وزارتِ عظمیٰ برائے فروخت

شیخ شرف الدین سعدی ؒ ایک حکایت میں تحریرکرتے ہیں کہ ایک سال مصر میں بارش نہ ہوئی او رملک میں قحط پڑ گیا لوگوں نے بہت گریہ وزاری کی لیکن آسمان سے پانی کی ایک بوند تک نہ ٹپکی ایک شخص حضرت ذوالنون مصری ؒ کی خدمت میں آیا اور اُن سے درخواست کی کہ بارش کیلئے دعا کریں اللہ تعالیٰ اپنے محبوب بندوں کی دعائیں رد نہیں کرتا ۔

حضرت ذوالنون ؒ نے یہ بات سنی تو اپنا بوریا بستر باندھ کر مصر سے مدین کی طر ف چلے گئے ان کے جانے کے بعد اس زور سے مینہ برسا کہ جل تھل ایک ہوگئے پندرہ بیس روز بعد حضرت ذوالنون ؒ کو مدین میں خبر ملی کہ سیاہ بادل کو آخرکار مصر کے لوگوں پر رحم آگیا ہے اور ان کی مصیبت پر رودیا ہے یہ خبر پاکر وہ واپس مصر تشریف لے آئے ایک مردِ خدا نے ان سے پوچھا کہ آپ کے مصر سے چلے جانے میں کیا مصلحت تھی تو انہوںنے جواب دیا کہ میں نے سناہے کہ بعض دفعہ اچھوں کارزق بروں کی وجہ سے بند ہوجاتا ہے میں نے اس ہولناک خشک سالی کے اسباب پر غور کیا اور اپنے سے زیادہ گناہ گار اس ملک میں کسی کو نہ دیکھا چنانچہ میں یہاں سے بھاگ گیا تاکہ میری وجہ سے لوگوں پر سے خیر کا دروازہ بندنہ ہوجائے ۔

قارئین اس وقت پاکستان اور آزادکشمیر پورے کرہ ارض میں عجیب و غریب حیثیت کے حامل خطے بن کر اپنوں اور غیروں کیلئے رنج والم اور عبرت کے نمونوں میں بدل چکے ہیں جمہوری حکومت نے جب سے مارشل لاء کے دور کی جگہ لی ہے ملک کے تمام اداروں کی بولیاں لگنے کی صدائیں بلندہونا شروع ہوئیں اور یہاں تک نوبت پہنچی کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے چیف جسٹس افتخار چوہدری کی سربراہی میں این آئی سی ایل سے لے کر دیگر اداروں کے معاملات پر سنجیدگی کے ساتھ نوٹس لیا اور عدل وانصاف کے تقاضے پورے کرنے کی کوشش شروع کردی بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے متعلق یہ واقعہ تاریخ کی کتابوں میں رقم ہے کہ انہوں نے ریلوے پھاٹک بندہونے کی صورت میں سربراہِ مملکت ہونے کے باوجود پھاٹک کھلنے کا انتظارکیا اور قانون کی پابندی کی جبکہ جمہور کی آواز بننے والی ایک سیاسی شخصیت نے مری روڈ راوالپنڈی میں ٹریفک سگنل سرخ ہونے پر اپنے ڈرائیور کو حکم دیا کہ اشارہ توڑ دو مجھے کوئی نہیں روک سکتا ۔۔۔اورواقعی انہیں کوئی نہ روک سکا ۔۔۔

آزادکشمیر میں 26جون 2011کے انتخابات کے بعد پاکستان پیپلزپارٹی نے سادہ اکثریت سے کامیابی حاصل کی جبکہ پاکستان مسلم لیگ ن اپوزیشن کی بڑی جماعت کی حیثیت سے سامنے آئی ،مسلم کانفرنس تیسری پوزیشن کے ساتھ ایوان میں موجود ہے الیکشن کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پاکستان پیپلزپارٹی کی وفاقی اور کشمیری قیادت حکومت بنانے کے عمل کو شفاف ترین رکھتے ہوئے نظریاتی لوگوں کو ایڈجسٹ کرتی تاکہ وہ لوگ جن کی جڑیں عوام میں ہیں اور جن سے عوام اپنے مسائل کا حل چاہتے ہیں وہ برسراقتدار آتے اور تحریک آزادی کشمیر سے لے کر غربت ،بیروزگاری ،مہنگائی ،بدامنی اورمختلف مسائل کے شکار لوگوں کے مصائب دور کرتے لیکن جو کچھ دیکھنے اور سننے میں آرہاہے وہ پاکستان میں جنرل پرویز مشرف کے بعد آنے والی ”جمہوریت ہی سب سے بڑا انتقام ہے “کے وہی کارنامے ہیں جس پر پوری دنیا پاکستان کو استہزا کا نشانہ بنارہی ہے ۔۔

قارئین اخبارات اور میڈیا میں آنے والی رپورٹس واضح طور پر نشاندہی کررہی ہیں کہ آزادکشمیر کی وزارتِ عظمیٰ کی بولیاں لگائی جارہی ہیں اور نیلام عام کے اس سلسلے کا اصل سٹیج برطانیہ میں سجایا گیا ہے ڈوگرہ دور میں کشمیریوں کو 75لاکھ سکہ نانک شاہی کے عوض فروخت کیا گیا تھا یوں لگتا ہے کہ انگریز بھی چلے گئے اور ڈوگروں کا دوربھی گزرگیا لیکن کشمیریوں کا برا نصیب اور انکے حقوق کے قاتل نسل در نسل ساتھ ساتھ چلتے آرہے ہیں آزادی کشمیر اور آزادکشمیر صرف نام کی حد تک سنائی اور دکھائی دیتے ہیں درپردہ کشمیریوں کو جنرل مشرف نے بھی ”بیک ڈور ڈپلومیسی “کے نام پر فروخت کرنا چاہا اور اب کشمیر کے نام پر بننے والی جماعت بھی خدانخواستہ نیلام کرنے جارہی ہے یہ سب کیا ہورہا ہے ۔۔۔؟ارباب فکر ودانش کہاں ہیں ۔۔۔؟
بقول شاعر
میرے کشمیر زرا جاگ کہ کچھ جاہ طلب
غیر کو تیرے مقدر کا خدا کہتے ہیں

قارئین اگر کشمیر کی وزارت عظمیٰ کو واقعی فروخت کیا گیا تو یادرکھیے کہ آنے والے پانچ سال انتہائی خوفناک ہوں گے آزادکشمیر پہلے ہی ایک ایسی اسمبلی دیکھ چکاہے کہ جہاں اراکین اسمبلی نے قرآن کی قسمیں اٹھاکر چار چار مرتبہ اپنی وفاداریاں فروخت کیں آنے والی اسمبلی میں وہ مناظردیکھنے میں آسکتے ہیں کہ عوام 2006ءکی قانون سا ز اسمبلی کو بھول جائیں گے ۔

ہماری پاکستان پیپلزپارٹی آزادکشمیر کی قیادت سے دست بستہ گزارش ہے کہ بمہربانی سکوں کے عوض کشمیر کو خریدوفروخت کا نشانہ نہ بنایاجائے وزارتِ عظمیٰ کو اربوں روپے میں خریدنے والے کشمیری عوام کی کیا قیمت لگا رہے ہیں بیرسٹر سلطان محمود چوہدری ،چوہدری عبدالمجید ،چوہدری یاسین ،سردارقمر الزمان ،محمد مطلوب انقلابی ،سردار یعقوب خان سے لے کر پیپلزپارٹی کی تمام قیادت اور سیاسی کارکنان صورت حال کا درددل سے جائزہ لیں اور یہ یاد رکھیں کہ وقت کی یہ فطرت ہے کہ وہ کبھی ٹھہرتا نہیں ہے اچھا ہویا برا گزر جاتا ہے لیکن مختلف اوقات میں کیے جانے والے فیصلے تاریخ کے صفحوں میں کردار کی شکل میں محفوظ ہوجاتے ہیں اور سیاسی قیادت کے اسی کردار کو آنے والی نسلیں اچھائی یا برائی کے عنوانوں سے یاد رکھتی ہیں ۔
بقول غالب ۔
ابنِ مریم ہُوا کرے کوئی
میرے دکھ کی دوا کرے کوئی
شرع وآئین پر مدارسہی
ایسے قاتل کاکیا کرے کوئی
جب توقع ہی اُٹھ گئی غالب
کیوں کسی کا گلہ ِکرے کوئی

قارئین 18کروڑ پاکستانی عوام اور پوری کشمیری قوم اس وقت مملکت خداداد پاکستان وآزادکشمیر میں خریدوفروخت کے عمل کی شدید مذمت کرنے کے ساتھ ساتھ جب تک احتجاج کی صدا بن کر باہر نہیں آئیں گے تب تک نہ تو تبدیلی آئے گی اور نہ ہی ہم غیرت مند حیثیت اختیار کرپائیں گے فیصلہ ہمارے اپنے ہاتھوں میں ہے ۔

آخر میں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے ۔
ایک مہمان نے ہوٹل کے مینجر سے انتہائی غصے سے کہا کہ یہ کیسا ہوٹل ہے بارش میں ساری چھت ٹپک رہی ہے میراکمرہ تو تالاب بن گیا ہے
مینجر نے اطمینان سے جواب دیا
صاحب ہم نے تو پہلے ہی کہاتھا کہ کمرے میں وافر پانی دستیاب ہے ۔۔۔

قارئین سمجھ نہیں آرہا کہ برسراقتدار آنے والوں نے پہلے کیا کیا کہاتھا ۔۔۔؟
Junaid Ansari
About the Author: Junaid Ansari Read More Articles by Junaid Ansari: 425 Articles with 339141 views Belong to Mirpur AJ&K
Anchor @ JK News TV & FM 93 Radio AJ&K
.. View More