سے پلٹ بھی آتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ جو لندن ہو آئے اُسے ولایت پلٹ کہا جاتا تھا۔ اب خیر سے ہمارے لوگوں نے لندن کے اِتنے پھیرے لگائے ہیں کہ ولایت ہی اُلٹ پلٹ گیا ہے! خیر، یہ تو ایک جملہ معترضہ تھا۔ یاد رکھیے کہ وفاقی وزیر داخلہ کا ذکر ہو تو نصف گفتگو جملہ ہائے معترضہ ہی میں ہوتی ہے! ہم بات کر رہے تھے آن کی آن میں کہیں سے کہیں جا نکلنے کی۔ عبدالرحمٰن ملک کا جسم ہی نہیں، ذہن بھی بڑے فاصلوں کو پلک جھپکتے میں طے کرلیتا ہے اور وہ چشم زدن میں زمین اور آسمان کو ایک کردیتے ہیں۔ اب اِسی بات کو لیجیے کہ کراچی میں دہشت گردوں کے ہاتھوں ہلاکتوں کی توضیح کرتے ہوئے اُنہوں نے توجیہ پیش کی ہے کہ کراچی میں 70 فیصد ہلاکتیں بیوی یا گرل فرینڈ کے ہاتھوں یا اُن کے باعث ہوتی ہیں! جب ہم نے ایک خبر رساں ایجنسی کی بھیجی ہوئی فیڈ میں یہ خبر پڑھی تو یقین ہی نہیں آیا کہ کراچی کی کائنات کا اِتنا بڑا عُقدہ اِس قدر آسانی سے حل کرلیا گیا ہے! وزیر داخلہ کے ایک جُملے نے زندگی اور موت کو ایک صف میں لا کھڑا کیا۔ اب تک تو ہم (اپنی سادگی اور بھولپن کے ہاتھوں) یہی سمجھتے آئے تھے کہ بیویاں اور گرل فرینڈز صرف جینا حرام کرتی ہیں، اب معلوم ہوا کہ وہ جینا حرام ہی نہیں کرتیں بلکہ موت کو حلال بھی کرتی ہیں! دہشت گردوں کو ایسی عمدہ کلین چٹ دینا کچھ عبدالرحمٰن ملک صاحب ہی کے بس کی بات تھی۔

ہمیں حیرت اگر ہے تو صرف اِس بات پر کہ عبدالرحمٰن ملک صاحب نے باقی 30 فیصد ہلاک شدگان کو دہشت گردوں کے کھاتے میں کیوں ڈالا؟ اگر اُنہیں بھی بیوی یا گرل فرینڈ کے ہاتھوں ہی مروا دیتے تو بے چاروں کے کچھ درجات ہی بلند ہو جاتے، ”شہدائِ وفا“ کی فہرست ذرا اور لمبی ہو جاتی! بقول غالب
سیر کے واسطے تھوڑی سی فضاءاور سہی!

عبدالرحمٰن ملک صاحب نے بیوی اور گرل فرینڈ کے ہاتھوں زندگی کے خاتمے کا ذکر کرکے (ہم سمیت) تمام مردوں کی دُکھتی رگ پر ہاتھ رکھا ہے! کون سا شادی شدہ یا پریم دیوانہ ہے جس کا دِل عبدالرحمٰن ملک صاحب کی اِس بات سے کٹی پہاڑی کی طرح دو لخت نہ ہوگا؟ کون ہے جس نے گرل فرینڈ(ز) والا زمانہ نہیں گزارا اور کون ہے جو بیوی والے زمانے سے نہیں گزر رہا؟ ایک بات پر البتہ ہمیں اعتراض ہے۔ عبدالرحمٰن ملک صاحب نے فرمایا ہے کہ کراچی میں 70 فیصد ہلاکتیں بیوی یا گرل فرینڈ کے ہاتھوں واقع ہوتی ہیں۔ یہ بات کچھ حلق سے اُترتی نہیں۔ بیوی اور گرل فرینڈ کے دام میں پھنسنے کے بعد انسان کو موت ملتی کب ہے، موت کو تو وہ بس ترستا رہتا ہے! آپ کو یاد ہوگا کہ ”مغل اعظم“ میں بے چاری انار کلی کس طرح دین کی رہی تھی نہ دنیا کی۔ ایک سین میں شہنشاہ جلال الدین محمد اکبر نے خاصی گھن گھرج کے ساتھ ”شاہی پالیسی“ بیان کردی ”سلیم تمہیں مرنے نہیں دے گا انار کلی! اور ہم تمہیں جینے نہیں دیں گے!“ بیوی اور گرل فرینڈ کے درمیان پھنسے ہوئے انسان کی بھی کچھ ایسی ہی حالت ہوتی ہے! بیوی ڈھنگ سے جینے نہیں دیتی اور گرل فرینڈ آسانی سے مرنے نہیں دیتی! اس کھیل میں بے چارے مرد بیڈمنٹن کی چڑیا یعنی شٹل کاک بن کر رہ جاتے ہیں! جیسے عبدالرحمٰن ملک صاحب اسلام آباد اور لندن کے درمیان شٹل کاک بنے ہوئے ہیں!
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 525013 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More