قلم شگوفیاں۔ یاد سے یاد

ایک شعر کے جواب میں شعرلکھنے کی روداد اور اس مہم جوئی کی شگفتہ داستان

اگا کے پھول پریشان ہو رہا ہو میں
ہوا چلے گی تو خوشبو کہاں چھپاؤں گا
ایک ادبی گروپ میں یہ شعر پڑھنے کو ملا۔
اس شعر نے مجھے سالوں کا سفر لمحوں میں کروا دیا ہے۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ یہ ۱۹۹۶ کی ایک سرد اور دسمبرکی یخ بستہ دھندلی شام تھی اور وادی کوئٹہ کے مشہور مشرقی پہاڑ کوہ مردار اور جنوب مغرب میں کوہ زرقون یا زرغون اور چلتن کی چوٹیوں پر دم توڑتے سورج کے کچھ آثار ابھی باقی تھے۔
میں اپنے کمرے میں تھرما پور شیٹ کے ایک مستطیلی ٹکڑے پر واٹر کلر سے اپنے ہی کمرے کی کھڑکی سے ہزارہ ٹاون کے نظر آنے والے دھندلے منظر کو بکھیرنے یا سمیٹنےکی ناکام کوشش کر ریا تھا۔ ابھی پچھلے ہفتے ہی اپنے ہسپتال یاترا کے دوران سٹاف نرس شمع سے نئی نئی کلر سکیم سیکھی ہوئی تھی۔ مختلف رنگوں کی آمیزش سے نئے نئے رنگ دریافت کرنا اور ان کےشیڈز بنانا ان دنوں میرامحبوب مشغلہ تھا۔

برابر والے کمرے میں جہلم کےکسی گاؤں سے تعلق رکھنے والے محمد اعجاز قیصر رہائش پذیر تھے۔ میری موجودگی اور کھلے دروازے کو دیکھ کر آ دھمکے۔ بے تکلف دوست تھے۔ اور اپنےحلیہ اور وضع قطع سے ہی شاعر لگتے تھے۔

نحیف سا جسم لمبا قد ماتھےپر ہر وقت ایک آواہ لٹ ان کا اس ماحول سے غیر ہم آہنگ ہونے کا پتہ دیتی تھی۔ اچھی غزل اور اشعار کہتے تھے۔ ہفت روزہ تعمیر پاکستان کوئٹہ میں چھپنے والی میری شاعری کو پسند کرنے کےساتھ ساتھ اس پربھرپور تبصرہ بھی جھاڑتے تھے۔

حسب معمول اپنی لمبی انگلیوں میں سگریٹ دبائے ابھی تک کمپنی یونیفارم میں ہی ملبوس تھے۔ شائد دفتر میں کام کی زیادتی کی وجہ سے لیٹ سٹنگ کی تھی۔ وہ سگریٹ پیتے کم اور سلگاتے زیادہ تھے۔ اکثر انگلیوں کی پوریں جلنے پر ہی سگریٹ کی طرف متوجہ ہوتے تھے۔
آتے ہی اپنے مخصوص انداز میں گویا ہوئے۔

آپ کی شاعری سےتو ابھی تک غالب اور میر اپنی قبورِ عالیہ میں لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ اور اب ہمارے شاہ صاحب نے صادقین کو بھی پریشان کر نا شروع کر دیا ہے۔ جواب میں ان کو یہ گوش گزار کیا کہ جناب والا اپنی تنہائی اور اس سے جڑی وحشتوں کو کسی حد تک کم کرنے اور وقت گزاری کے لئے بس زرا رنگوں سے کھیل رہا ہوں۔ اب اگر ہمارے شاعر شمال آ ہی گئے ہیں تو کوئی شعر ہی سنا دیں۔
کہنے لگے کہ آج میں نے ریڈیو پاکستان اسلام آباد کے انتخاب پروگرام سے یہ شعر سنا ہےجوکہ مجھے ذاتی طور پر بڑاپسند آیا ہے۔ جس پر میں نےباقاعدہ ارشاد ارشاد کی رٹ لگا دی۔
قیصر صاحب نے جواب میں جو شعر سنایا وہ کچھ یوں تھا۔
کئی روز سے آتی ہےخوشبو سی ہواؤں میں
بکھرا نہ ہو وہ پھول کہیں ٹوٹ کے راہوں میں۔

شعر تو واقعی اچھا اور قابل داد تھا۔ رسمی واہ واہ کے دوران ہی میرے اندر کے شاعر نے سر اٹھا لیا اور مجھ سے ہمکلام ہوا۔

اس کا شعر تو واقعی اچھا ہے مگر مسئلہ یہ تھاکہ مجھے کیسے ہضم ہواور جب تک شعر کا جواب شعر میں نہ دیا جائے مجھے کون شاعر مانے۔

چنانچہ پینٹنگزکو ادھورا چھوڑا اورتمام تر شعری جنگ وجدل کے ہتھیاروں سے لیس جن میں قافیہ ، ردیف ، وزن، علم بحور، تشبیہات ، استعارے اور رعایت لفظی اور اضافت تک اس رزم میں وارد ہوا۔

بڑے بڑے خیال باندھے مصرع لکھا دوسرے مصرعے کی تگ و دو تک میں گھنٹے لگ گئے۔ نہیں یہ وزن پر نہیں آ رہا۔ اچھا تو پھر یوں ۔ اہ ہو۔ قافیہ نہیں جچ رہا۔ شب کا اندھیرا اور گیدڑوں کی چیج و پکا عروج پر تھی۔ مشرقی ستارے اب اہل مغرب ہو چکے تھے ۔ مگر شعر ہے کہ کسی ڈھب پر نہیں آ رہا ۔ یا خدا کیا ماجرا ہے اپنی دیر میں تو پوری غزل لکھ مارتا تھا۔ کیا عجیب قید ہے۔ گل، پھول، غنچہ ،بلبل، خوشبو، ہوا ، صبا ، پتیاں ، پھول کا ٹوٹنا، بھکرنا ،خوشبو کا اڑنا ،پھیلنا ، فضا میں تحلیل ہونا، ماحول کو معطر کرنا، غرض پورا صفحہ قرطاس ان جیسے الفاظ مرکبات اور تراکیب سےبھرا پڑا تھا مگر کمی تھی تو صرف ترتیب کی حسن شعری کی اس موسیقیت کی یا ان سے لبریز کسی شعر یا قطعہ کی ۔ یوں ذہن بنجر پر کوئی شعر تو نہ آیا البتہ صبح ساڑھے پانچ بجےفجر کی اذان آ گئی۔ ایک وجہ کاتو ادرک تھا۔ کہ چائے کا آخری کپ رات دس بجے چڑھایا تھا یہ رات کو کنٹین بند ہونے کا وقتِ آخر ہوتا تھا۔ اب کنٹین صبح سات بجے جبکہ ہماری میس سے چائے ناشتہ صبح ساڑھے چھ بجے سے پہلے دستیاب نہیں تھا۔ کیونکہ کمپنی کے گھڑیال کے وقت کی سوئیاں پورا پورا انصاف کرتی ہیں۔ یوں ذہن کا بنجر ہونا ایک لازمی امر تھا۔
نماز کے سجدہ شکر میں بھی اس دعا کو مرکزی حیثیت حاصل رہی تھی کہ یا اللہ اعجاز قیصر والے شعر کے مقابلے میں شعر عنائت فرما۔ حالانکہ میں یہ تو جانتا ہی تھا کہ یہ شعر اس کا اپنا نہیں ہے ریڈیو سے سن کر سنایا گیا تھا۔ مگر ہائے رے انا۔ جواب میں شعر تو اپنا ہی ہونا چاہئے نا۔

خیر دعا قبول ہوئی۔صبح نور کے تڑکے چائے آئی بند ذہن کے دریچےروشن ہوئے اور چائے کی حدت اور شدت کے ساتھ میرا قلم چلنے لگا۔بالآخر وہ شعر معرضِ وجود میں آ ہی گیا جس کے رات کا چین نینوں کی نیند اور جوانی کے پندرہ گھنٹے غارت کر چکا تھا۔ صبح آٹھ بجے کے قریب کنٹین کے باہرنوزائیدہ دھوپ میں سارے ماحول سے الگ تھلگ لامبی انگلیوں میں دبا کیپسٹن کا سگریٹ سلگائے پریشان لٹیں ماتھے پر الجھائے قیصر صاحب مسلسل کوہ مردار کو گھورے جا رہے تھے۔

میرے گلا کھنکھنانے پر متوجہ ہوئے۔ میں نے شکوہ کیا کہ شام کو آپ میرا جوابی شعر سنے بغیر ہی آ گئے۔ جس پر انہوں تو ٹھکاوٹ اور آرام طلبی کی وجہ بتائی اور یوں میری آدھی عزت کا بھرم تو رہ گیا۔ اور اپنے تئیں باقی ادھی عزت یہ شعر سنا کر بچا لی۔
مضبوط ہو گر شاخ کبھی پھول نہیں گرتے۔
نادان سے بھنورے بھی ناکام سدا پھرتے
جب تک ہے صبا باقی خوشبو بھی ضیاباقی
ہر راہ میں کبھی پھول نہیں گر کے بکھرتے
مجھے یہ تو نہیں پتہ کہ ان کو میرا قطعہ کتنا پسند آیا یا اردو ادب کے ذخیرہ اور ادبی حلقوں پر یہ قطعہ منکشف ہونے پر بیتے گی البتہ میری انا دسمبر کی اس صبح کیطرح بالکل ٹھنڈی ٹھار ہو چکی تھی۔

 

Sibtain Zia Rizvi
About the Author: Sibtain Zia Rizvi Read More Articles by Sibtain Zia Rizvi: 25 Articles with 15114 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.