پہلی شہید پائلٹ مریم مختار شہید، مت سمجھو ہم نے بھلا دیا

تحریر ۔۔۔ ملک عباس
ملک کی بیٹیاں بھی دفاع وطن میں اپنے بھائیوں کے شانہ بشانہ ہیں۔ آج کے میرے مضمون کا عنوان بھی ایسی ہی ایک دلیر ، بہادر اور عظمتوں والی وطن کی بیٹی کے حوالے سے ہے جسے میں خراج عقیدت پیش کرنے جا رہا ہوں ۔ وطن عزیز کی اس بہادر بیٹی کی داستان شجاعت آج بھی یاد کی جاتی ہے اس کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔ وطن عزیز کیلئے جہاں ہمارے اکابرین ملت ، شہدائے وطن اور دیگر نے ملک کی حرمت کیلئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا اس میں خواتین کا کردار کسی طرح سے کم نہیں ہے ۔ شجاعت و بہادری کی پیکر خواتین ملک پاسبانی کیلئے اور دفاع وطن کا عزم لئے پاک فوج ، پولیس فورس اور دیگر محازوں پر اپنے فرائض کی انجام دہی میں مصرودف عمل ہیں اور اس ملک کی خاطر ، اس عوام کی خاطر ان کے جان و مال کے تحفظ کیلئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتیں اور ہر وقت مر مٹنے کیلئے ہر دم تیار رہتی ہیں ایسی ہی ایک بہادر بیٹی کا نام مریم مختار تھا جو شہید ہوئیں اور دنیا و آخرت میں سرخرو ٹھہریں۔انسان کی جان جب کسی خطرے میں گھر جائے، تو وہ عموماً اپنی زندگی بچانے کی فکر کرتا ہے۔تب صرف انتہائی دلیر ہی موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنی جان پہ دوسروں کی زندگیاں مقدم رکھتے اور انھیں بچا لیتے ہیں۔ ایسے ہی جی دار اور مثالی لوگوں میں سے ایک مریم مختار شہید بھی ہیں جن کا شمار ہمارے قومی ہیروز میں ہوتا ہے۔ آپ کے والد کرنل (ر) مختیار احمد شیخ پاک فوج میں شامل تھے۔ گھریلو عسکری ماحول کی وجہ سے بچپن ہی سے مریم کے من میں یہ تمنا بس گئی کہ وہ فوج میں جاکر دفاع وطن کا عظیم الشان فریضہ انجام دیں۔ طویل جدوجہد کے بعد ان کی محنت رنگ لائی اور 2014ء میں وہ پاک فضائیہ سے بطور فائٹر پائلٹ منسلک ہوگئیں۔ مریم مختار اور دیگر خواتین فائٹر پائلٹوں نے ثابت کردیا کہ وطن کے دفاع میں وہ مردوں کے شانہ بشانہ کمربستہ ہیں۔اب مریم تجربے کار فائٹر پائلٹوں کے ساتھ جنگی طیارے اڑانے کی مشقیں کرنے لگیں۔ وہ ایک ہمدرد، محنتی اور پر خلوص انسان تھیں۔ کسی کو تکلیف میں دیکھتیں، تو اس کی مدد کرنے کو بے چین ہوجاتیں۔ وہ عمدہ پائلٹ ہونے کے علاوہ فٹ بال کی اچھی کھلاڑی بھی تھیں۔24 نومبر 2015ء کی صبح مریم اپنے انسٹرکٹر، ثاقب عباسی کے ساتھ معمول کی مشق پر روانہ ہوئیں۔ جب وہ ضلع گجرات کی فضاؤں میں پرواز کررہے تھے، تو اچانک انجن میں آگ لگ گئی اور وہ دھڑا دھڑ جلنے لگا۔ اس سنگین صورت حال میں ضروری ہوتا ہے کہ پائلٹ جہاز سے فوراً باہر چھلانگ لگادے۔ تبھی اس کی جان بچ سکتی ہے۔ مگر مریم شہید اور ثاقب عباسی کے ضمیر نے فوراً چھلانگ لگانا گوارا نہ کیا۔ دراصل اس وقت ان کا طیارہ آبادی کے اوپر اڑ رہا تھا۔ اس کے پرے کھیت واقع تھے۔ دونوں بہادر پائلٹوں نے فیصلہ کیا کہ چھلانگ لگانے کا فیصلہ چند لمحوں کے لیے ملتوی کردیا جائے تاکہ طیارہ آبادی کے بجائے کھیتوں کے اوپر پہنچ جائے۔ وہ اپنے ہم وطنوں کو ہر قسم کے جانی و مالی نقصان سے بچانا چاہتے تھے۔ مگر یہی چند قیمتی لمحے مریم کی شہادت کا سبب بن گئے۔ پاک وطن کی اس دلیر بیٹی نے جان کی قربانی دے کر دفاع پاکستان پر مامور ہر مرد و عورت کا سر فخر سے بلند کردیا۔ یہی عزم لیے پاک فضائیہ میں شمولیت اختیار کرنے والی مریم مختیار نے جام شہادت نوش کر کے پاکستان کی پہلی خاتون شہید پائلٹ ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔قوم کی اس نڈر اور دلیر بیٹی نے 24 نومبر 2015 ء کو تربیتی طیارے پر معمول کی پرواز کے دوران میانوالی کے قریب فنی خرابی کے باعث جہاز تباہ ہونے سے شہید ہو گئی تھیں۔ طیارے میں خرابی ہوئی تو بہادر مریم نے اسے کا رخ غیرآباد علاقے کی طرف موڑ لیا تھا۔شہید پائلٹ آفیسر مریم مختارنے شہر قائد میں 18 مئی 1992 کو آنکھ کھولی۔ انہوں نے انٹر میڈیٹ کا امتحان آرمی پبلک اسکول و کالج ملیر کینٹ کراچی سے پاس کیا۔ وہ فٹبال کی بہترین کھلاڑی ہونے کے ساتھ ساتھ نیشنل وومن فٹ بال چیمپین شپ میں بلوچستان یونائیٹڈ کے لیے بھی کھیل چکی ہیں۔مریم مختارشہید نے 2014 میں پاکستان ایئر فورس میں گریجویٹ کے طور پر شمولیت کی۔ ان کا تعلق پی اے ایف کے 132ویں جی ڈی پائلٹ کورس سے تھا، جس میں6 دیگر خواتین بھی شریک تھیں۔پاک افواج میں شامل ہر جوان کی ذمے داری ہے کہ اگر ملک و قوم کا تحفظ کرتے ہوئے جان دینی پڑے،تو وہ یہ عظیم ترین قربانی دینے سے ہرگز پرہیز نہ کرے۔ مریم شہید نے اپنی ڈیوٹی نہایت خوبی سے ادا کی اور اہل وطن کی زندگیاں بچاتے ہوئے اپنی جان قربان کردی۔جب محو پرواز طیارے میں معمولی سی آگ بھی لگے، تو وہ انتہائی تیز ہوا کے سبب چند سیکنڈ میں پھیل کر پورے جہاز کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ اسی لیے دیر سے چھلانگ کے سبب دونوں پائلٹ دھوئیں اور آگ کی لپیٹ میں آگئے۔ خطرناک صورتحال نے ثاقب عباسی کو زخمی کردیا، تاہم وہ مریم مختار کی جان لے کر ہی ٹلی۔ زبردست شجاعت اور احساس ذمے داری دکھانے پر شہید مریم کو بعداز شہادت تمغہ شجاعت سے نوازا گیا۔ مریم کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ آپ دوران ڈیوٹی شہید ہونے والی پاک فضائیہ کی پہلی فائٹر پائلٹ ہیں۔ مریم مختارشہید کو لاکھوں سلام!

کس فن میں نہیں طاق، ہمیں کیا نہیں آتا‘‘یہ کہنا ہے پاک فضائیہ میں خدمات انجام دینے والی خواتین پائلٹ کا، جو دفاعِ وطن کا فریضہ مرد پائلٹوں کے شانہ بہ شانہ انجام دے رہی ہیں۔ چھوتی ہیں آسمان، جاری ہے ان کی اڑان، بھارت ہی نہیں دنیا کے کئی ممالک سے آگے نکل گیا ہے۔ پاکستان اور پاکستان کویہ کامیابی دلائی پاکستان کی بہادر بیٹیوں نے،مریم بھی انہی بیٹیوں میں سے ایک ہیں۔ پاکستان ائیر فور س کے دیگر اہم شعبوں میں بھی خواتین خدمات انجام دے رہی ہیں۔ پائلٹ کے انتخاب کے لیے خواتین کو سخت ٹریننگ سے گزرنا ہوتا ہے، جس میں کامیابی کے بعد بحیثیت لڑاکا پائلٹ بھرتی کیاگیا ہے،جس کا اعتراف انٹرنیشنل میڈیا نے بھی کیا۔ جب ہمارے پائلٹس نے 1965کی جنگ میں اپنے سے بڑے دشمن کو ناکوں چنے چبوائے تھے۔دنیا میں پاک فضائیہ نے کم ترین وسائل کے باوجود جو معرکے فتح کئے ہیں ان کی مثال جنگی تاریخ میں کم ہی ملتی ہے۔ پاک فضائیہ کے پائلٹس اپنی مہارت اور بہادری کی وجہ سے دنیا میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتے۔ اس بارے میں قائد اعظم نے 13اپریل 1948کو پاک فضائیہ رسالپور اکیڈمی میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا’’ایک طاقتور ہوائی فوج کے بغیر کوئی بھی ملک کسی بھی جارح کے رحم و کرم پر ہوتا ہے، پاکستان کو جلد از جلد اپنی فضائیہ بنا لینی چاہیے۔ اور یہ فوج بہترین فوج ہوجو کسی بھی حوالے سے دنیا کی کسی بھی فوج سے کم نہ ہو‘‘۔شاہی پاک فضائیہ قیام پاکستان کے فوراً بعد ہی بنا دی گئی تھی۔پاکستان فضائیہ کے پاس اس وقت ہاکر ٹائیفون لڑاکا جہاز، مشقی جہاز، ٹائیگر موتھ، 12ہارورڈبمبار جہازاور اس کے علاوہ 8 ڈکوٹا میدان جنگ میں لے جانے کے لئے بھی استعمال ہوئے۔پاکستان کے پاس تمام صوبوں میں ہوائی اڈے موجود تھے۔ شاہی پاک فضائیہ کا نام23 مارچ 1956کو تبدیل کرکے پاک فضائیہ رکھ دیا گیا۔ تقسیم ہند کے وقت جس طرح پاکستان کو دوسرے اثاثوں سے محروم رکھا گیا اسی طرح ہمارے حصہ کے طیارے بھی ضبط کرلئے گئے۔ مگر پاک فضائیہ نے اس کمی کو اچھی تربیت اور مہارت سے شکست دیدی۔آج صورت حال یہ ہے کہ ہم نہ صرف چھوٹے جہاز بنا رہے ہیں بلکہ دوست ملک چین کی مدد سے ایف تھنڈر تیا ر کرچکے ہیں اور پوری دنیا میں اس کو فروخت کرکے زرمبادلہ بھی حاصل کررہے ہیں۔1965 کی جنگ کے148 ائیر کرافٹ تھے۔جبکہ بھارت کے پاس532 فائٹر جیٹ تھے۔ مگر بھارتی فضائیہ کا جو حال 1965 کی جنگ میں ہوا یہ دنیا کیلئے ایک سبق تھاکہ جنگیں سازوسامان سے نہیں بلکہ جذبہ حب الوطنی اور جذبہ شہادت سے لڑی جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاک فضائیہ نے اپنے سے پانچ گنا بڑی فضائیہ کا غرور خاک میں ملا دیا تھا۔ کئی ممالک کی فضائیہ میں ہمارے پائلٹس کی مہارت پر گفتگو ہوتی ہے اور اس سے سبق حاصل کیا جاتا ہے۔

مہرین جبار وطن عزیز کی نامور ڈرامہ ڈائریکٹر اور پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ قبل انہیں خیال آیا کہ مریم مختار شہید کی زندگی پر ٹیلی فلم بناکر ان کی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا جائے۔ چناں چہ انہوں نے ممتاز ادیبہ، عمیرہ احمد سے سکرپٹ لکھوایا پھر سرمد کھوسٹ نے ٹیلی فلم کی ہدایات دیں۔’’ایک تھی مریم‘‘ نامی اس ٹیلی فلم میں منفرد اداکار، صنم بلوچ نے مریم کا کردار نہایت خوبصورتی و چابک دستی سے ادا کیا ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ تین سال قبل اچھے ڈراموں کی عدم موجودگی میں صنم نے اداکاری کو خیر باد کہہ دیا تھا۔ وہ پھر مقامی ٹی وی چینل میں ایک شو کی میزبانی کرنے لگیں۔ جب ٹیلی فلم کا سکرپٹ دکھایا گیا، تو انہوں نے فوراً مریم کا کردار ادا کرنے کی ہامی بھرلی۔ صنم کہتی ہیں: ’’مریم مختار شہید ہماری قومی ہیرو ہیں۔ میں اداکاری ترک کرچکی تھی مگر جب مجھے مریم شہید کا کردار ادا کرنے کا کہا گیا تو میں انکار نہیں کرسکی۔ میں نے فیصلہ کیا کہ اپنی بہترین صلاحیتیں استعمال کرکے مریم شہید کا پرتو بننے کی سعی کروں گی۔ اپنے والد کی طرح مریم مختار کو بھی پاک فوج کا حصہ بن کر قوم کی خدمت کا بے انتہا شوق تھا۔ بچپن سے ہی مریم مختار کے والد کرنل (ر) مختار احمد شیخ کی صورت میں مریم مختار کے سامنے وہ مثال موجود تھی جس کی تقلید کرتے ہوئے انہوں نے پاک فوج میں شمولیت کا فیصلہ کیا۔ سن 2011ء میں مریم مختار پاک فضائیہ کا حصہ بنیں اور ستمبر 2014ء میں گریجویشن مکمل کرنے کے بعد فائٹر جیٹ پائلٹ کی تربیت حاصل کرکے قوم کی خدمت کیلئے تیار ہوئیں۔پاک فوج کی وردی سے متاثر مریم مختار معمول سے ہٹ کر قوم کی خدمت کرنے کی خواہش مند تھیں جبکہ 24 نومبر 2015ء وہ دن ہے جب وہ قوم سے بچھڑ گئیں۔فلائنگ آفیسر مریم مختار انسٹرکٹر ثاقب عباسی کے ہمراہ 24 نومبرکو تربیتی پرواز پر نکلیں تو تکنیکی خرابی کے باعث ان کا طیارہ صوبہ پنجاب کے تاریخی شہر میانوالی کے قریب گر کر تباہ ہوا۔ حادثے کے باعث شدید زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے قوم کی پہلی فائٹر پائلٹ بیٹی شہید ہو گئی جس کے بعد انہیں ملک کی پہلی شہید خاتون پائلٹ کہا جانے لگا۔ وہ ان 5 خاتون پائلٹس میں شامل تھیں جو جنگ کے محاذ تک جا سکتی تھیں۔ حکومتِ پاکستان نے مریم مختار کی خدمات کے اعتراف میں انیہں تمغہ بسالت سے نوازا، اُس وقت کے وزیرِ اعظم نواز شریف اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے مریم مختار کی خدمات پر انہیں خراجِ تحسین پیش کیاتھا۔ پاکستانی قوم آج بھی انہیں یاد کر رہی ہے۔
Dr B.A Khurram
About the Author: Dr B.A Khurram Read More Articles by Dr B.A Khurram: 606 Articles with 525299 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.