جو لوگ کراچی میں پیدا ہوئے اور
یہاں عمر کی پانچ دہائیاں پوری کرچکے ہیں وہ بھی اندازہ نہیں لگا سکتے کہ
یہ شہر ہے یا کئی چھوٹے شہروں کا مینا بازار! ایک شہر میں کئی شہر بالکل
اُسی طرح ”ٹُھنس“ گئے ہیں جس طرح منی بس کے مسافر ایک دوسرے میں پیوست ہو
جاتے ہیں! شہر میں سفر کرنا کچھ کچھ سیاحت کی شکل اختیار کرتا جارہا ہے!
ہمیں حکومت کا احسان مند ہونا چاہیے کہ شہر کے ایک علاقے سے دوسرے علاقے
میں جانے پر ہم سے سیاحتی ٹیکس وصول نہیں کرتی! قدم قدم پر بھانت بھانت کی
بولیاں سُننے ملتی ہیں اور شہر پر کبھی جنگل اور کبھی سرکس کا گمان ہوتا ہے!
رنگ برنگے کلچرز اِس شہر کے رگ و پے میں میں پیوست ہو رہے ہیں۔ برادریوں کا
بازار گرم ہے، قبائلی سوچ دُکان سجائے بیٹھی ہے، جہاں تہاں تعصب اژدہے کی
طرح منہ کھولے کھڑا ہے! شناخت کا مسئلہ اِس لیے حل نہیں ہو پارہا کہ اب تک
ہم یہی طے نہیں کر پائے کہ زبان، نسل، رنگ، آبائی تعلق، مسلک، طبقہ اور
دیگر بہت سے آپشنز میں سے کِسے یا کِسے کِسے اپنائیں! زندگی اپنی تمام
مُسلّمہ اعلیٰ اقدار کے ساتھ اِن جھمیلوں میں کچھ ایسی گم ہوئی ہے کہ لاکھ
تلاش کرنے پر بھی کہیں دِکھائی نہیں دے رہی!
کراچی کا ایک بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ یہ وقت کے ساتھ چلنے سے قاصر ہے۔ اِس
کے نصیب میں صرف پھیلنا لکھا ہے، پنپنا نہیں۔ اِتنے بڑے خوان نعمت کو برتنے
میں ہم سبھی زبردست کفران نعمت کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ قیامت نہیں تو اور کیا
ہے کہ ہم میں سے بیشتر ایک دوسرے کو اپنانے سے زیادہ دفنانے میں دلچسپی لے
رہے ہیں! نظریات کے نام پر صرف فروعی اختلافات کی آگ کو ہوا دے کر اِس پر
قومی مفادات کو تِکّوں کی طرح بھونا جارہا ہے! قوّتِ برداشت کا رونا تو بہت
رویا جاتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ ہم صرف جامد رویّوں کے آغوش میں آ بیٹھے
ہیں! جس میں قوت ہے وہ اُس کا حق ادا کرنے کے بارے میں نہیں سوچتا اور صرف
تماشا دِکھانے پر تُلا ہوا ہے۔ شہر بھر میں مشہور و معروف تعلیمی اداروں کی
کمی نہیں مگر کہیں بھی یہ بات نہیں سِکھائی جاتی کہ طاقت عزت بڑھانے کے لیے
ہوتی ہے، کسی کی پگڑی اُتار کر اپنے قدموں میں ڈالنے کے لیے نہیں! ثابت ہوا
کہ ہم اب تک غار کے زمانے کی ذہنیت کے غار سے باہر نہیں آئے اور شاید باہر
آنا چاہتے بھی نہیں!
شہر میں قدم قدم پر سڑکیں اور پُل تو بہت تعمیر ہوچکے مگر رشتوں کو تعمیر
کرنے کی فکر ہمیں اب تک دامن گیر نہیں ہوئی! آپس کے تعلقات بہتر بنانے کے
بجائے ہم اُنہیں مزید بگاڑنے کی راہ پر گامزن ہیں۔ بچوں کی سی معصومیت تو
ہم میں پیدا نہ ہوسکی، ہاں اُن کی سی ہٹ دھرمی ضرور ہم میں در آئی ہے۔ ہم
نے کبھی CHILD-LIKE ہونے کی شعوری کوشش نہیں کی، اِس لیے خاصے CHILDISH
ہوگئے ہیں! جذبات، احساسات اور اقدار کی قدر ہو نہ ہو، کراچی میں مِٹی کی
قدر ہے اور سونے کے دام بکتی ہے۔ اور اِس مٹی کے فرزند بھی فرزندی کا حق
خوب ادا کر رہے ہیں! حمایت علی شاعر نے سچ ہی تو کہا ہے کہ
کِس لیے کیجیے کِسی گم گشتہ جنت کی تلاش
جبکہ مٹی کے کھلونوں سے بہل جاتے ہیں لوگ!
شہر بھر میں بلند و بالا عمارات ہیں، پرپیچ سڑکیں ہیں۔ سمجھ میں نہیں آتا
کہ یہ کیا چیستان ہے، یہ کیسا جنتر منتر ہے جس میں ہمارا بہت کچھ اِس طرح
لاپتہ ہوا ہے کہ اب ڈھونڈے سے بھی سُراغ نہیں مل پاتا! سڑکوں کو سِگنل فری
کرنے کا مطلب یہ تھا کہ اب ٹریفک رواں ہوگا مگر صاحب! یہاں تو سبھی کچھ
سِگنل فری ہوگیا ہے! دہشت گردوں کے لیے تو پورا شہر ہی سِگنل فری کوریڈورز
میں تبدیل ہوگیا ہے! نہتے شہری قدم قدم پر بدامنی کے انڈر پاس سے گزرنے پر
مجبور ہیں! دِلوں میں جھانکیے تو کٹی پہاڑیاں دِکھائی دیں گی! کئی بنارس،
کئی لالو کھیت، کئی جوہڑ موڑ، کئی پہلوان گوٹھ، کئی پاک کالونیاں ہمارے دل
کے نگر میں آباد ہوکر اُسے ویرانے میں تبدیل کی سعی کر رہی ہیں!
جیسے ہم ہیں ویسا ہمارا شہر ہے، یعنی ہمارے رویّوں کا عکس۔ کراچی کے مزاج
میں بھی اب وہی بے اعتدالی در آئی ہے جو ہمارے مزاج کا لازمی جُز ہے۔ ہماری
بے صبری، عجلت پسندی، بے حِسی، بے دِلی .... سبھی کچھ کراچی کے مزاج میں رچ
بس گیا ہے۔
کراچی سمندر کے کنارے آباد ہے۔ مگر مقام افسوس و عبرت ہے کہ اب تک اِس میں
سمندر کی سی گہرائی و گیرائی پیدا نہیں ہو پائی۔ شہر کے لوگ ساحل تک آتے
ہیں اور کچھ دیر محظوظ ہوکر چلے جاتے ہیں۔ یہ ہوا خوری اب ہماری پوری زندگی
پر محیط ہوچکی ہے! اہل کراچی چونکہ صرف ساحل سے واقف ہیں اِس لیے اُن کا
مزاج بھی ساحل کی ریت کا سا ہوگیا ہے! ساحل کی گیلی ریت پر پاؤں سے دباؤ
ڈالیے تو پانی ہٹ جاتا ہے اور ریت خشک سی ہو جاتی ہے اور پیر ہٹاتے ہی ریت
پھر گیلی ہو جاتی ہے۔ بس کچھ ایسی ہی حالت اب ہمارے ذہن کی بھی ہے۔ ذرا سی
دیر کو ہم ہوش میں آتے ہیں اور پھر سبھی کچھ پہلے جیسا ہو جاتا ہے! گویا
سمندر کے کنارے عدم تحمل اور جامد رویّوں کا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا ہے!
بحیرہ عرب کا دوسرا کنارا تو شاید ہم کسی نہ کسی طرح دیکھ لیں مگر اپنی
بدمزاجی کے سمندر کا دوسرا کنارا ہمیں دِکھائی دے، اِس کی کوئی امید نظر
آتی ہے نہ امکان۔
وہی بستیاں پنپتی اور پھلتی پھولتی ہیں جو وقت کے ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ اگر
عصری تقاضے نظر انداز کردیئے جائیں تو کچھ بھی باقی نہیں رہتا۔ یہی حال
کراچی کا ہے۔ شہر بھر میں بنیادی ڈھانچوں کا جال بچھا ہوا ہے، مگر دِلوں کو
جوڑنے والے بنیادی ڈھانچے تعمیر کرنے پر توجہ نہیں دی جارہی۔ ایسے سگنل فری
کوریڈور نہیں بنائے جارہے جن پر محبت بے روک ٹوک سفر کرے!
لاکھوں سال قبل زمین پر ڈائنوسارز کا راج تھا۔ ڈائنوسارز کے معدوم ہونے کا
ایک بڑا سبب یہ تھا کہ وہ بدلتے وقت اور حالات کا ساتھ نہ دے سکے یعنی
تبدیل نہیں ہو پائے۔ بہت سے ڈائنوسارز ایسے تھے جن کا وزن پچیس ہزار کلو
گرام سے زیادہ تھا اور دماغ کا وزن محض ایک کلو گرام جتنا تھا! آنکھ جو کچھ
دیکھتی تھی، چھوٹا اور نحیف سا دماغ اُس سے مطابقت رکھنے والے ردِ عمل کا
مظاہرہ نہیں کر پاتا تھا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ وزن بڑھتا گیا اور دماغ چھوٹا
ہوتا گیا۔ یہ صورت حال اِن ڈائنوسارز کے مزید سُست پڑتے جانے پر منتج ہوئی۔
بعض ڈائنوسارز کے لیے تو دس بیس قدم چلنا بھی محال ہوگیا۔ کراچی کا بھی کچھ
ایسا ہی حال ہے۔ اہل دانش کسی بھی شہر کے لیے دماغ یا ذہن کا درجہ رکھتے
ہیں۔ سمجھنے اور سوچنے کی تحریک دینے والوں کو ختم یا نظر انداز کرکے کراچی
کے دماغ کو چھوٹا کیا جارہا ہے، شاہ دَولہ کے چوہوں کی طرح!
ہم بھول گئے ہیں کہ شہر مشین نہیں ہوتے، یہ زندہ انسانوں کی طرح سانس لیتے
ہیں۔ ہر شہر کے سینے میں دِل ہوتا ہے اور اس دِل کی دھڑکن وہ لوگ ہوتے ہیں
جو اِس کی حدود میں بستے ہیں۔ لوگوں کے دِل مُردہ ہوں گے تو شہر بھی مُردوں
کی طرح جیے گا! کراچی کو محض جینے والوں کی نہیں، سمجھنے اور سوچنے والوں
کی بھی ضرورت ہے۔ اگر ہم اقدار اور جذبات کی قدر کریں گے تو کراچی کا دماغ
توانا بھی رہے گا اور اِس کا حجم بھی بڑھتا رہے گا۔ اگر ہم نے کراچی کے
دماغ کا حجم بڑھانے کی کوشش نہ کی تو یہ شہر بھی کسی قوی الجُثہ ڈائنوسار
کی طرح معدوم ہو رہے گا! |