قلم شگوفیاں۔ سیاسی نعرے
تحریر۔ سبطین ضیا رضوی
اللہ بھلا کرے۔ رو رو کے برا حال ہو چکا تھا۔ ڈاکٹر کے پاس بھی گیا۔ وہ
کہتا تھا۔ خوش مزاجگیوں کی ساری دوائیں وڈے وزیر صاحب لے گئے ہیں۔ اب میں
ان کی ساری تقاریر سنتا ہوں ۔ کبھی کبھی بین الاقوامی اکھاڑوں میں اور کبھی
اپنے اسلام آباد والے پارلیمانی گراؤنڈ میں ان سے پھبتیاں اور شگفتگیاں
سننے کاموقع ملتا رہتا ہے۔ دل کو کچھ ڈھارس ملتی ہے۔ ایسے میں ہماری ویب پر
لگنے والے ادب و مزاح کےمناثرے یقین جانیں کسی پاناڈول ایکسٹرا سے کم نہیں۔
اس قسم کی ادبی سرگرمیاں ہمارے لیئے تو شفاخانہ ہی ہوئی نا۔ چاہے شفاخانہ
حیوانات ہی کیوں نہ ہو ۔ ہوتا تو ہے نا ۔ نہ ہونے سے تو بہتر ہے نا۔ مجھے
ایک بابا جی مشورہ دے رہے تھے کہ آپ کو زیادہ تفریح کی ضرورت ہے ہر وقت
مغموم بے چین اداس اداس اور پریشان رہتے ہو ۔ میں نے پوچھا کیا کروں۔ وہ
گویا ہوئے۔ شام کو الحمراء کا چکر لگایا کرو۔ میں نے بتایا بابا ہم تو ادھر
حکومت پورہ میں رہتے ہیں۔ اور الحمرا تو سنا ہے لاہور میں ہے۔
پوچھنے لگے یہ حکومت پورہ کیا ہے۔ میں نے کہا جہاں یہ وڈے لوگ حکومت حکومت
کھیلتے ہیں۔ میری بات پر وہ ہنس پڑے۔ کہنے لگے اچھا تو اسلام آباد کی بات
کرتے ہو۔ میں نے عرض کی کہ میری کیا مجال کو اسلام آباد کی بات کروں آپ کو
پتہ ہے کتنی پولیس ہے شہر میں اور میرا تو ان بڑی بڑی گاڑیوں اور بنگلے
والوں میں کوئی واقف بھی نہیں۔
دوسری بات میں نے اگر اسلام آباد کی بات کی تو لوگ اسےخواہ مخواہ اسلام سے
جوڑ کر ایویں ای مجھ پر کوئی پرچہ کروادیں گے۔ اور پھر مولوی لوگ تو کوئی
بات سنتے بھی نہیں۔ ڈنڈے دیکھے ہیں ان کے ہاتھوں میں پولیس سے بھی بھڑ جاتے
ہیں۔ نا بابا نا۔ کوئی اور گل چھیڑیں۔
پوچھتے ہیں۔ یہ حکومت پورہ والی کیا بات تھی۔ میں نے کہا۔ دیکھتے نہیں ہیں۔
سارے پلاٹ، سارے بنگلے، کوٹھیاں، مکانات اور دفتر اور کاریں حکومتی لوگوں
سے پر ہے۔ عام بندہ ادھر جائے تو رات کو کسی تھانے میں ہی ملے۔
کہنے لگے ہاں آخر ملک پر کسی نے حکومت بھی تو کرنی ہی ہےنا ۔ میں نے کہا۔
آپ نے اخبار کبھی نہیں پڑھا۔ اس میں حکومت کرنے والوں سے زیادہ گرانے والوں
کا بہت شور ہوتا ہے ایمان سے۔
کبھی لکھا ہوتا یے۔ جنوری تو کبھی جون جولائی میں حکومت گرائیں گے ۔ کبھی
کہتے لانگ مارچ اور کبھی ٹرین مارچ۔ ہر جلسے میں تقریریں ہوتی ہیں۔ کہ ایک
دھکا اور دو۔
شکر کرو یہ ٹرین مارچ نہیں ہوئی۔ دیکھا کتنے حادثے ہوتے ہیں ملک میں ٹرینوں
کے۔ اگر مارچ والی ٹرین کو کچھ ہو گیا تو یہ حکومت گرانے والے تو خود گئے۔
پھر یہ رونق کون لگائے گا۔
بابا جی کہنے لگے کہ کبھی کسے سیاسی جلسے میں تقریر سنی کبھی کوئی سیاسی
اکھاڑا دیکھا۔
میں نے کہا کہ وہ تقریروں میں تو اپنا سارا غصہ حکومتوں پر کرتے ہیں پھر اس
غصے کی عملی بھڑاس بیچاری بریانی کی پلیٹوں، دیگوں اور کرسیوں پر نکالتے
ہیں۔ ایک بار ایک جلسے میں وہاں نعرہ لگا تھا تبدیلی آئے گی۔ پھر کیا ہوا۔
چند ہی دنوں کے اندراندر ریٹ لسٹیں تبدیل ہو گیئں اور چیزوں کے دام بڑھ
گئے۔ ہمارا ملک ترقی کر گیا ہم سب امیر ہو گئے اور دس روپے کی چیز پچاس اور
سو میں لینے لگے۔ پھر عوام کے مزاج تبدیل ہو گئے۔ اب تو اکثر گلی محلے اور
گھروں میں لڑائیاں ہوتی ہیں۔ سارے بتاتے ہیں لڑائی جھگڑوں کی وجہ یہ تبدیلی
اورمہنگائی ہے۔ اب تو لوگوں کے دن رات بھی تبدیل ہو گئے ہیں۔ وہ اپنے محلے
میں باؤ ہے کسی دفتر میں کمپیوٹر پر بیٹھتا ہے۔ اب اتوار کو بھی کسی کام پر
جاتا ہے۔ اور رات کو بھی کہیں کام کرتا ہے۔
اچھا میں نے ایک اورجلسے میں یہ نعرہ بھی سنا تھا۔ ووٹ کو عزت دو۔ یہ بھلا
کیاہوا۔ بابا بھی مسکرائے اور کہا ادھا نعرہ سن کر تھوڑا سمجھ آتا ہے۔ میں
حیران ہوا اور پوچھ بیٹھا کہ پورا کیا ہے۔
فرماتے ہیں۔ ووٹ کو عزت دو ووٹر کو خجل کرو۔ میں نے پوچھا وہ کیسے۔ کہنے
لگے جیسے ہمارے ہاں ہوتا یے۔ ووٹ لینے والا اسمبلی میں پہنچ جاتا ہے
دولت،عزت اور شہرت بھی پاتا ہے۔ وزیر بھی بنتا ہے اور اسے اپنے علاقے کا
بجٹ بھی مل جاتا ہے اور دینے والا یونین کونسل، تھانہ، کورٹ، کچہری، دفتروں
ہسپتالون اور چوہدریوں کے ڈیروں کے چکر لگاتاہے۔پوچھا کہ صحیح نعرہ کیسا
ہونا چاہیے۔ بولے وہ جس طرح عورتیں جلوس نکالتی ہیں اور نعرہ لگاتی ہیں کہ
میرا جسم میری مرضی۔ اس طرح کچھ اچھے ووٹرز بھی ایسا بھی نعرہ لگاتے ہیں۔
میں نے کہا کمال ہے۔ ووٹر بھی عورتوں والا ہی نعرہ لگاتے ہیں۔ کہنے لگے۔
ارے نہیں۔ ان کا نعرہ بس تھوڑا سا مختلف ہوتا ہے۔ وہ ان سیاستدانوں کی
باتوں میں نہیں آتے۔ وہ کہتے ہیں میرا ووٹ میری مرضی۔ میں نے عرض کی بابا
جی زرا یہ روٹی کپڑا اور مکان والا نعرہ بھی آج سمجھا دیں۔
کہنے لگے پت یہ پرانا نعرہ ہے۔ اور تازہ بھی ہے۔ پرانا اس لئے کہ بھٹو بھی
شھید ہو گیا۔اور بی بی بھی اور تازہ اس لئے کہ بھٹو ابھی زندہ ہے۔ میں نے
کہا پھر زندہ کیسے ۔ بولے جس طرح ایک پینشنر کے فوت ہونے کےبعداس کی فیلمی
پینشن ہوتی ہے۔بالکل اس طرح ہی اس نعرہ سے اب باقی سیاست چل رہی یے۔ پت یہ
عوامی نعرہ ہے اور یہ عوامی ضرورتیں ہیں۔ سرکار کا دردِ سر نہیں۔
پوچھا وہ کیسے۔ بولے کہ یہ غریب عوام کا نعرہ ہے۔ یہ ہے مکان کپڑا اور
روٹی۔
میں نے کہا زرا سمجھا دیں۔ کہتے ہیں ۔ حکومتیں کہتی ہیں ۔ ہم نے غربت کا
خاتمہ کرنا ہے۔ ماہریں معاشیات کہتے ہیں۔ غریب نہ ہوں تو غربت ختم۔ پھر ایک
ایک کر کے بھوک، افلاس، وبا، بیماری، مہنگائی اور معاشرتی عدم تعاون و
توازن اور بے توجہی سے غریب مرتا ہے۔
پوچھا پر وہ مکان ۔ کپڑا اور روٹی والی بات۔
کہنے لگے جب غریب مرتا ے تو یہی نعرہ لگتا ہے۔ پھر اس کی قبر گور بھی بنتی
ہے۔ کفن کا کپڑا بھی ملتا ہے اور اپنے چوہدری کے گھر سے اس کے بچوں کے لیئے
روٹی بھی ملتی ہے۔
میں نے ایک طویل سانس لیتے ہوئے کہا۔ اچھا۔ سمجھ گیا۔ پر اپنی پریشانیوں کا
کیا کروں۔
کہنے لگے سرکاری خبریں اور پرائیویٹ چینل کی تبصرے سنا کرو۔ خوب لطیفے اور
چٹکلے سننے کو ملیں گے۔ ایک ہی اینکر مذہب سیاست اقتصادیات۔ سائنس۔ طب۔
فلسفہ زراعت ۔ صنعت تجارت۔ دفاہی امور خارجہ پالیسی سب کا حل بتاتا ہے۔ سن
کر طبیعت ہشاش بشاش ہو جاتی ہے۔
|