باقی دنیا کی طرح پاکستان کے
عوام بھی چھوٹی چھوٹی باتوں میں خوشیاں تلاش کرتے ہیں۔ بڑی باتوں میں
خوشیاں اِس لیے نہیں ڈھونڈی جاتیں کہ اِن باتوں کے بوجھ تلے خوشیاں دم توڑ
دیتی ہیں! زمانہ ایسا بدلا ہے کہ غریب ہر معاملے کو مسرت کے حصول کا ذریعہ
سمجھنے لگے ہیں۔ ایک جگہ ہم نے دیکھا کہ بھیڑ سی لگی ہے۔ لوگ ہار پھول لیکر
کسی کا استقبال کر رہے ہیں۔ ہم نے سوچا حج کا سیزن ہے تو نہیں، شاید کوئی
عمرے کی سعادت پاکر وطن واپس آیا ہے۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ ایک صاحب کام
پر گئے تھے اور سلامت واپس آگئے ہیں! ساتھ ہی یہ بھی جاننے کو ملا کہ دفتر
سے موصوف کی واپسی کو روزانہ ”سیلیبریٹ“ کیا جاتا ہے! کراچی، اللہ مزید نظر
بد سے بچائے، ایسا ہوگیا ہے کہ سانسوں کے تسلسل کا برقرار رہنا بھی ایک
مستقل خوشی میں تبدیل ہوتا جارہا ہے! زندہ رہنا کل تک کسی گنتی میں نہ تھا،
مگر آج زندہ رہ پانا بھی کمال کا درجہ رکھتا ہے! بعض لوگوں کو ہم نے دیکھا
ہے کہ شام ڈھلے یا رات گئے دفتر یا فیکٹری سے بحفاظت گھر واپسی پر دریائے
حیرت میں غرق ہو جاتے ہیں، بڑی مشکل سے یقین آتا ہے کہ کھلی سڑکوں سے گزر
کر بھی وہ سلامت رہے ہیں اور گھر تک آ پہنچے ہیں! ایسے میں وہ زمانہ اب
زیادہ دور نہیں لگتا جب لوگ اپنے دوستوں کو فون کرکے فخر سے بتایا کریں گے
کہ ”آج تو میں کمرے سے نکل کر دالان (یا بالکنی) میں چالیس منٹ تک بیٹھا
رہا اور پھر بحفاظت کمرے میں واپس بھی آگیا!“
ایک زمانہ تھا جب بس میں سیٹ ملنے کو بھی درخور اعتناءیعنی شکر گزاری کا
موقع نہیں گردانا جاتا تھا۔ اب حالت یہ ہے کہ لوگ مطلوبہ بس کو آتا دیکھ کر
مسرت محسوس کرتے ہیں اور بس میں کھڑے ہونے کی گنجائش بھی دکھائی دے تو مسرت
دُگنی ہوتی جاتی ہے اور وہ اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے فوراً بس کی طرف
لپکتے ہیں! اگر چار چھ اسٹاپ گزرنے کے بعد سیٹ بھی مل جائے تو سمجھ لیجیے
کہ دِل کی مراد مل گئی، لاٹری نکل آئی!
حالات کا رونا تو سبھی روتے ہیں۔ اگر آپ بھیڑ چال سے بچتے ہوئے خوشی محسوس
کرنا چاہیں تو یقین کیجیے کہ کراچی میں ”مواقعوں“ کی کمی نہیں۔ کوچ میں اگر
آپ کھڑکی کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھے ہوں اور چھت پر موسم کے مزے لیتے ہوئے
سفر کرنے والوں کی تھوکی ہوئی پان کی پیک کے چھینٹے آپ پر نہ گریں تو خوش
ہونا آپ پر واجب ہے! بعض لوگ اِس حالت میں گھر پہنچتے ہیں کہ پان کی پیک کے
چھینٹوں سے کپڑے خاصے ہیبت ناک ہوچکے ہوتے ہیں اور لوگ اِنہیں خون کے
چھینٹے سمجھ کر لاشعوری طور پر اُنہیں احترام کی نظر سے دیکھنے لگتے ہیں!
اِضافی محنت کے بغیر یوں احترام پانے والے خاصی ”سَفّاک“ سی خوشی محسوس
کرتے ہیں! یہ کچھ کچھ ویسی ہی خوشی ہے جو عید الاضحیٰ کے تین دنوں میں
عارضی قصّاب کی حیثیت سے مضبوط دیہاڑی کمانے والوں کو خون آلود کپڑوں میں
گھومنے سے مِلا کرتی ہے!
حالات کے ہاتھوں سب کچھ اِس قدر اُلٹ پلٹ گیا ہے کہ جب حکام کہتے ہیں کہ
حالات ”معمول“ پر آگئے ہیں تو دِل دہل جاتا ہے! وہ زمانے تو ہوا ہوئے جب
امن اور استحکام معمول تھا۔ اب تو قتل و غارت کے درمیان امن و استحکام مختر
سے وقفے کی صورت نمودار ہوتا ہے! ایسے میں حالات کے ”معمول“ پر آنے کو قتل
و غارت، ہنگامہ آرائی، کاروباری سرگرمیوں کا تعطل اور خوف و ہراس کا پھیلنا
نہ سمجھا جائے تو اور کیا سمجھا جائے! ایسے میں جی چاہتا ہے کہ حالات کچھ
دیر تو ”معمول“ پر نہ رہیں! جنہیں ”معمولات“ بگاڑنے کا ٹاسک سونپا گیا ہے
اُنہیں ہماری چھوٹی اور معصوم سی خواہشات کا تو احترام کرنا ہی چاہیے!
ٹریفک جام اب اِس قدر معمول کی بات ہے کہ گھر سے نکلتے وقت لوگ نفسیاتی طور
پر اِس بات کے لیے تیار ہوتے ہیں کہ سڑک پر گاڑی کہیں نہ کہیں پھنس جائے
گی، اٹک کر رہ جائے گی! اور اگر ایسے میں ”غیر معمولی“ بات رُونما ہوجائے
یعنی سڑکوں پر گاڑیاں رواں دواں ہوں، کہیں کوئی رکاوٹ محسوس نہ ہو تو کیا
آپ کا دل خوش نہ ہوگا؟ یقیناً ہوگا کہ یہی چھوٹی چھوٹی خوشیاں آپ کا خون
بڑھاتی ہیں۔ اطمینان رکھیے کہ ایسی ہی چھوٹی چھوٹی خوشیاں آپ کو وقتاً
فوقتاً ملتی رہیں گی!
مہنگائی نے اپنا جلوہ قدم قدم پر اِس طرح دِکھانا شروع کیا ہے کہ ہم نے یہ
بھی دیکھا ہے کہ بہت سے لوگ کسی چیز کی قیمت میں کمی واقع نہ ہونے پر غم
زدہ ہونے کے بجائے اِس بات پر اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ قیمت ”مستحکم“
یعنی برقرار ہے! گویا قیمت کا نہ بڑھنا بھی کمی ہی زُمرے میں شمار کیا جانے
لگا ہے!
کون سی چیز ہے جو افراطِ زر کے اثرات سے محفوظ ہے؟ اشیاِ خور و نوش اور
روزمرہ استعمال کی بہت سی اشیاءکی قیمتیں آبادی کی رفتار سے بھی زیادہ
رفتار سے بڑھ رہی ہیں۔ جب تک کھیتوں میں ہوتی ہیں، سبزیوں کو کوئی پوچھتا
بھی نہیں۔ بس منتظر ہی رہتی ہیں کہ کوئی توڑے اور کھائے! مقام کی تبدیلی
اُن کی قدر و قیمت میں بھی بے مثال تبدیلی کی راہ ہموار کرتی ہے!
سر پھول وہ چڑھا جو چمن سے نکل گیا
عزت اُسے ملی جو وطن سے نکل گیا!
کے مصداق سبزیاں کھیت سے شہر کی سبزی منڈی تک پہنچتی ہیں تو اُن کی شان ہی
نرالی ہوجاتی ہے۔ سبزیوں کے دام یومیہ بنیاد پر تبدیل ہوتے ہیں۔ ایسے میں
اگر دوچار دن دام نہ بڑھیں تو دل کو ایسی خوشی ملتی ہے کہ یقین ہی نہیں
آتا!
کریلے بعض اِنسانوں کی طرح پیدائشی کڑوے ہوتے ہیں اور اگر مہنگائی کے نیم
پر چڑھ جائیں تو اُن کا کڑوا پن دو آتشہ ہو جاتا ہے! جو ٹنڈے اور کدّو مذاق
اُڑانے کے لیے استعمال ہوتے ہیں اُن کی قیمت سُن کر اپنی ٹِنڈ پر چپت پڑتی
محسوس ہوتی ہے! ایسے میں اگر کبھی، نجم مقدر کے اوج پر ہونے کے طفیل، ایسی
ہی دو چار سبزیاں سستی ملیں تو لگتا ہے کہ امیدوں کی کھیتی ہری ہوگئی ہے،
ایک نیا جہاں مل گیا ہے! یاد رکھیے غریبوں کو نیا جہان اِسی طرح مِلا کرتا
ہے!
جو حال سبزیوں کا ہے وہی انڈوں کا ہے۔ اُن کے دام سن کر خریدار کا منہ زردی
کی طرح پیلا پڑنے لگتا ہے! چار انڈوں کا آملیٹ بنانا ہو تو اچھے خاصے پیسوں
کا آملیٹ بن جاتا ہے! ہوٹل میں تو دو یا تین انڈوں کا آملیٹ بنوائیے تو اُس
میں انڈے کون گنتا ہے مگر گھر میں آملیٹ بنانا ہو تو لگ پتہ جاتا ہے! انڈوں
کے دام اُسی طرح اچانک چڑھتے اُترتے ہیں جس طرح ہمارے ہاں اچانک جمہوری
حکومت کی بساط لپیٹ دی جاتی ہے! کئی بار ہم نے سوچا کہ کیا انڈے کے خول میں
سونا ہوتا ہے جس کی قیمت دکاندار ہم سے وصول کر رہے ہوتے ہیں! اگر تین چار
دن انڈوں کے دام نہ بڑھیں تو دل کو عجیب سے راحت محسوس ہوتی ہے اور وہ کچھ
دیر کے لیے مایوسی کے خول سے باہر آ جاتا ہے! ایسے میں دکاندار سے زیادہ
مُرغی کا شکریہ ادا کرنے کو جی چاہتا ہے!
کراچی والوں کو سمندر جیسی نعمت سے سرفراز کرکے قدرت نے واقعی بڑا احسان
کیا ہے۔ لوگ ساحل پر ٹھنڈی ہوا سے محظوظ ہوتے رہتے ہیں۔ بعض لوگوں کو ہم نے
ساحل پر لمبے لمبے سانس لیتے ہوئے دیکھا ہے گویا دو تین دن کا اسٹاک جمع کر
رہے ہوتے ہیں! اب بھلا اِس بات پر بے چارے غریب خوشی کیوں محسوس نہ کریں کہ
حکومت اِس کے عوض کچھ نہیں لیتی! اگر کل کو کسی سرکاری میٹنگ میں یہ معاملہ
زیر بحث آیا تو یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ساحل پر جانے والوں سے ہوا خوری ٹیکس
وصول کیا جانے لگے! ساحل پر ایسی مشینیں لگائی جاسکتی ہیں جو پھیپھڑوں کو
چیک کرکے بتائیں کس نے اپنے پھپھڑوں میں کتنی تازہ ہوا لی ہے! تو جناب! جب
تک ساحل پر ہوا خوری کا ٹیکس وصول نہیں کیا جارہا، اللہ کا شکر ادا کیجیے۔
ہماری آپ کی خوشیاں تو اب ایسی ہی باتوں کے سُتونوں پر قائم ہے!
اور جناب! گھر کے پُرسُکون ماحول میں فلپنگ کے ذریعے درجنوں ٹی وی چینلز پر
مختلف وجوہ اور انداز کی حامل قتل و غارت، شاہراہوں پر دندناتے دہشت ٹارگٹ
کِلرز، ویران سڑکیں، ایک بڑی آبادی کو دو حصوں میں تقسیم کرنے والی کٹی
پہاڑی، اُجڑے ہوئے مکانات، جلی ہوئی دکانیں اور دوسرے بہت سے دل دہلا دینے
والے مناظر سے کماحقہ ”محظوظ“ ہونے کے بعد جب آپ آئینے کے سامنے کھڑے ہوکر
اپنا جائزہ لیتے ہیں تو اپنے بقیدِ حیات ہونے پر کیا دِل میں انجانی سی
خوشی محسوس نہیں ہوتی! ہوتی ہے نا! ہونی ہی چاہیے۔ یہی تو وہ چھوٹی چھوٹی
خوشیاں ہیں جو اب ہم غریبوں کا اثاثہ ہیں! جو کچھ آپ دیکھ رہے اور محسوس کر
رہے ہیں اُسے جھیلتے ہوئے زندہ رہنا کسی بھی سرکس کے بڑے سے بڑے کرتب سے
بھی بڑا کرتب ہے! اِس قدر ”باکمال“ ہونے پر خوشی نہ ہو، یہ تو ممکن ہی
نہیں! |