ملک بھر میں ڈینگی مچھر کے انتہائی خطرناک وار جاری ہیں
ہر صوبے،شہر اور قصبہ میں ڈینگی مچھرنے جھنڈے گاڑے ہوئے ہیں 2011کے بعد اب
ڈینگی مچھر پورے جوش سے اپنے وار جاری رکھے ہوئے ہے۔اگر بات کی جائے ڈینگی
مچھرکی تو یہ مچھرباقی تمام مچھروں کی نسبت بہت خطرناک ہے یوں بھی کہہ سکتے
ہیں کہ یہ ایک چوہدری ٹائپ کا مچھر ہے کیونکہ یہ واحدمچھر ہے جو صاف پانی
میں پیدا ہوتا ہے گھروں میں واش رومز کچن اور دیگرجگہوں پر جہاں پر پانی
جمع ہوتا ہے اس کی افزائش بہت تیزی سے اور بڑی مقدار میں ہوتی ہے اگر ما ضی
کی بات کی جائے تو فرعون کے دورِ حکومت میں مچھروں کی آفت نے کئی انسانی
جانوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور پورے مصر میں مچھروں کی آفت نے تباہی
مچادی ویسے مچھروں کے کاٹنے سے ملیریا بخار تو عام ہے مگر اس چوہدری ڈینگی
مچھر نے تو سب کے ریکارڈ تو ڑ دیے ہیں پاکستان کے علاوہ دنیا بھر کے مختلف
ممالک میں ڈینگی مچھر اپنے تیور بھرپور انداز میں دکھا چکا ہے لیکن ہم اس
تحریر میں پاکستان کی ہی بات کریں گے پاکستان کو قدرت نے چار موسم عطا کئے
ہیں جیسے ہی سردی سے گرمی یاگرمی سے سردی کا موسم شروع ہوتا ہے تو ڈینگی
مچھر بالکل اس طرح حملہ کرتا ہے جیسے کوئی جنگ میں حملہ ہوتاہے اس مچھر کی
بناوٹ بھی کمانڈو کی طرح کی ہے ڈینگی مچھر کی کالی رنگت ہوتی اور اس کے
اوپر سفید رنگ کی دھاریاں ہوتی ہیں اور یہ عام مچھر کی نسبت بڑا ہوتا ہے
اور اس کے حملے کا وقت بھی صبح سویرے سورج نکلنے سے پہلے کاہے یعنی جب
انسان تقریباََ سکون کی حالت میں ہوتاہے اور یہ اندھیرے میں وار کرتا ہے
اتنی تیزی سے حملہ کرتا ہے کہ پتہ بھی نہیں چلنے دیتا اور انسان کے جسم میں
اپنے وائرس کو منتقل کر دیتا ہے جیسے ہی کو ئی انسان اس کے حملے کا شکار
ہوتا ہے اس کی حالت غیر ہوجاتی ہے ڈینگی وائرس کی وجہ سے انتہائی تیز
بخار،جسم میں شدید درد، کمرو جوڑوں میں شدید درد، جسم پر دھبوں کی
موجودگی،سر درد،نزلہ اور زکام اور شدید بیماری کی صورت میں جسم کے مختلف
حصوں مثلاََ منہ اور ناک سے خون جاری ہونا اور خون میں موجود سفید خلیے بڑی
تیزی سے کم ہونا شروع ہو جاتے ہیں اور بروقت علاج شروع نہ ہو تو موت واقع
ہوجاتی ہے2011میں کئی ہزار ڈینگی وائرس کا شکار ہوئے اور سینکڑوں اموات
واقع ہوئی اس کے بعد اب 2021میں اس وائرس کی بدولت سینکڑوں کی اموات ہوچکی
ہے اور ہزاروں اس کا شکا ہو چکے ہیں اور مزید ہورہے ہیں کیونکہ جب یہ کاٹتا
ہے تو انسان کو نڈھال کر دیتا ہے یہ نہیں دیکھتاکون کتنا طاقت وار ہے یا
کمزور ہے۔ڈاکٹرز کے مطابق اس کے علاج کے لیے پھلوں کا اور ان کے جوس کا
ذیادہ سے ذیادہ استعمال کیاجائے اور بخار کی صورت میں پیرا سیٹامول یا
پیناڈول استعمال کی جاتی ہے۔ خون میں سفید خلیوں کی کمی کو پورا کرنے کے
لیے وائٹ سیل لگائے جاتے ہیں لیکن پاکستان میں حکومت کی پوزیشن یہ ہے کہ
خدانخواستہ اگر کوئی ڈینگی وائرس میں مبتلا ہوتا ہے تومہنگائی کی وجہ سے
پھل اس کی پہنچ سے باہر ہے پھل کھانا یا جوس پینے کا سوچ بھی نہیں سکتا
اورا گر بات کی جائے علاج کی تو انسانی بے بسی کی انتہا ہوگئی ہے پرائیوٹ
ہسپتال تو عام آدمی جانے کا سوچ بھی نہیں سکتااور رہی بات سرکاری کی تو نام
کے ہی سرکاری ہیں پچھلی حکومتوں میں ایمرجنسی علاج،ٹیسٹ اور ادویات کی
فراہمی مفت تھی لیکن موجودہ دور کی حکومت کی حالت یہ ہے کہ کوئی سہولت میسر
نہیں ہے کسی بھی سرکاری ہسپتال میں پرچی فیس،تمام ٹیسٹ،اور ادویات کی قیمت
ادا کرنی پڑتی ہے میرے ایک جاننے والے کو ڈینگی بخار ہوگیا تواس کے عزیز اس
کو سرکاری ہسپتال لے گئے انہوں نے 50روپے پرچی فیس،دوہزار روپے کے ٹیسٹ اور
تقریباََ دوہزار کی ادویات خریدی اور وہ بتارہے تھے کہ سرکاری ہسپتال برائے
نام ہے ہمیں تو ایسا لگ رہا تھا جیسے کسی پرائیوٹ ہسپتال میں آئے ہیں پیرا
سیٹامول یا پیناڈول عام میڈیسن ہے جس کے ایک پتے کی قیمت پچاس روپے ہے اور
اس سے بھی بڑی بات یہ کہ تمام میڈیکل سٹورز میں نایاب ہے افسوس سے کہنا پڑے
گا کہ موجودہ حکومت نے عوام کو لاوارث کردیا ہے عوام کا کوئی پُرسانِ حال
نہیں۔آٹا،چینی،گھی اور پٹرولیم کی قیمتیں تو پہلے ہی آسمان پر ہیں لیکن
ادویات کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ سمجھ سے بالا تر ہے
ہم جان سے جائیں گے تو ہی بات بنے گی
آپ سے تو کوئی راہ نکالی نہیں جاتی۔۔۔
میری وفاقی اور صوبائی وزرا ء برائے صحت سے اپیل ہے کہ عوام کی جانوں سے
کھیلنا بند کریں ٹھوس اور جامع اقدامات اٹھائیں۔ نہایت ادب سے چند ایک
گزارشات ہیں وہ یہ کہ جیسے ہی موسم بدلنے کا وقت قریب ہوتا ہے براہِ کرم
تمام علاقوں میں سپر ے کروایا جائے۔محکمہ صحت نے جو سٹاف ڈینگی کی روک تھام
کے لیے بھرتی کیا ہے اس کو متحرک کریں۔ عوام میں ڈینگی مچھر سے بچاؤ کے لیے
ٹی وی،اخبارات اور اشتہارات کے ذریعے شعور اجاگر کیا جائے۔وفاقی اور صوبائی
وزراء سے گزارش ہے کہ وہ صوبے بھرمیں موجود سرکاری ہسپتالوں کا وزٹ کریں
وہاں موجود مریضوں اور ان کے لواحقین سے ملیں تاکہ ان کو درپیش مسائل سے
آگاہی حاصل کریں اور ان کے حل کے لیے مثبت اقدامات کریں اس کے ساتھ ساتھ
سرکاری ہسپتالوں میں کم سے کم ایمرجنسی علاج،ٹیسٹ اور ادویات کی مفت فراہمی
کو یقینی بنائیں۔میڈیکل سٹورز پر ادویات کی قیمتوں پر نظر رکھیں اور ادویات
پر سبسڈی دی جائے۔ آن لائن شکایت سیل قائم کیاجائے وغیرہ۔
|