پاکستان فلم انڈسٹری کے اداکاروحید مرادکسی تعارف کے
محتاج نہیں انہوں نے اپنے پچیس سالہ فلمی کیریئر میں ایک سو چوبیس فلموں
میں ناقابل فراموش کردار کئے جنوبی ایشیا کے سب سے زیادہ مشہور اور بااثر
اداکاروں میں سے ایک سمجھے جاتے ہیں برصغیر میں دلیپ کمار کے بعد وہ
واحددوسرے اداکار تھے جو نوجوان نسل میں بہت مقبول ہوئے ان کی مقبولیت کا
یہ عالم تھا کہ ان کے ہیئر اسٹائل کو نوجوان نسل نے کاپی کیاان کے دور میں
کالج کی لڑکیاں ان کی تصاویر اپنے پاس رکھتی تھیں وحید مراد ایک نامور
پاکستانی فلم اداکار، پروڈیوسر اور سکرپٹ مصنف تھے۔ گیتوں میں ان کا چلبلا
پن، مدھر آنکھیں اور رومانوی اداکاری کی بدولت وہ آج بھی چاہنے والوں کے
دلوں میں زندہ جاوید ہیں دلکش لہجہ، گیتوں پر خوبصورت پرفارمنس اور دلوں کو
چھو لینے والی اداکاری وحید مراد کا ہی خاصہ تھی پاک فلم نگر پر گہرے اور
انمٹ نقوش چھوڑنے والے ناقابل فراموش آرٹسٹ ہیں دو اکتوبر، 1938کوسیالکوٹ
میں فلم تقسیم کار نثار مراد اور انکی اہلیہ شیریں مرادکے گھر پیدا ہوئے
والدین کی اکیلی اولاد تھے انہوں نے ابتدائی تعلیم کراچی گرامر سکول سے
حاصل کی کراچی سے میٹرک کیا، ایس ایم آرٹس سے گریجویشن کیا، اور اس کے بعد
کراچی یونیورسٹی سے انگریزی ادب میں ماسٹرز کیاکراچی کے میمن صنعتکار
ابراھیم میکر کی بیٹی سلمہ سے ان کی شادی جمعرات 17 ستمبر، 1964ء کو
ہوئی.وحید مراد کی یہ پسند کی شادی تھی ان کے تین بچے یعنی دو بیٹیاں عالیہ
مراد، سعدیہ مراد اور ایک بیٹا عادل مراد ہیں عالیہ اور عادل حیات ہیں جبکہ
سعدیہ مراد بچپن میں ہی انتقال کرگئی تھی
وحیدمراد کے والد نثار مراد فلم تقسیم کار تھے اس لئے ان کے گھر فلم کے
لوگوں کا آناجا نا رہتا ہے یہی وجہ تھی کہ بہت سے نامور فلمی شخصیات سے ان
کی شناسائی ہوئی انہوں نے اپنے فنی کیریئر کا آغاز1959 میں پہلی فلم’’
ساتھی‘‘ سے کیا1962ء میں اپنے والد محترم نثار مراد کے بنائے ہوئے ادارہ
’’فلم آرٹس‘‘کے بینر تلے اردو فلم ’’انسان بدلتا ہے‘‘بطور فلمسازبنائی ان
کی دوسری فلم بطور پروڈیوسر ’’جب سے دیکھا ہے تمہیں ‘‘تھی فلم کے ہیرو اس
وقت کے نامور اداکار درپن اور ہیروئن زیبا تھی درپن کا طوطی بولتا تھا اس
لئے ان کا وحید سے سلوک اور برتاؤ قابل رشک نہ تھا وقت دینے کے باوجود سیٹ
پر دیر سے آنا فلم کے ہیرو کو معمول بنا ہوا تھا ان کے رویہ سے وحیدبہت تنگ
تھے اداکارہ زیبا جو فلم کی ہیروئن بھی تھی انہوں نے وحید کو فلم میں بطور
ہیرو آنے کا مشورہ دیا انہیں کچھ عجیب سا لگا لیکن جب یہی مشورہ بچپن کے
دوست پرویز ملک ’’جو بعد ازاں فلم نگر کے نامور ہدایت کار بنے‘‘نے دیا تو
فلم میں کام کرنے کے لئے راضی ہو گئے ہدایت کارایس ایم یوسف کی اردو فلم
’’اولاد‘‘ میں ان کا ایک اسپورٹنگ رول تھاناقدین کی طرف سے اس فلم کوبہت
زیادہ پسند کیا گیا وحید مراد اپنی ہی بنائی ہوئی اردو فلم ’’ہیرا اور
پتھر‘‘میں پہلی بار ہیرو آئے یہ فلم 1964 ریلیز ہوئی میں فلم کی ہیروئن
زیبا تھی فلم کے ہدایت کار پرویز ملک تھے یہ ایک کامیاب فلم تھی انہیں اسی
فلم کے لیے بہترین اداکار کے زمرے میں نگار ایوارڈ ملا۔وحید مراد کو شہرت
کی بلندیوں تک پہچانے والی فلم ’’ارمان تھی یہ فلم بھی انہوں نے 1966 میں
پروڈیوس کی فلم کے ہیرو خود اور ہیروئن زیبا تھی کامیڈین اداکار نرالہ تھے
اس فلم نے باکس آفس کے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے یہ ایک پلاٹینم جوبلی فلم تھی
واضح رہے یہ پاکستان کی پہلی پلاٹینم جوبلی فلم تھی احمد رشدی اور رونا
لیلی کے گائے ہوئے گیت ’’کو کو رینا‘‘،’’اکیلے نہ جانا‘‘،’’ بیتاب ہو ادھر
تم‘‘ اور ’’زندگی اپنی تھی اب تک‘‘ جیسے گانے نوجوانوں بالخصوص لڑکیوں میں
بے حد مقبول ہوئے فلم کے موسیقار سہیل رعنا تھے اس فلم کی کامیابی نے وحید
مراد کو اداکار سے سپر سٹار بنا دیاانہیں بہتر فلم ساز اور بہترین اداکار
کے طور پر اس فلم کے لئے دو نگار ایوارڈ بھی ملے یہ ایک رومانوی اور
میوزیکل فلم تھی۔1967ء میں انہوں نے دیور بھابی، دوراہا، انسانیت اور ماں
باپ جیسی لازوال فلموں میں جلوہ گر ہوئے۔ سینما گھروں میں 50 ہفتے مکمل
کرنے والی فلم دیور بھابی ان کی بہترین فلموں میں سے ایک سمجھی جاتی ہے اس
فلم کا احمد رشدی کا گایا ہوا گانا ’’ہپ ہپ ہرے ‘‘ بہت مقبول ہوا تھا
1964سے بننے والی کامیاب ٹیم جس میں وحید مراد، پرویز ملک، مسرور انور،
سہیل رعنا، احمد رشدی اور زیبا کے کامیاب ملاپ نے’’ ہیرا اور پتھر‘‘،’’
ارمان‘‘، ’’احسان‘‘، ’’دوراھا‘‘ اور ’’جہاں تم وہاں ہم‘‘ جیسی سپر ہٹ فلم
بنائیں ہدایت کارفرید احمد کی فلم عندلیب 1969 میں ریلیز ہوئی۔ان کے
مدمقابل شبنم تھیں عندلیب سال کی سب سے بڑی فلموں میں سے ایک ثابت ہوئی
احمد رشدی کا گایا ہوا گانا ’’کچھ لوگ روٹھ کر بھی لگتے ہیں کتنے پیارے‘‘بے
حد مقبول ہوا۔یہ شبنم کی ایسی فلم ہے جس میں شبنم کی اپنی آواز نہیں بلکہ
کسی اور کی آواز ڈب کی گئی تھی 1968کے بعدپھر اس کامیاب ٹیم کو حاسدین کی
نظر لگی اور یہ ٹیم اختلافات کا شکارہوئی اور تتر بتر ہو گئی 1969ء میں
وحید مرادنے فلم’’ اشارہ‘‘ بنائی،بیک وقت اس فلم کے ہیرو،ہدایت
کار،فلمساز،گلوکار اور مصنف بھی تھے یہی وہ فلم ہے جس میں وحید مراد نے
پہلا اور آخری گیت گایالیکن شائقین نے فلم کو پسند نہیں کیا یوں یہ فلم پٹ
گئی
پاک فلمی صنعت کا 60 اور 70 کی دہائی کا یادگار دور چاکلیٹی ہیرو وحید مراد
کی سحر انگیز شخصیت کے نام رہاوحید مراد نے میں بطور اداکار فنی سفر کا
آغاز کیااور 25 سالہ کیریئر میں ایک سو چوبیس فلموں میں کام کیا جن میں ایک
سو پندرہ اردو آٹھ پنجابی اور ایک پشتو فلم بھی شامل ہے جن میں 38 بلیک
اینڈ وائٹ اور86 رنگین فلمیں ہیں انہوں نے گیارہ فلمیں پروڈیوس کیں ایک فلم
’’اشارہ ‘‘ کی ڈائریکشن دی،چار فلموں ’’ارمان‘‘،’’احسان‘‘،’’اشارہ‘‘،اور
’’ہیرو‘‘ کی کہانیاں لکھیں چاروں فلموں میں ہیرو خود تھے’’ہیرو‘‘ ان کی
وفات کے بعد ریلیز ہوئی ان کی ڈائمنڈ جوبلی فلم ایک،پلاٹینم 4،گولڈن
جوبلی30،سلور جوبلی 50 اور ناکام فلمیں 39 ہیں6 فلموں ساتھی،باجی،خوشیا،اج
دی تازہ خبر،بے گناہ اور پرواہ نئیں میں بحیثیت مہمان اداکار کے طور پر کام
کیا ان میں 3اردو اور 3پنجابی فلمیں تھیں ان کی غیر رلیز شدہ یا نامکمل
فلمیں مقدر، آنکھوں کے تارے، آس پاس اور انداز تھیں ان کی وفات کے ستائیس
سال بعدنومبر2010ء میں پاکستان کے صدر آصف علی زرداری نے وحید مراد کو
’’ستارہ امتیاز‘‘سے نوازا یہ ایوارڈ انکی بیوہ سلمہ مراد نے حاصل کیا وحید
مراد کو نگار ایوارڈ،رومن ایوارڈ،گریجویٹ ایوارڈ،نور جہاں ایوارڈ،مصور
ایوارڈ، لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ،سندھ عوامی ایوارڈ،پی آئی اے آرٹس اکیڈمی
ایوارڈ،الفنکار ایوارڈ،شباب میموریل ایوارڈ،چترالی ایوارڈ،خلیل قیصر
ایوارڈ،آغاز ایوارڈ، چمنستان انٹرنیشنل ایوارڈ، قومی ایوارڈ،ریاض شاہد
ایوارڈ، نیشنل اکیڈمی ایوارڈ، ستارہ امتیاز لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ سے
نوازہ گیاوحید مراد ہیرو بھی تھے تو پروڈیوسر بھی اورساتھ میں اسکرپٹ بھی
لکھتے تھے بطور بہترین پروڈیوسر اور بطور بہترین اداکار کے طور پر 32 فلم
ایوارڈز حاصل کئے ہیرا اور پتھر،ارمان، دیور بھابی، دوراہا، انسانیت ، ماں
باپ، نصیب اپنا اپنا ،انجمن ، جب جب پھول کھلے، پھول میرے گلشن کا ، نیند
ہماری خواب تمہارے ،مستانہ ماہی، بہارو پھول برساؤ، عشق میرا ناں، شمع، خدا
اور محبت، محبت زندگی ہے ،جب جب پھول، شبانہ، سہیلی، تم سلامت رہواورپرکھ
جیسی لازوال فلموں میں بہترین اداکاری کے جوہر دکھائے وحید مراد پر 250 سے
زیادہ اردو اور پنجابی گانے فلمائے گئے، ان میں وحید مراد کا اپنا گایا ہوا
گانا ’’جیسے تیسے بیت گیا دن‘‘ فلم اشارہ کے لئے بھی شامل ہے۔ احمد رشدی،
مہدی حسن، مسعود رانا، اے نیئر، مجیب عالم، اسد امانت علی خان، غلام عباس،
رجب علی، اخلاق احمد، محبوب پرویز، منیر حسین، بشیر احمد، شوکت علی، امانت
علی خان، غلام علی، رفیق چوہدری اور سلیم رضا نے مختلف فلموں میں وحید مراد
کے لئے گائے تھے احمد رشدی وہ واحد پلے بیک سنگر تھے جن کی آواز وحید مراد
پہ خوب جچتی تھی ان دونوں کی جوڑی قابل رشک تھی اور دونوں ایک دوسرے کے لئے
لازم و ملزوم بن گئے احمد رشدی کے گائے ہوئے 140نغمے وحید مراد پہ فلمائے
گئے مہدی حسن نے وحید مرادکے لئے مختلف فلموں میں 68 انفرادی گانے اور
دوگانے گائے۔جو عوام میں بے حد مقبول ہوئے،مسعود رانا نے مختلف فلموں میں
وحید کے لئے 25 گانے گا ئے ۔اے نئیر نے وحید کے لئے کل 15 انفرادی دوگانے
گئے۔وحید مراد کے انتقال کے بعد ریلیز ہونے والی اردو فلم ’’زلزلہ‘‘کے لئے
اے نیئرکاگانا’’ میں ہوں پیار کا دیوانہ‘‘ وحید مراد پہ فلمایا گیامجیب
عالم اور اسد امانت علی نے وحید کے لئے 4چار چار گیت گائے اخلاق احمدکے
3،غلام عباس کے 2،محبوب پرویزکے2،منیر حسین کے2، رجب علی کا ایک گیت ’’
مستانہ ماہی ‘‘کے لئے ’’ایناں پھل کلیاں دی محفل وِچ ‘‘وحید مراد پہ
پکچرائز ہوئے ’’مستانہ ماہی‘‘ ان کی پہلی پنجابی فلم تھی جس میں ان کا ڈبل
رول تھا عالیہ اور نغمہ ان کی ہیروئین تھی اس فلم کے فلم ساز بھی خود تھے
یہ ایک سپر ہٹ فلم تھی ’’سیونی میرا ماہی میرے بھاگ جگاون آیاگیا ‘‘ میڈم
نور جہاں کا ایک شاہکار گیت تھا جو آج بھی روز اول کی طرح مقبول عام ہے
وحید مراد پہ پکچرائز ہونے والا پہلا گیت ’’مجھے تم سے محبت ہے ‘‘جو فلم
’’ہیرا اور پتھر‘‘ کے لئے تھا احمد رشدی نے گایا تھا حسن اتفاق دیکھئے رشدی
کا آخری گیت ’’ بن کے مصرع غزل کا چلی آؤ ناں ‘‘وحید مراد پہ فلمایا گیا
جوفلم’’ہیرو‘‘ کے لئے تھا اس فلم میں ان کا ڈبل رول تھاواضح رہے ان کے بیٹے
عادل مراد کی بطور چائلڈ سٹار پہلی فلم تھی اس میں عادل کا بھی ڈبل رول
تھا’’ ہیرو‘‘ ان کی کامیاب فلموں میں سے ایک تھی.’’ہیرو‘‘ میں وہ ’’ہیرو‘‘
نظر آئے وحید مراد نے ’’ہیرو‘‘ بنائی بھی ان لوگوں کے لئے تھی جو یہ سمجھتے
تھے وحید اب ’’ہیرو‘‘ نہیں رہے لیکن اس فلم میں انہوں نے ثابت کر دکھایا کہ
وہ واقعی ’’ہیرو‘‘ تھے بابرہ شریف اور ممتاز نے ہیروئن کا کردار کیاہیرو
اور زلزلہ وحید کے انتقال کے بھی ریلیز ہوئیں وحید مراد نے اپنے 25 سالہ
کیریئر میں زیبا، شمیم آرا، رانی، نغمہ، عالیہ، سنگیتا، کویتا، آسیہ، شبنم،
دیبا، بابرہ شریف، رخسانہ، نجمہ ،روزینہ ،بہار اور نیلو جیسی اداکاراؤں کے
ساتھ فلموں میں جوڑی بنائی ستر کی دہائی کا اختتام وحید مراد کے کیریئر کو
دھندلانے لگا نامورفلمی اداکارائیں جن کی وحید کے ساتھ جوڑی ہٹ ہوئی شائقین
خوب پسند کرتے تھے یکے بعد دیگرے ٹوٹتی گئیں۔پہلے زیبا، نشو، شبنم اور
دوسری بڑی ہیروئنز نے کام کرنے سے انکار کیا۔ پھر وحید مرادکو ندیم اور
محمد علی کے ساتھ بطور معاون ہیرو کام کرنے پر مجبورکیاگیا ان کی فلموں کو
آج بھی بار بار فلم فیسٹیول، سینما گھروں اور ٹی وی پر دکھایا جاتا ہے وحید
مراد کی موت کے38سال بعدآج بھی ان کے پرستارموجود ہیں ان کے نام کے فین کلب
بنا رکھے ہیں یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کے مداحوں کی جتنی بڑی تعداد آج بھی
پاکستان میں موجود ہے وہ کسی اور ہیرو کو نصیب نہیں ہوسکی فلموں میں کام نہ
ملنے سے ڈپریشن کا شکار ہوئے معدے کے السر نے انہیں مزید کمزور کردیا روڈ
حادثہ سے چہرے پر گہری چوٹ لگی چہرے کی سرجری سے ایک دن پہلے، وحید نے اپنے
بیٹے کی سالگرہ منائی وحید مراد 23 نومبر 1983 کو اپنے بیڈ روم میں مردہ
پائے گئے گلبرگ قبرستان، علی زیب روڈ، لاہور میں اپنے والد کی قبر کے قریب
دفن کئے گئے اﷲ تعالی ان کی بخشش فرمائے آمین۔ |