روداد سیاست یہ کتاب محمد نواز رضا کے نوائے وقت میں
شائع ہونے والے کالموں پر مشتمل ہے ۔بات کو آگے بڑھانے سے پہلے یہ بتاتا
چلوں کہ محمد نواز رضا کا شمارپاکستان کے سینئر ترین صحافیوں اور تجزیہ
نگاروں میں ہوتا ہے۔بظاہر تو ان کا تعلق تو اسلام آباد سے ہے لیکن انہوں نے
دوران صحافت کتنے ہی اہم سیاست دانوں کے ساتھ دوستانہ مراسم قائم کر رکھے
ہیں یہی وجہ ہے کہ جو سٹوری وہ نوائے وقت میں شائع کرنے کے لیے بجھواتے ہیں
وہ حقیقت کے قریب ترین ہوتی ہے ۔انہوں نے کتابی شکل میں اشاعت کے لیے
2014سے 2020 تک کالموں کا انتخاب کیا لیکن زیرنظر کتاب ان کے کالموں کی
پہلی کتاب ہے ۔کہایہ جاتا ہے کہ محمد نواز رضا نے ستر کی دہائی میں ایک
نوجوان طالب علم کی حیثیت سے اپنے صحافتی سفر کا آغا ز کیا ۔وہ شروع میں
روزنامہ جسارت اور ہفت روزہ چٹان جیسے اداروں سے وابستہ رہے مگر پھر
مجیدنظامی کی محبت میں نوائے وقت کے ساتھ دہائیوں پر محیط رشتے میں بندھ
گئے ۔نوائے وقت سے رشتہ محبت 1980سے 2021ء تک قائم چلا آرہا ہے ۔انہوں نے
ایک طرف روزنامہ نوائے وقت اسلام آباد میں بطور چیف رپورٹر اپنی صحافت کا
لوہا منوایاجب کہ دوسری طرف نوائے وقت کے صفحات پر، اسلام آباد نوٹ بک
،مارگلہ کے دامن میں ،اور قومی افق کے نام سے شائع ہونے والی تحریروں سے
شہرت دوام حاصل کی ۔اپنے کیریئر کے دوران انہوں نے نہ صرف تمام بڑی قومی
تحریکوں اور سیاسی واقعات کو کور کیا بلکہ مفتی محمود ،نوابزادہ نصراﷲ خان،
میاں محمد نواز شریف ،بینظیر بھٹو ،آصف علی زرداری ، قاضی حسین احمد ،شہباز
شریف ،چوہدری نثار علی خان اور شاہد خاقان عباسی سمیت قومی سطح کے تقریبا
تمام نمایاں سیاسی اور مذہبی رہنماؤں کے انٹرویو بھی کیے۔نوازشریف حکومت کے
تیسرے دور کے پہلے سال کے عنوان میں رضا نواز لکھتے ہیں -: کہ وزیراعظم
نوازشریف نے اپنی تمام ترتوجہ توانائی کے بحران کے خاتمے پر مرکوز کررکھی
ہے ۔صبح ہو یا شام وہ ہروقت پاور پلانٹس کے بارے میں استفسار کرتے نظر آتے
ہیں ۔وفاقی حکومت کے ایک سینئر افسر جس کا گذشتہ حکومت کے ساتھ بھی اہم
عہدوں پر کام کرنے کا تجربہ ہے ،کا کہنا ہے گڈانی میں دس پاور پلانٹس کا
پانچ ماہ میں سنگ بنیاد رکھنے کا ٹارگٹ حاصل کرلینا اس بات کا ثبوت ہے کہ
موجودہ حکومت کچھ کرنے کا عزم رکھتی ہے۔وزیراعظم نواز شریف نے اس اہم
پروجیکٹ کا چیف ایگزیکٹو نرگس سیٹھی کو لگایا ہے جنہوں نے پانچ ماہ کی قلیل
مدت میں پراجیکٹ کی فائلوں کو دبائے رکھنے کی بجائے ضابطے کی تمام کارروائی
مکمل کروادی ،جہاں فائل رکی وہاں وزیراعظم سے مدد حاصل کی ۔پاکستان کی
65سالہ تاریخ میں کل 25ہزار میگا واٹ بجلی کے پاور سٹیشن لگے جبکہ نواز
شریف حکومت کے ایک سال میں 21ہزار میگاواٹ بجلی کے پاور سٹیشن لگائے جارہے
ہیں ۔آگے چل کر امام صحافت مجید نظامی کے ساتھ رفاقت کے 35سال کے عنوان سے
محمد نواز رضاکہتے ہیں-:1970ء کے عشرے کے اوائل میں میری پہلی ملاقات مجید
نظامی سے اسلام آباد ایئرپورٹ پر اس وقت ہوئی جب وہ نامور خطیب ،ادیب و
صحافی آغا شورش کاشمیری کے ہمراہ غالبا جنرل یحی خان کی بریفنگ میں شرکت کے
لیے اسلام آباد آئے تھے ۔آغا شورش کاشمیری نے کچھ اس زوردار انداز میں میرا
تعارف مجید نظامی سے کرایا کہ پھر مجھے ان سے کبھی تعارف کرانے کی ضرورت
پیش نہ آئی ۔ان کے ذہن میں میری شخصیت نقش ہوکر رہ گئی ،جہاں بھی ان سے
ملاقات ہوتی وہ بڑی محبت اور شفقت سے پیش آتے ۔رہی سہی کسر مولانا کوثر
نیازی نے نکال دی جو بھٹو کابینہ میں وفاقی وزیر اطلاعات تھے ۔انہوں نے بھی
مجید نظامی سے ملاقات کے دوران کہا نظامی صاحب یہ نوجوان آپ کی سوچ و فکر
پر یقین رکھنے والا ہے۔آپ اس کی سرپرستی کریں۔ مجھے آغا شورش کاشمیری
،الطاف حسن قریشی ،نثار زبیری ،میر خلیل الرحمن ،شورش ملک اور ہدایت اختر
کی ادارت میں کام کرنے کامجھے موقع ملا ۔یہ مجید نظامی ہی تھے جب ان کی زیر
ادارت کام شروع کیا تو پھر زندگی بھر ادھر ادھردیکھنے کی ضرورت پیش نہیں
آئی ۔35سالہ صحافتی رفاقت میں انہوں نے کبھی میری تحریر کی ایک سطر بھی
نہیں کاٹی بلکہ میری تحریر کو زور دار بنانے کے لیے خود چند الفاظ کا اضافہ
کردیا۔بلا مبالغہ مجید نظامی 19ویں اور 20صدی کے بڑے صحافی تھے۔ وہ نظریاتی
صحافت کے بلاشبہ امام تھے ۔ انہوں نے زندگی بھر کسی فوجی ڈکٹیٹر سے ڈکٹیشن
نہیں لی اور نہ ہی اپنے اخبار کی ادارت پر کسی کو اثرانداز ہونے دیا ۔وہ
نظریہ پاکستان اور پاکستان کی ایٹمی طاقت کے محافظ تھے ۔پاکستان کے دشمنوں
کے لیے شمشیر برہنہ اور پاکستان کے دوستوں کے لیے محبت اور شفقت کا سایہ
دار درخت تھے ۔304صفحات پر مشتمل یہ کتاب بطور خاص سیاست اور سیاسی معاملات
میں دلچسپی رکھنے والوں کے بہترین ہے جس کی قیمت 1500/-روپے ہے۔
|