ہمدرد

”کوووووووووچُھک چُھک چُھکچُھک چُھک چُھککوووووووووووووو“اور ٹرین ایک جھٹکے کے ساتھ رک گئی۔بھیم پور کے چھوٹے سے اسٹیشن پر زندگی کھل کھلا کر ہنسنے لگی۔ پلیٹ فارم نمبر دو پر صدیوں سے کھڑے پاکھڑکے بوڑھے درختوں پر سفید بگلے خوف زدہ ہوکر بے نشان سمتوں میں اڑنے لگے۔انگریزوں کے زمانے سے اسی ایک جگہ کھڑے دیو پیکر درختوں پر ان بگلوں کی کئی نسلیں مرکھپ چکی تھیں انہوں نے اسٹیشن پر آنے جانے والے مسافرکلیجہ شق کردینے والی ٹرین کی سیٹی اور جنگلی ہاتھی کی طرح چنگھاڑتے ہوئے ریلوے انجن کے بارے میں بہت کچھ سن رکھا تھاانہیں پتہ تھا کہ یہ جگہ پرامن ہے۔یہاں کبھی کوئی شکاری نہیں آتااور گزشتہ سو سال سے ٹرینیں اسی طرح آتی جاتی ہیں کبھی کوئی ٹرین کسی پیڑ سے نہیں ٹکرائی اور نہ کبھی کسی مسافر نے کسی درخت پر چڑھنے یا ڈھیلا پھینکنے کی کوشش کی بگلوں کی اس نئی نسل نے اپنے بزرگوں کو گھونسلوں ہی میں مرتے ہوئے دیکھا تھایا پھر کبھی کوئی بوڑھا بگلا چارے کی تلاش میں دور کھیتوں میں نکل گیا اور پھر لوٹ کر نہیں آیایا پھر کوئی بے بال وپر کمزورسا بچہ آندھی وطوفان میں گھونسلے سے گرا اور کوؤں نے اپنے ننھے منے بچوں کے منہ کا ذائقہ بدلنے کے لیے اسے سیخ پر چڑھا دیا انہیں یہ سب پتہ تھامگرپھر بھی اللہ جانے کیوں ایسا ہوتاتھا کہ جب بھی چیختی چنگھاڑتی کوئی ٹرین فلیٹ فارم نمبر دو پر آتی توایک انجانا سا خوف ان کے وجود کے تمام خلیوں میں گہرائی تک اتر جاتا اور وہ بے اختیار اپنے بے بال وپر بچوں کو گھونسلوں میں تنہا چھوڑ کربے کراں آسمان کی نیلی چادر تلے بے ترتیب اڑنے لگتےاوردوسرے لمحے میں، جب خوف کی لہر ذرا دھیمی ہوتی اور انجن کی طرح دھک دھک کرتے ہوئے ننھے دلوں کا رعشہ ذرا ذرا تھم نے لگتاتوانہیں بچوں کا خیال آتا اوروہ گھونسلوں پر اترنے لگتے،بھوری اور پتلی ٹانگیں درختوں کی گنجی چھتوں کی طرف پھیلائے ہوئے ، سفید لمبے پر نیلے آسمان کی طرف باہم جوڑے ہوئے اورتیز عقابی نظریں بلبلاتے ہوئے بچوں پر جمائے ہوئے ۔

کیلاش ورما نے بڑے دنوں بعد یہ منظر دیکھا تھااس کا دل چاہا کہ یہیں کھڑا رہے اور بگلوں کے اس طرح ایک ساتھ ہوا میں پرواز کرنے اور پھر گھونسلوں پر اترنے کے منظر کو دیکھتا رہےکچھ دیر کے لیے وہ اپنے سارے دکھ بھول سا گیا۔یہاں تک کہ بھاری بھرکم جسم کے بوجھ تلے چرمراتی ہوئی نرم ونازک پنڈلیوں سے اٹھتی ہوئی درد کی ٹیسوں کو بھی جیسے بھول گیاایک طرح سے یہ اچھا ہی ہوا کہ اسے بگلوں کے دکھوں کاعلم نہ تھا، نہیں تو یہ چیز اس کے دکھوں میں مزید اضافے کا باعث بن جاتی اور اسے اپنے مسلسل بڑھتے ہوئے موٹاپے سے اور بھی زیادہ نفرت ہونے لگتی۔موٹاپا تو قابلِ نفرت ہی ہوتا ہے اور وہ ہمیشہ سے اس سے نفرت کرتا تھا ، حتیٰ کہ اس وقت بھی اسے موٹاپے سے نفرت تھی جب وہ موٹا نہیں تھا۔مگر جب خود اس کی بیوی اس پر تشویش کا اظہار کرتی تواسے لگتا جیسے وہ موت کے کنوئیں میں اتر رہا ہے۔

کافی دنوں سے بارش نہیں ہوئی تھی فضامیں گھٹن کا احساس بڑھتا جا رہا تھاجب وہ بھیم پور سے نکلا تھا تو سورج اس کے ٹھیک سر پر تھا مگر اب کافی نیچے اترچکا تھاپھر بھی اس کی سرخ انگارے جیسی ٹکیہ کے سامنے آنکھیں کھلی رکھ پانا مشکل تھاکاندھوں میں دھنسی ہوئی اس کی گردن اوربالوں سے بھرے سینے کے درمیان سے پسینہ کے قطرے نمودار ہورہے تھے اور ذرا ابھار لئے ہوئے پیٹ کے ڈھلان پر تیزی سے بہتے ہوئے سفید بنیان میں جذب ہورہے تھےلمبی اور اونچی شاخوں والی گنجان پاکھڑ کے نیچے آکر اسے ذرا راحت محسوس ہوئی تھی اس نے بیگ نیچے رکھا ، دونوں ہاتھوں کی انگلیاں ایک دوسری میں پھنسا کر ایک دو انگڑائیاں لیں اور لمبے لمبے سانس کھینچے” آہ ہا یار ،گاؤں کی زندگی بھی کتنی حسین ہوتی ہے“اس نے اپنے من میں کہااور شہر کی زندگی کو لعن طعن کرنے لگا۔”بند کمرے ، تنگ گلیاں، دھول اڑاتی ہوئی بسیں اور دھواں اگلتی ہوئی فیکڑیاںجلتی ہوئی کالی سڑکیں اوران پررات دن دوڑتی ہوئی بے چین زندگی۔کیا عذاب کسی اور چیز کا نام ہے؟“اچانک چونے جیسی کوئی سفید چیز اس کے کاندھے پر گری” اونہوں ان بگلوں کو بھی جیسے آدمی سے کوئی پرانی دشمنی ہو، ابھی یہاں آکر کھڑا ہوا ہوں اور ابھی بیٹ کردی ہش“اس نے برا سا منہ بنایا اورشہر اور شہر کے لوگوں کے بارے میں اس کی سوچ ادھوری رہ گئی خیالات کس قدر بے ترتیبی اورکتنی سرعت کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں، جیسے ہوا کی زد پررکھی ہوئی کھلی کتاب کے اوراق جلدی جلدی اور بے ترتیبی کے ساتھ الٹتے پلٹتے رہتے ہیں۔ آدمی کے جسم پر بیٹ کردینے کی پرندوں کی پرانی عادت سے خفگی کی جگہ اس کے کانوں میں اس کی اپنی چھوٹی بہن اور اس کی سہیلیوں کی کھلکھلاہٹ رس گھول رہی تھی کملا جو بچپن ہی میں اس سے ہمیشہ کے لیے جدا ہوگئی تھی اور ایک تکلیف دہ یاد اس کے دل کی تہوں میں کہیں رینگتی ہوئی چھوڑ گئی تھی اور پھر بیتے دنوں کا پورا منظر اس کی آنکھوں میں پھر گیا۔اس دن جب وہ اپنے دادا کی چوپال پر گھنی پاکھڑ کے نیچے کھیل رہا تھا کہ اچانک اس کے سر پر کوئے نے بیٹ کردی اور اس کی بہن کی سہیلیاں کھل کھلا کر ہنس پڑیں، اس وقت اسے ان سب پر غصہ آیا تھا خاص کر اپنی بہن پر پر آج پتہ نہیں کیوں اس کے دل میں یہ خواہش جاگی کہ کاش اس کی بہن زندہ ہوتی اور آج پھر وہ اسی طرح کھل کھلاکر ہنستی۔مگر آج اس پر ہنسنے والا بھی کوئی نہیں تھا۔ یہاں سب جلدی میں تھے کسی کو اتنی فرصت ہی نہ تھی کہ کوئی اس پر ہنسے ۔اور کملا آسمان سے اتر کر نہیں آسکتی تھی۔اس نے آسمان کی طرف دیکھا ۔نیلے آسمان میں دور مغربی افق پر دو سفید بادل منڈلا رہے تھے۔ اسے لگا جیسے کملا انہی بادلوں کے عقب سے اسے دیکھ رہی ہے اور کھل کھلا کر ہنس رہی ہے۔مگر اس بار اسے غصہ نہیں آیا۔حالانکہ وہ اس وقت پرندوں کی اِس ذلیل حرکت پر بھنایا ہوا تھا۔

اِس وقت وہ اُس شہر کی طرف جا رہا تھا جہاں وہ آج سے ٹھیک تیس سال قبل بارہ تیرہ سال کی عمر میں اپنے باپ کے ساتھ آیا تھا۔ اور اب اپنے باپ کی جگہ پر اسسٹینٹ منیجر کی حیثیت سے کام کر رہا تھا۔انجن کی گڑگڑاہٹ اوربدبودار کالے دھوئیں سے اسے جیسے نفرت سی ہوگئی تھی، ٹرین کے سفر سے وہ اسی لیے اکتا تھا کہ وہ تیز آواز کرتی ہے اور ڈھیر سارا دھواں اگلتی ہے۔پر اس کی مجبوری تھی کہ اس کے سوا اور کوئی چارہ بھی نہ تھا۔ بس کے چکر میں وہ پہلے ہی ایک دو گھنٹے گنوا چکا تھا۔ بس کو نہ آنا تھا اور وہ نہ آئی۔اوراس نے مجبوراًایک فیصلہ لیا جو سراسر غلط تھا۔

جنتا ایکسپریس میں جنرل بوگیاں بہت کم تھیں شاید چار یا چھہ نصف انجن کے ٹھیک پیچھے اور نصف سلیپر کلاس کے آخری ڈبے کے بعدایسا اس وجہ سے تھا کہ لوکل ٹکلٹ سے سفر کرنے والے لوگ دو گروہوں میں بٹ جائیں اور انہیں چڑھنے اترنے میں آسانی ہواگر سارے لوکل ڈبے ایک طرف لگادئے جائیں تو بھیڑایک طرف ہی جمع ہوجائے گی او ر لوگ افرا تفری میں ایک دوسرے کو کچل دیں گے۔سرکار ہی عام لوگوں کی فکر نہ کرے گی تو اور کون کرے گااسی لئے اس نے ایسا کیا تھا اور یہ کسی صورت بھی غلط نہ تھا۔

اس نے جلدی جلدی پرندوں کی اس ذلیل حرکت کے سفید نشان کواپنے کاندھے سے صاف کیا اور انجن کے ٹھیک پیچھے والی جنرل بوگی کی طرف دوڑ گیا۔اب تک وہاں کافی بھیڑ جمع ہوچکی تھی۔چڑھنے والوں نے اتنا بھی صبر نہ کیا کہ اترنے والے اتر جاتےایک موٹی عورت اور ایک ادھیڑ عمر کا آدمی اترنے اور چڑھنے کی کوشش میں دروازے میں پھنس گئے”بھگوان کسی کو بھی اتنا موٹاپا نہ دے“کیلاش نے اپنے آپ پر نظر کی اور مسلسل بڑھتے ہوئے موٹاپے کے آزار کا خیال کرکے لرز گیا” ارے ! میرا بچہ“ایک عورت اپنے دوڈھائی سال کے بچے ،ایک عدد بڑی سی پوٹلی اور ایک بیگ لئے چڑھنے کی کوشش کررہی تھی۔بچہ بھوک پیاس،بھیجا فرائی کردینے والی جون کی گرمی اوربے ہنگم بھیڑ کی د ھکم پیل کی وجہ سے بے حال ہورہا تھا اور زور زور سے رو رہا تھاکیلاش کو اس پربڑا ترس آیا اس نے اس کی مدد کرنی چاہی مگر اس وقت وہ خود مدد کا محتاج تھا ”کوووووو“اور پھر، ٹرین ایک جھٹکے کے ساتھ چل پڑی تازہ ہوا کا جھونکا پسینے سے شرابور ہورہے لوگوں کی روح کی گہرائیوںتک اتر گیاکیلاش بڑے جتن کے بعد اپنا بیگ باتھ بیسن پر رکھنے میں کامیاب ہوسکاجہاں پہلے ہی سے دو تین بیگ رکھے ہوئے تھےاور دروازے کے پاس ہی کھڑا ہوگیاکھڑا کیا ہوگیا بلکہ پھنس گیااس کے پاس یہی ایک آپشن تھا کہ جہاں پھنسا ہے وہیں پھنسا رہےاب وہ نہ اس جگہ سے آگے بڑھ سکتا تھا اور نہ پیچھے ہٹ سکتا تھااسے اپنی اس حالت پر بڑا ترس آیااس سے بھی زیادہ جتنا اس روتے بلکتے بچہ پر آیا تھامگریہاں ترس سے آگے کچھ نہ تھا ایک گہری خاموشی کے علاوہ اسے لگا کہ کچھ مجبوری اور کچھ انجانے میں لیا گیا فیصلہ سراسر غلط تھا” اس سے تو یہی بہتر تھا کہ بس سے ہی چلا جاتاتھوڑا ٹائم ہی تو زیادہ لگ جاتاکم از کم بیٹھنے کی جگہ تو مل جاتی مگر کمبخت بسیں بھی تو وقت پر نہیں ملتیں اور ملتی بھی ہیں تو رورو کر چلتی ہیں ایک گھنٹہ تو بس کے انتظار میں ہی چلا گیا“ کیلاش کے دماغ میں جیسے آندھیاں چل رہی تھیں۔جلد ہی وہ ان خیالات سے اکتا گیااور خالی خالی نظروں سے باہر دیکھنے لگااسٹیشن پوری رفتار سے پیچھے کی طرف بھاگ رہا تھاوہ عورت جس پر کیلاش کو ترس آیا تھا پلیٹ فارم پر ہی رہ گئی تھی، اس کے پاس اس کا سامان رکھا ہوا تھااور شیر خوار بچہ ماں کے سینہ سے چمٹا ہوا تھا”بیچاری اس کے ساتھ اس کا آدمی بھی نہیں ہےاکیلی عورت ڈھیر سارا سامان اور معصوم جانکیسا ڈھیٹ ہوگا اس کا آدمی کہ اسے اکیلا چھوڑ دیا مرنے کے لیے“۔

”بابو جیذرا پرے کو کھڑے رہومیری طرف کو کیوں کھسکے چلے آرہے ہومیں تو خود تنگ بیٹھی ہوں“اس نے بمشکل پیچھے کی طرف دیکھااتنی تنگ جگہ میں آسانی سے ادھر ادھر دیکھ بھی تو نہیں سکتا تھا وہی ایک بوڑھی عورت تھی جو بھیم پور سے پہلے کسی اسٹیشن سے چڑھی تھی” تو کیوں چلی آئی ہو مرنے کے لیے “گالی نما الفاظ اس کے لبوں تک آئے پراس نے کچھ سوچ کر اپنے لبوں کو سختی کے ساتھ بھینچ لیا۔یہ اس کی ماں کی عمر کی عورت تھی اور وہ اس عمر کی کسی عورت کو گالی نہیں دینا چاہتا تھا۔

”کیا یہ بھی اکیلی ہے؟“ اس نے دل میں سوچااور اسے ایک بار پھر مردوں پر غصہ آیا آخر یہ اتنے سخت دل کیوں ہوتے ہیں ان کے بڑھاپے کا بھی خیال نہیں کرتےیہاں نوجوان لڑکوں کو چڑھنا اترنا مشکل ہوتاہے اور یہ تو بیچاری عورتیں ہیں اور وہ بھی بوڑھی اور ساتھ میں لدی پھندی بھی نامر دکہیں کے“اس نے تمام مردوں کو گالی دی
”سوری معاف کرنا بھائی“

اس نے ایک بار پھر پیچھے دیکھنے کی کوشش کی تھی تاکہ اس ماں جیسی عورت پر ایک بار پھررحم بھری نگاہ ڈال سکےاور اس کوشش میں دوسرے آدمی کے پیرکی انگلیاں کچل دیں۔کالے موٹے چہرے میں ابھری ہوئی دو خونی آنکھیں اس کے چہرے پر جمی ہوئی تھیں۔خوف کی ایک لہر اس کے بدن میں اوپر سے نیچے تک اتر گئی۔مگر اس نے بے پروائی کا مظاہرہ کیا ،جیسے اسے کسی کا کچھ ڈر نہیں۔

ٹرین تیز رفتار سے چل رہی تھی جو لوگ بیٹھے بیٹھے اونگھ رہے تھے ان کے سر ڈگڈگی کی طرح ہل رہے تھےجو کھڑے تھے وہ اپنے پیروں کو بار بار بدل رہے تھےکیلا ش اپنے ۲۷ کلو وزن کے ساتھ داہنے پیر پر کھڑا تھادوسرے پیر کے لیے صرف اتنی جگہ تھی کہ وہ انگلیاں ٹکا سکتا تھاکچھ لوگ جن میں زیادہ تر بوڑھے مرد اور عورتیں تھیں نیچے فرش پرقابل رحم حالت میںلیٹے یا بیٹھے ہوئے خراٹے بھر رہے تھے ، ان کے جسم ،گوشت کے بے جان پارچوں کی طرح ہل رہے تھےجن سیٹوں پر چار لوگ بیٹھ سکتے تھے ان پر آٹھ آٹھ لوگ بیٹھے تھےجبکہ اوپر والی سیٹوں پر دو دو آدمی براجمان تھے ایک دو تومستی کی نیند سورہے تھے اور باقی نیچے فرش پر بے سدھ پڑے ہوئے جسموں کے ابھرے ہوئے حصوں پر نظریں گاڑے ہوئے تھےجب انہیں لگتا کہ کوئی انہیں دیکھ رہا ہے تو وہ غنود گی کی حالت میں چلے جاتے اور جب انہیں محسوس ہوتاکہ دوسرے سب بھی اونگھ رہے ہیں تو ان کی نظریں ایک بار پھر ابھرے ہوئے حصوں کو چاٹنے لگ جاتیں۔پر یہ ان کی مجبوری بھی تھی ایسی جگہ جہاں صرف نظریں ہی گھمائی جاسکتی تھیں وہ اور کر بھی کیا سکتے تھے۔

کسی کی ہمت نہیں تھی کہ ان مسٹنڈوں کو اٹھائے یا ان سے تھوڑی جگہ بنانے کو کہے اور اوپر والی سیٹ پر بیٹھ جائےکیلاش نے کئی بار ہمت جٹانے کی کوشش کی مگر پھر کچھ سوچ کر خاموش رہا جو لوگ جاگ رہے تھے وہ بیڑی کے کش کھینچ رہے تھےکچھ نے گٹکا منہ میں بھر رکھا تھا اور کچھ اپنی میلی ہتھیلیوں پر چونا تمباکو مسل رہے تھےپسینے کی بدبو ،گٹکے کی مہک اور بیڑی کے دھوئیں سے ڈبے کی فضا منوں ٹن بوجھل ہورہی تھی کیلا ش کی حالت ایسی ہورہی تھی جیسے ابھی اس کو ابکائی آجائے گی اس نے پیر بدلا اور منہ پر رومال رکھ لیااس وقت اس کے اختیار میں صرف اتنا ہی تھا سو اس نے کرلیاہاں آنکھیں بھی اس کے اختیار میں تھیں وہ ان کو جدھر چاہتا گھما سکتا تھاسو وہ انہیں گھما رہا تھاپر ان پر بھی پورا اختیار نہ رہا تھا کیونکہ اب وہ بھی نیند کے خمار سے بوجھل ہونے لگی تھیں مگروہ سو بھی نہیں سکتا تھا ایک پیر پر کھڑے کھڑے سونا کوئی آسان بات نہ تھی۔مگر وہ مسٹنڈہ جس نے ابھی اس کو خونی نظروں سے دیکھا تھا داہنے ہاتھ سے اوپر والی سیٹ کی زنجیر پکڑے ایسے سورہا تھا جیسے ایئر کنڈیشنڈ روم میں نرم وگداز پستر پر لیٹا ہوا ہو۔تب اس کو یقین ہوا کہ اس کے دادا جان ٹھیک کہتے تھے کہ نیند ایک ایسی چیز ہے جو پھانسی کے پھندے پر بھی آسکتی ہے۔

”کیا یہ لوگ کبھی نہاتے ہی نہیں ہیں کیا پتہ ان کے یہاں پانی کی کمی ہویا انہیں فرصت ہی نہ ملتی ہو“ اگر اُدھر دوسری طرف کونے میں اپنے بوڑھے باپ کی پھیلی ہوئی ٹانگوں پر سر رکھ کر سوتی ہوئی وہ سانولی لڑکی نظر نہ آرہی ہوتی تو وہ یہی گمان کرتا کہ جن جن علاقوں سے یہ لوگ آرہے ہیں وہاں پانی کی کمی ہوگی مگر اس کا چہرہ تو ایک دم صاف تھا جیسے ابھی نہا دھوکر آرہی ہواس کے کان میں پڑا ہوا سونے کا جھمکا صراحی نماگردن کی گولائی پر ادھر ادھرڈول رہا تھا، اس نے پیر سمیٹ رکھے تھے اور گھٹنے بھوک سے پچکے ہوئے پیٹ میں رکھ لئے تھےبوڑھے باپ نے جب دیکھا کہ اوپر والی سیٹ پر بیٹھے ہوئے مسٹنڈے نیند کے خمار سے سوجی ہوئی آنکھیں باربار کھولتے ہیں اور اس کی طرف گرم نظروں سے دیکھتے ہیں تو اس نے اس کے چہرے پر ساڑی کا پلو پھیلا دیا ”سونو ! اُدھر دیکھ کیا مال ہے؟“ دو نوجوان لڑکے جو بھیم پور سے اس کے ساتھ سوار ہوئے تھے ، انہوں نے گیٹ پر اپنی جگہ بنائی ، آس پاس کی سواریوں پر ایک نظر ڈالی اور پھر ان میں سے ایک نے دوسرے کے کان میں سرگوشی کی۔” چلو! ٹائم جلدی پاس ہو جائے گا“دوسرے نے اسی طرح کی سرگوشی میں جواب دیا تھا۔ کیلاش نے اس وقت کچھ خیال نہ کیا تھا مگر اب جب وہ بھی ایک طرح کی محویت کے عالم میں تھا اور اپنے ۲۷ کلو وزن سے دکھتے ہوئے داہنے پیر کی تکلیف کو بھول گیا تھاتو اسے سمجھ میں آیا کہ بوڑھے درختوں کی طرح اُسی ایک جگہ ٹہرا ہوا وقت جلدی کس طرح پاس ہو سکتا ہے۔ان کا اشارہ اسی دبلے پتلے ،مگر گٹھے ہوئے جسم اور سانولے اور تیکھے نقوش والے چہرے کی طرف تھا۔کیلا ش کا جی چاہا کہ ان کی خیریت پوچھے مگر دفعتا اسے اپنے دکھتے ہوئے داہنے پیر میں مزید دکھن کا احساس ہوااور اس کا غصہ صرف پیر بدلنے کے عمل تک محدود رہ گیا۔اسے لگا جیسے وہ اپنے جسم کی کھال میں قید ہے۔ اور اس قید سے رہائی آسان نہیں، نہ غصہ اس دبیزکھال کو توڑ سکتا ہے اور نہ ہمدردی کا جذبہ اسے پگھلا سکتا ہے۔وہ اس کھال میں قید پیدا ہوا ہے اور اسی حالت میں مرجائے گامگر مرجانا شاید بہتر ہو،کم از کم زندہ رہنے کے مقابلے میں۔

”چُھک چُھک چُھک کووووووووو“اور ٹرین پھر ایک معمولی جھٹکے کے ساتھ رک گئی یہ کوئی بڑا اسٹیشن تھا، یہاں بھیم پور اسٹیشن کے مقابلے بھیڑ زیادہ تھی ۔یہاں پر بڑے بڑے پاکھڑ کے پیڑ نہیں تھے ۔اسٹیشن کی عمارت جدید طرز پر بنائی گئی تھی ، صفائی ستھرائی کا انتظام معقول تھا اور یہاں آنے جانے والے لوگ بھی صاف ستھرے اور منجھے ہوئے دکھائی دے رہے تھے۔مگر لدی پھندی جنتا ایکس پریس کے لئے یہاں پر بھی لادنے کو بہت کچھ تھا۔یہاں بھی جنرل بوگیوں میں سفر کرنے والوں کی خاصی بھیڑ تھی۔ابھی ٹرین پوری طرح رکنے بھی نہیں پائی تھی کہ بے قابو بھیڑ جنرل بوگیوں کے دروازوں پر پل پڑی اور ایک بار پھر بھیم پور کے اسٹیشن کا منظر ابھرنے لگادھکم پیل ،بلبلاتے ہوئے بچے اور پیچھے چھوٹتی ہوئی عورتیں۔

کیلاش کو ایک بار پھر پچھلے اسٹیشن پر چھوٹ جانے والی عورت یاد آئی اور وہ اس کی مدد نہ کر پانے کی اپنی بے بسی پر جھنجلا کر رہ گیا۔

”اللہ کے نام پر کچھ دے دو بابوجی“ دو بوڑھی آنکھیں جن کے کالے حصوں پر بھی سفیدی غالب تھی ، ہڈیوں کے ڈھانچے کے اندر قطب نما کی سوئی کی طرح کپ کپا رہی تھیں۔اس کی بیٹھی بیٹھی آواز نے اس کاخیال توڑ دیا ۔اس کو ذہنی شاک لگا کیونکہ وہ اس مجبور عورت کے بارے میں مزید سوچنا چاہتا تھا۔وہ مدد نہ کرسکا یہ اس کے بس میں نہ تھا ،پرسوچ تو سکتا تھا ، یہ اس کے بس میں تھا۔

”معاف کرو بابا ۔ آگے جا کر مانگ لو“اس کے انداز میں جھنجلاہٹ نمایاں ہورہی تھی۔ اور لکڑی کی ٹوٹی پھوٹی بیساکھیوں پر جھولتا ہوا ادھ مرا جسم دوسرے بابوکی تلاش میں آگے کو رینگ گیا۔

کیلاش نے ایک نظر اپنے بیگ کو دیکھا کہ وہ اپنی جگہ پر موجود ہے یا نہیں اور دوسری نظر بیساکھیوں پر جھولتے ہوئے اور دور جاتے ہوئے اَدھ مرے بوڑھے آدمی کو ۔اسے کوفت سی ہونے لگی ، اس نے ہمدردیوں سے وابستہ تمام خیالات کو جھٹک دیا اور ایک بار پھر وہی سانولہ چہرا ، اُجلا اُجلا ، ڈَھلا ڈھلایا ، دُھلا دُھلایا،نورانی سا ،کتابی سا اس کے ذہن کی اسکرین پر ابھرنے لگا۔پھر ٹرین چلنے لگی اور صراحی جیسی گردن کی گولائی پر اِدھر اُدھر لڑھکتا ہوا سونے کا جھومر اس کے من میں گدگدی پیدا کرنے لگا۔اس نے اپنے دل پر ہاتھ رکھ لیا اور ایک لمبی آہ کھینچی۔پھر پتہ نہیں کہاں سے آنکھوں کے گہرے سمندر میں حیا کے سائے اتر آئے۔ اس نے پلکیں گرالیں، سینہ کی جیب میںرکھے ہوئے پرس کے اندر سے کملا اپنی سفید اسکول ڈریس میں مسکرا رہی تھی۔خلاف معمول اس وقت وہ اس پر نظر روک نہ سکا ،اس نے نگاہ اٹھائی اورتیزی کے ساتھ پیچھے کو بھاگتے ہوئے پیڑ پودوں اور کھیتوں کو دیکھنے لگا۔اسے پتہ ہی نہ چلا کہ سینہ پر رکھا ہوا اس کا ہاتھ کس طرح خود بخود پھسل گیا اوردل میں گھماسان مچاتی ہوئی آہ کس طرح خود بخود مرگئی۔

بھیڑ مسافروں کے لیے ہمیشہ مسئلہ ہوتی ہے اور شاید ذمہ دارریلوے عملے کے لئے بھی تھوڑا بہت مسئلہ ہوتی ہوگی، پر ان خوانچہ برداروں کے لیے بھیڑ کبھی کوئی مسئلہ نہیں ہوتی ۔جب بھی کوئی اسٹیشن آتا تو کئی خوانچہ بردار ایک ساتھ ڈبے میں چڑھنے کوشش کرنے لگتے۔ایسی بھیڑ میں جہاں لوگ دونوں پیر وں پر کھڑے نہیں ہوسکتے تھے وہ تیر کی طرح آتے اور تیر کی طرح نکل جاتے ۔ان کے ایک ہاتھ میں بڑی سی تشتری یا ٹوکری ہوتی جسے وہ لوگوں کے سروں کے اوپر اٹھائے رکھتے اور دوسرے ہاتھ سے لوگوں کو ہٹاتے ہوئے آگے بڑھتے جاتے اور گرم نمکین سموسے ، پوری کچوری ، مسالے دار چنے ، کول ڈرنکس اور فروٹ چاٹ بانٹتے جاتے۔

جب ٹرین ایک ہلکے جھٹکے کے ساتھ رکتی تو سونے اور اونگھنے والے لوگ بھی جاگ جاتے اور گندے ہاتھوں اور پیلے دانتوں کے ساتھ پیٹ پوجا کرنے کی فکر میں جٹ جاتے جیسے کئی دن کے بھوکے ہوں۔اتنی بھیڑ میں باتھ روم تک جانا مشکل تھا ، تو ہاتھ دھونے یا کلی کرنے کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا ۔ اس ڈبے کا حال تو یہ تھا کہ باتھ روم بھی چھوٹے چھوٹے کمروں میںتبدیل ہوگئے تھے ۔ ان میں بھی آٹھ آٹھ اور دس دس لوگ بیٹھے یا کھڑے تھے، جن میں کئی عورتیں بھی تھیں اور بچے بھی۔اب کوئی کچھ بھی سوچے ،پریہاں کم از کم اتنا تو آرام تھا کہ یہاں دونوں پیروں پر کھڑا ہوا جاسکتا تھا اور پھر باہر سے کسی دوسرے شخص کے آنے کا سوال بھی پیدا نہیں ہوتا تھا ۔مگر جب کسی بچہ کو باتھ روم جانے کی ضرورت پڑجاتی تب مشکل پیش آجاتی تھی۔بڑی عمر کے لوگ تو خیر برداشت کئے بیٹھے رہتے تھے پر بچے تو برداشت نہیں کرسکتے تھے، ان کے لیے تو باتھ روم خالی کرنا ضروری تھا اور یہاں یہ ایک مشکل ضرور تھی۔ گیٹ پر کھڑے لوگ تو مزید مشکل میں پڑ جاتے تھے جب ہر اسٹیشن پر دو چار لوگوں کا اضافہ ہوجاتاتھا۔پتہ نہیں ریل کا ڈبہ تھا یا جہنم کا گڑھا کہ جو آتا جاتا، سماتا جاتا۔

اس اسٹیشن پر جب دو لوگ اترے اور ان کے بدلے دوسرے چار لوگ چڑھے تو کیلاش کی مشکل ایک بار اور بڑھ گئی اس کاجی چاہا کہ اپنے آپ کو تماچے مارے ”تھوڑی دیر اور صبر کرلیتا، کیا پتہ بس آہی جاتی بس میں کم از کم بیٹھنے کو جگہ تو مل جاتی یہی تو ہوتا کہ کچھ تاخیر سے گھر پہونچ جاتا“اسے جنتا ایکس پریس میں لوکل ٹکٹ سے سفر کرنے کا فیصلہ انتہائی احمقانہ لگا۔

”ٹرن ٹرن ٹرن“دفعتا اس کا موبائل جیسے چیخ اٹھا۔ لکھنو سے اس کے چچا تھے جو اس کی خیریت دریافت کررہے تھے اور یہ بتانے کے لیے فون کررہے تھے کہ وہ ٹرین سے آئے ۔ کیونکہ لکھنو پہونچنے والی تمام سڑکوں پر کسانوں نے دھرنا دیاہوا ہے اور تمام راستے جام کردئے ہیں۔بسیں سارا سارا دن جام میں پھنسی رہتی ہیں۔

”مگر ابھی پرسوں تو میں بس سے آیا تھا تب تو کچھ بھی نہیں تھا“ اس نے جواب دیا۔ ”ہاں ! مگرکل صبح سے تمام راستے بندہیں۔“

”آپ فکر نہ کریںمیں ٹرین ہی سے آرہا ہوں اورجلد ہی پہونچنے والا ہوں“اس نے چچا کو تسلی دی اور دل میں سوچا کہ اچھا ہوا جو اس نے ٹرین سے جانے کا فیصلہ لیا۔ورنہ کہیں جام میں پھنسا ہوا گرمی میں سڑ رہا ہوتا۔اور صبح کودوست کی بیوی کے انتم سنسکار میں بھی شریک نہ ہوپاتااب اسے یقین ہوا کہ کچھ مجبوری اور کچھ بے وقوفی میں لیا جانے والا فیصلہ غلط نہیں تھا۔اسے لگا جیسے عقل کے علاوہ کوئی اور چیز ہے جو یہ فیصلہ کرتی ہے کہ کونسا فیصلہ غلط ہے اور کونسا غلط نہیں ہے۔

”کسان مانگیں دھرنےچکا جام اور لاٹھی چارج“ اسے یاد آیا کہ وہ اس طرح کی خبریں پہلے بھی سنتا رہا ہے، کبھی ٹی وی پر اور کبھی فیکٹری کے ساتھیوں کی زبانی۔”تو کیا گاؤں کی زندگی صرف باہر سے حسین ہے اور یہ صرف شہر سے پکنک پر آنے والے لوگوں کو ہی خوبصورت لگتی ہےیہاں رہنے والے بھی شہر والوں کی طرح عذاب میں ہیں“ اس نے دل میں سوچا ۔اور ایک بار پھر خیال بدل جانے پر اسے کوفت ہوئی۔اور پھر اسے یاد آیا کہ بچن میں جب کبھی وہ اپنے باپو کے ساتھ ایک دو دن کے لیے شہر جایاکرتا تھا تو اس کوشہر کتنا خوبصورت اور حسین لگتا تھا۔ بڑی بڑی سڑکیں ، ان پر دوڑتی ہوئی بڑی بڑی بسیں اور کاریں، اونچی اونچی عمارتیں اور ہرے بھر ے پارک اور پارکوں میںطرح طرح کے جھولے اور ان پر اٹکھیلیاں کرتے ہوئے خوبصورت گڑیوں جیسے بچےکتنا حسین اور خوبصورت لگتا تھا یہ سب اس وقت۔

ابھی چند منٹ پہلے تک وہ جس طرح کی کوفت محسوس کررہا تھا ایک ذراسی خبر ملنے پر ساری کوفت جیسے کافور ہوگئی۔پیر کی تکلیف ختم ہوگئی اور ٹرین میں بیٹھے ہوئے تمام لوگ جیسے اجلے اجلے لگنے لگے۔خونی نظروں سے اس کو گھورنے والا آدمی بھی اب اس کو جیسے شریف اور ہمدرد لگنے لگاتھا۔ اور وہ سانولہ چہرہ سونے کا جھومرپیلی ساڑی اور پیٹ میں رکھے ہوئے گھٹنےاس کی آنکھوں کے نیلے افق پرست رنگی دھنک جگمگانے لگی۔

ہوا کی زد پر رکھی ہوئی کھلی کتاب کا منظر اس کی آنکھوں میں پھر گیا۔اسے لگا جیسے ہوائیں اس کے خیالات کوبھی اسی طرح الٹتی پلٹتی رہتی ہیں۔

”تو یار ! تم نے ٹی ٹی سے بات کرکے سیٹ کیوں نہ لے لی کچھ پیسے ہی تو خرچ ہوجاتےکیلاش تم بھی نانرے وہی ہو وہ کیا کہتے ہیں ہاں یاد آیاکنجوس، مکھی چوس“۔

پندرہ جون کی نصف النہار کا سورج آگ کا لباس پہنے مغربی افق کی طرف تیزی سے بڑھ رہا تھا۔ اور کیلاش اپنے آفس میں بیٹھا ، اپنے دوست رام گوپال کو سفر کی روداد سنا رہا تھا۔کیلاش کو رام گوپال کا یہ ریمارک پسند نہ آیا ۔اسے لگا جیسے کوئی اس کو گالی دے رہا ہے۔ اسے اپنے دوست کے چہرے پر اس خونی آنکھوں والے کی شبیہہ نظر آئی۔
”بات یہ نہیں ہے کہ میں کنجوس ہوں “
”تو پھر بات کیا ہے“رام گوپال نے لفظوں کو چباتے ہوئے پوچھا۔
” بات یہ ہے کہ میں عام آدمی کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا چاہتا ہوں میں ان کی زندگی کے دکھ درد کو قریب سے دیکھنا چاہتاہوں اور میں ان کے غم بانٹنے کی فکر رکھتا ہوں“۔

اس نے دونوں کہنیوں کو میز پر رکھا، اپنا چہر ہ رام گوپال کے قریب کیا اور اس کی طرف شوخ انگیز نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔

” عام آدمی اوہو کیا بات ہےعام آدمی کی بات کیلاش !جب تم عام آدمی کی بات کرنے لگوگے توپارلیمنٹ کے ممبرکیا بات کریں گے؟“ وہ جیسے سنجیدہ ہو رہا تھا۔

” ان کے لیے ہے نا ”دہشت گردی“کا کبھی نا ختم ہونے والا موضوع اسامہ زندہ باد“

”مگر اسامہ تو مرگیا“

”اسامہ ہی تو مرگیا اس کی روح تھوڑی نا مرگئی روح تو زندہ ہے امریکہ اس کا کوئی اور نام رکھ لے گا۔“

اور آفس کی کھڑکیوں پر پڑے ریشمی پردے بلند قہقہوں سے اٹھنے والی ارتعاش انگیز لہروں کے دباؤ سے لرزنے لگے۔
mohammad ilyas Rampuri
About the Author: mohammad ilyas Rampuri Read More Articles by mohammad ilyas Rampuri: 22 Articles with 20872 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.