تین چہرے

کہتے ہیں کہ ہر انسان کے تین چہرے ہوتے ہیں، ایک چہرہ وہ ہے جو دنیا کو دکھانے کے لئے ہوتا ہے۔مسکراتا، کھلکھلاتا اور چمکتا دمکتا چہرہ جو عام لوگوں کے سامنے آپ کے سب عیب چھپا لیتا ہے۔دوسرا وہ چہرہ جو صرف آپ کے عزیزو اقارب اورقریبی دوست احباب ہی دیکھ سکتے ہیں۔ جنہیں آپ کی چھوٹی موٹی خامیوں کا پتہ ہوتا ہے۔تیسرا چہرہ وہ ہے جو آپ سب سے چھپا کر رکھتے ہیں، کسی کو اس چہرے کی خبر تک نہیں ہونے دیتے۔یہ تین چہرے انسان کے ظاہر اور باطن کو پوری طرح عیاں کرتے ہیں۔ گو دوسروں کو ان چہروں کا کم پتہ چلتا ہے مگر خود انسان ان تینوں کو بخوبی جانتا ہے۔ مہذب لوگوں کے ان تین چہروں میں بہت زیادہ فرق نہیں ہوتا ، مہذب معاشرے بھی اس برائی میں کم آلودہ ہوتے ہیں۔مگر ہمارے جیسے ان معاشروں میں جہاں منافقت، دو رنگی اورنفسا نفسی اپنی انتہا پر ہو ، وہاں بہت سے لوگوں کے دوسرے اور تیسرے چہرے انتہائی مکروہ ہوتے ہیں۔

بچپن میں میرے محلے میں ایک مجسٹریٹ رہتے تھے ۔ ہر وقت ہاتھ میں تسبیح اور سر جھکائے کچھ پڑھتے محلے میں نظر آتے۔ ان کے پاس سے گزرو تو سر پر بڑی شفقت سے ہاتھ پھیرتے اور دعائیں دیتے۔ ان کا یہ انداز اور یہ چہرہ ایک انتہائی نیک اور شریف بزرگ کا تھا۔ کچھ عمر زیادہ ہوئی تو محلے کے لوگوں کو ان کے بارے کچھ عجیب باتیں کہتے سنا۔ پہلے اعتبار نہیں آتا تھا۔ مگر محلے کے ایک لڑکے نے بتایا کہ اس کے والد کی ان کے ساتھ دوستی ہے اور دس پندرہ دن بعد جب وہ اکٹھے ہوتے ہیں تو باقاعدہ فحش گوئی کی محفل ہوتی ہے اور وہ صاحب جو بظاہر بڑے نیک نام تھے ، غلیظ گفتگو میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ محلے کے بہت سے لڑکوں نے چھپ کر ان کی باتیں سنیں اور ہنس ہنس کر پورے محلے کو فیض یاب کیا۔مجھے ان کے اس چہرے نے بڑا مایوس کیا۔ کافی عرصے کے بعد ایک دن میرے کچھ سیاسی دوست جیل سے رہا ہو کر آئے۔ ان سے بات چیت ہو رہی تھی ۔ باتوں باتوں میں عدلیہ کا ذکر شروع ہو گیا اور ججوں اور مجسٹریٹوں کی بات چل نکلی کہ کون کیسا ہے اور اس کا عدالت میں کیا رویہ ہے ۔ میں نے بتایا کہ ایک مجسٹریٹ میرے محلے میں رہتے تھے اور بہت شفیق، نمازی ، پرہیز گار اور نیک انسان تھے۔ انہوں نے نام پوچھا تو نام بتانے پر ایک لمبا، چوڑا قہقہ پڑا۔ کہنے لگے کہ ان کی یہ ساری حرکتیں فقط لوگوں کو دکھانے کے لئے تھیں، رشوت خوری میں ان کا ایک خاص مقام ہے۔ وہ صاحب چھوٹی سی رقم بھی نہیں چھوڑتے تھے۔ پھر انہوں نے ایک واقعہ سنایا کہ ایک صاحب کسی معمولی سے کیس میں چھ ماہ کی سزا پا کر جیل آئے۔ نئے قیدی سے ملنے پرانے قیدی اکٹھے ہوئے اور سزا پر اس سے افسوس کرنے لگے۔کسی نے کہا ، بھائی آپ کا جرم تو کوئی ایسا نہیں تھا کہ جس پر چھ ماہ کی قید ہوتی ۔ تھوڑے سے پیسے خرچ کرتے تو سزا ٹل جانی تھی۔ قیدی نے کہا کہ افسوس میرے پاس پیسے ہی نہیں تھے اس لئے پھنس گیا ہوں۔ ایک صاحب نے نعرہ لگایا ، مجسٹریٹ کو ن تھا۔ قیدی نے جواب میں اسی مجسٹریٹ کا نام بتایا جو میرا پرانا محلے دار اور میرے محلے میں بڑا نیک نام تھا۔ یک دم ہجوم کا مزاج بدل گیا۔ اب انہوں نے قیدی کو گالیاں دینی شروع کر دیں۔ کہ احمق آدمی کیا تمہارے پاس دس روپے بھی نہیں تھے۔ وہ شخص تو عدالت ہی میں بغیر دیکھے رقم سیدھا جیب میں ڈالتا اور آپ کا کام کر دیتا ہے۔دیکھ بھی لے تو دس روپے بھی نہیں چھوڑتا، کچھ بھی مل جائے اسی پر خوش ہو جاتا ہے۔مجھے اس دن ان صاحب کا تیسرا چہرہ بہت نمایاں نظر آیا۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ ان کا چھپا ہوا چہرہ شاید ہمیشہ چھپا رہے گا، مگر ایسا نہیں ہوتا ،کوئی بات دنیا سے مکمل چھپی نہیں رہ سکتی۔وقت کے ساتھ آپ کا ہر عیب ظاہر ہو جاتا ہے اور باقی شرمندگی رہ جاتی ہے مگر وہ تو ایک احساس ہے اگر کوئی محسوس کرے۔

ْٰؓٓ زندگی میں ایسی باتیں صرف سننے کے لئے ہی نہیں سبق حاصل کرنے کے لئے ہوتی ہیں۔ اچھا انسان وہی ہے جس کے تین چہروں میں فرق نہ ہو یا اگر ہو تو اتنا معمولی کہ کوئی محسوس نہ کر سکے۔ ویسے ہمارے معاشرے میں احساس کا فقدان بڑا واضع ہے۔ لوگ حکمت کی باتوں پر غور ہی نہیں کرتے ۔ برائی اس قدر عام ہے کہ لوگ برائی کو برائی سمجھتے ہی نہیں۔ اچھے لوگوں کو گلہ ہوتا ہے کہ زندگی ان کے ساتھ انصاف نہیں کر رہی ۔ یہ ٹھیک ہے۔ ان حالات میں یہ فطری عمل ہے، گلہ کرنا ہی نہیں چائیے۔اپنی طرف سے لوگوں کے جذبات کا احترام کرنا سیکھیں، شاید آپ کے نزدیک یہ معمولی بات ہو مگر جن کے جذبات کا آپ احترام کریں گے ہو سکتا ہے ان کے لئے یہ بہت بڑی بات ہو۔حکمت کی باتوں پر غور کیا کریں یہ کبھی نا کبھی آپ کو بہت کچھ دے جاتی ہیں۔

ان لوگوں کا اخترام کریں تو آپ کو سچ سے آگاہ کرتے ہیں چاہے وقتی طور پر وہ انتہائی کڑواہ ہی کیوں نہ ہو۔

منزل کے سفر میں اپنی انا کو بھول جائیں۔ انا آپ کو بھٹکا تو سکتی ہے، صحیح راستہ دکھانا اس کے بس میں نہیں ہوتا۔

آپ اگر ایک بات سنتے اور دوسری اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔ توبہتر ہے اپنی آنکھوں پر اعتبار کریں ۔ سنی سنائی باتیں عموماً غلط فہمی پیدا کرتی ہیں۔

ایک اچھی زندگی سکوں چاہتی ہے کوشش کریں کہ اپنی زندگی میں سکون پیدا کریں۔ یہ سکوں آپ کی زندگی کو ہی نہیں بلکہ ارد گرد تمام ماحول کو خوشگوار بنائے گا۔


تنویر صادق
 

Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 573 Articles with 443115 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More