یکم نومبر کو مہاراشٹر کی سیاسی تاریخ کا ایک حیرت انگیز
واقعہ رونما ہوا ۔ مرکزی انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ کے ذریعہ پانچ بار سمن جاری
کئے جانے کے باوجود حاضر ہونے سے کترانے والے مہاراشٹر کے سابق وزیر داخلہ
اور این سی پی رہنما انل دیشمکھ بالآخر پیش ہوگئے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ
بامبے ہائی کورٹ نے ایک ہفتہ قبل ان کے سمن کو منسوخ کرنے سے انکار
کردیاتھا۔ امید کی آخری کرن بھی جب بجھ گئی تو بادلِ ناخواستہ انہیں
ایجنسی کے سامنے حاضر ہونا پڑا۔ دیویندر فردنویس میں اگر سیاسی سوجھ بوجھ
ہوتی تو وہ اس کا فائدہ اٹھاکر این سی پی کو بدعنوان ثابت کرنے میں جٹ جاتے
۔ اس کا سیاسی فائدہ اٹھانے کی خاطراین سی پی کو خوب بدنام کرتے لیکن وہ تو
نواب ملک چھوڑے ہوئے شوشے میں الجھ کر سب کچھ بھول گئے یہ ان کی کوتاہ نظری
ہے کہ وہ بہ آسانی اپنے حریف کے دام میں گرفتار ہو گئے اور نواب ملک کے
ساتھ ایک غیر ضروری کشتی میں الجھ گئے جو ذرائع ابلاغ میں چھاگئی ۔اس طرح
انل دیشمکھ کو گرفتار کروا کر بی جے پی کے اعلیٰ کمان نے جوزبردست ماسٹر
اسٹروک کھیلا تھا دیویندر فردنویس اس کو گنوادیا ۔
سابق وزیر داخلہ انل دیشمکھ مبینہ وصولی ریکٹ سے متعلق منی لانڈرنگ معاملے
میں مسلسل 12 گھنٹے تک تفتیش کی گئی اور آخر کار نصف شب کے بعد انہیں
گرفتار کرلیا گیا۔ اس گرفتاری کے بعد ان کے وکیل اندر پال سنگھ نے نامہ
نگاروں کو بتایا کہ اس 4.5 کروڑ روپئے کے معاملے میں انہوں نے جانچ میں
پوری طرح تعاون کیا ہے ۔ افسران کے مطابق مرکزی جانچ ایجنسی رقم وصولی روک
تھام قانون (پی ایم ایل اے) کے تحت مہاراشٹر پولیس محکمہ میں 100 کروڑ
روپئے کی مبینہ رشوت خوری اور وصولی معاملے کی مجرمانہ تفتیش کررہی ہے۔
نیشنلسٹ کانگریس پارٹی کے 71 سالہ لیڈر پریہ الزام ممبئی پولس کے سابق
کمشنر پر مبیر سنگھ نے لگایا تھا ۔ اس کے بعد تو ریاست میں ایسا سیاسی
زلزلہ آیا کہ مہاوکاس اگھاڑی کی سرکار خطرے میں نظر آنے لگی ۔ سیاسی
تجزیہ کار مختلف پیشن گوئیاں کرنے لگے ۔ بہت سارے لوگوں نے مہاراشٹر میں
سرکار کو برخواست کرکے صدر راج کا امکان ظاہرکیا۔ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ
دباو میں آکر شیوسینا بی جے پی کے ساتھ ہوجائے گی ۔ کئی لوگوں نے این سی
پی اور بی جے پی کے درمیان الحاق کی قیاس آرائی بھی کی لیکن ماہِ اپریل
میں انل دیشمکھ کے استعفیٰ سے یہ معاملہ رفع دفع ہوا ۔
دیویندر فردنویس ایک ناپختہ کارسیاست داں ہیں۔ انہوں نے امبانی کے گھر پر
پکڑی جانے والی گاڑی کے مالک من سکھ کا قتل معاملہ اسمبلی میں زور و شور سے
اٹھا یا اور سرکار کو اس کے لیے موردِ الزام ٹھہرایا جبکہ آگے چل کر وہ
سازش کا شریک کار نکلا۔ اسی طرح ریمڈیسیور دوائی کی جمع خوری کرنے والے کو
بچانے کے لیے بی کے سی پولس تھانے میں جاکر ہنگامہ کیا اور خود پھنس گئے۔
اس بار بھی ان کے ساتھ یہی ہوا ہے کہ انہوں نے پھر سےاپنے پیروں پر کلہاڑی
چلا لی اور خود کو لہولہان کرلیا۔ اب وہ دن دور نہیں جب بی جے پی ہائی کمان
ان سے پلہّ جھاڑ کر الگ ہوجائے گا کیونکہ ویسے بھی وہ پارٹی کو پے درپے
شکست سے بچانے میں ناکام رہے ہیں۔ ناگپور کے اندر وہ اپنے امیدوار کو قانون
ساز اسمبلی کے انتخاب میں کامیاب نہیں کرپائے۔ اس لیے جتنی جلدی بی جے پی
ان سے چھٹکارہ حاصل کرلے اس کی بھلائی ہے ورنہ یہ شخص اتنا نقصان کرچکا
ہوگا کہ پھر تلافی ناممکن ہوپائے گی۔
یہ کہانی فروری میں اس وقت شروع ہوئی جب ایشیا کے امیرترین سرمایہ دار مکیش
امبانی کے گھر کے باہر دھماکہ خیز مواد سے بھری ایک گاڑی ملی تھی۔ اس کے
چند روز بعد گاڑی کے مالک کی لاش کلوا کی کھاڑی میں ملی۔ اس قتل اور گاڑی
کو جائے واردات پر لے جا کرلگانے کے الزام میں کرائم برانچ کے ایک اسسٹنٹ
انسپکٹر سچن وازے کو گرفتار کرلیا گیا جو اب بھی حراست میں ہے۔ اس معاملے
کو رفع دفع کرنے کی خاطر ایک ماہ بعد ممبئی پولس کمشنر پرمبیر سنگھ کو بلی
کا بکرا بنایا گیا۔ ان پولیس چیف کے عہدے سے ہٹا کرغیر اہم ریاستی ہوم گارڈ
کا سربراہ بنادیا گیا۔ اس وقت کے وزیر داخلہ انل دیشمکھ نے ممبئی پولیس
کمشنر کے دفتر میں اہلکار افسران سے سنگین غلطیوں کو تبادلہ کا سبب بتایا
لیکن ان کوتاہیوں کی وضاحت ہنوز نہیں ہوسکی۔ اس کے فوراً بعد پرمبیر سنگھ
نے حکومت کو ایک خط لکھ کرانل دیش مکھ پر سو کروڈ کی جبری وصولی اور
بدعنوانی کا الزام لگادیا مگر کوئی ثبوت فراہم نہیں کرپائے۔
اس معاملے کا سب سے دلچسپ پہلو یہ ہے الزام لگانے والا پر مبیر سنگھ روپوش
بلکہ فرار ہے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق وہ روس یا بیلجیم بھاگ گیا ہے۔ اس کے
اہل خانہ اور وکیل نے خاموشی اختیار کررکھی ہے۔ ریاست کے نئے وزیر داخلہ
دلیپ والسے پاٹل کا کہنا ہے کہ : ’ہم ان کی تلاش کر رہے ہیں۔ ایک سرکاری
افسر کے طور پر، وہ حکومت کی منظوری کے بغیر بیرون ملک نہیں جا سکتے۔اگر وہ
چلے گئے ہیں تو یہ اچھی بات نہیں ہے۔‘ ایک طرف مرکزی سرکار انل دیشمکھ سے
تفتیش کررہی ہے تو دوسری جانب حکومتِ مہاراشٹر نے پرمبیر سنگھ کی تحقیقات
کے لیے ایک ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں پینل تشکیل دے دیا ہے۔ ان پرتعمیراتی
کا م کرنے والے کاروباریوں ، ہوٹل والوں اورجوا کھیلنے والوں سے جبری وصولی
کے چار مجرمانہ مقدمات درج کیے جاچکے ہیں۔ پرمبیر کے خلاف غیر ضمانتی وارنٹ
جاری ہوچکا ہے اور ان کے دو ساتھیوں کو گرفتا ر کرلیا گیا ہے۔ یہ کس قدر
شرمناک بات ہے کہ الزام لگانے والے سابق پولس کمشنر کو تو بھگوڑا قرار دے
دیا جائے اور بغیر کسی الزام کے انل دیشمکھ کو 12؍ نومبر تک حراست میں بھیج
دیا جائے ۔ اس پر اگر کسی کو حیرت ہے تو ہوا کرے لیکن مودی یگ میں اب یہ
ایک عام بات ہوگئی ہے۔
یہ کیسی ستم ظریفی ہے کہ ایک زمانے میں پرمبیر سنگھ کے ماتحت چلنے والی
ممبئی کرائم برانچ نے انہیں اشتہاری مجرم قرار دینے کی خاطر عدالت سے رجوع
کیا ہے؟ پولس کا کہنا ہے چونکہ ان کے پاس پرمبیر کے خلاف تین عدد غیر
ضمانتی وارنٹ ہیں اوراس کے باوجود ملزم غائب ہے، اس لیے اب اس کا اشتہاری
مجرم قرار دیا جانا ضروری ہے۔ عدالت اگر پولس کی اس دلیل سے اتفاق کر لے تو
شہر کے مختلف مقامات پر پرمبیر کے ’فرار ملزم ‘ ہونے پوسٹر لگیں گے ممکن ہے
اس پر تصویر بھی موجود ہو۔ اس اعلانِ عام کے بعد پرمبیر کو حاضر ہونے کے
لیے 30 ؍ دن کی مہلت دی جائے گی اور اس دوران بھی اگر وہ روپوش رہے تو ان
کی جائیداد کو قرق کرنے کی خاطر عدالت سے رجوع کیا جائے گا۔ اس طرح ملزم کی
ساری منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد کو ضبط کرنے کا راستہ کھل جائے گا ۔
کسی بھی فرد اور اس ادارے کے لیے جس سے وہ منسلک رہا ہو یہ کس قدر شرم کا
مقام ہے لیکن اتفاق وہی محکمہ یہ کام کررہا ہے جس کے لیے یہ باعثِ رسوائی
ہے۔ اس کو قدر کا انوکھا انتقام بھی کہا جاسکتا ہے۔
پرمبیر سنگھ کا یہ عبرتناک انجام موجودہ سیاسی نظام پر ایک بہت بڑا سوالیہ
نشان لگاتا ہے۔تصور کریں کہ ایک بڑے سرکاری افسر کا بیٹا سماجیات کی ماسٹرز
ڈگری لے پولس محکمہ میں آئے۔ وہاں چار دہائیوں تک خدمت انجام دے۔ وہ کبھی
دیہی اضلاع میں ماؤ نواز باغیوں سے سینہ سپر ہو تو کبھی شہر میں جرائم پیشہ
گروہوں کا مقابلہ کرتا نر آئے۔ 1990 کی دہائی میں اسے انڈر ورلڈ سے
شہرکونجات دلانے کا اہم ترین کام سونپا جائے۔ وہ انکاؤنٹرکے ماہر کی حیثیت
سے شہرت کمائے اور ماورائے قانون مجرموں کو موت کی نیند سلائے لیکن سبکدوشی
سے ایک سال قبل فرار ہوجائے۔ پرمبیر سنگھ نے اپنے وکیل سے کہلوایا ہے کہ اب
اس کے پاس انل دیشمکھ کے خلاف کوئی مزید ثبوت نہیں ہے۔ پرمبیر نے ماہِ اگست
میں فون پر ایک صحافی کو بتایا تھا کہ ’میں انڈیا میں ہی ہوں اور ملک نہیں
چھوڑا ہے۔‘ اس جملے میں ملک نہیں چھوڑا ہے کہنا اس بات کا اشارہ ہے کہ ابھی
تک تو نہیں مگر جلد ہی چھوڑ دوں گا۔ مودی سرکار نے اس سے قبل نیرو مودی ،
میہول چوکسی اور وجئے مالیا جیسے نہ جانے کتنوں کو ملک سے فرار ہونے میں
تعاون کیا ہے بعید نہیں کہ پرمبیر سنگھ بھی ان میں سے ایک ہو؟ سچائی کیا ہے
یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن سمیر وانکھیڈے اور پرمبیر سنگھ کا عبرتناک
انجام دیکھنے کے بعد ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ دونوں ایک ہی سکے کے دو
گھناونے رخ ہیں اور وہ سکہ موجودہ سیاسی نظام ہے۔
|