تحریر: سیّدہ منیب حجاب بُخاری ۔ اسلام آباد
حجاب اپنے والد کے ہمراہ بیٹھی ٹیلی ویژن دیکھ رہی تھی تو والد صاحب نے
علامہ اقبال کا بڑا ہی خوبصورت شعر سُنایا
''ابھی تک آدمی صید زبون شہر یاری ہے۔
قیامت ہے کہ انسان نوع انسان کا شکاری ہے۔
نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیب حاضر کی۔
یہ صناعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے۔''
واہ ابو! کیا بات ہے؟ مگر میں آپکی بات سمجھنے سے قاصر ہوں؟ ارے بیٹا اقبال
کہہ گئے ہیں کہ انسان تب تک کامیاب نہیں ہو گا جب تک وہ خود کو نہ پہچانے۔
مغربی تہذیب اتنی دِلکش ہے۔ کہ دیکھنے والے کو متاثر کر دیتی ہے۔ اور جب وہ
متاثر ہو جاتا ہے۔ تب اُس لمحے وہ پستی کا شکار ہو جاتا ہے۔اور اپنی تہذیب،
اپنی ثقافت، اپنے سوچنے کا نظریہ سب مغرب کی چمک دمک میں کھو دیتا ہے۔مگر
ابو؟ ایسا کیوں؟ بیٹا جو لوگ خود کو بھول جاتے ہیں۔ زمانہ اُنکو بھول جاتا
ہے۔میں کافی دیر سے دیکھ رہا ہوں۔تُم یہ جو ڈرامے دیکھ رہی ہو۔ ان میں کہیں
پر بھی یہ نہیں دکھایا یا سیکھایا جا رہا کہ ایک مُسلم معاشرہ کیسے ہوتا
ہے؟ اسلام کی کیا تعلیمات ہیں؟ بس طرح طرح کے ٹی وی چینلز ہیں۔ اور سب کے
پاس بس ایک کہانی جس میں ردو بدل کر کے دوبارہ نشر کیا جا رہا ہے۔ یہ سامنے
دیکھو اس لڑکی کا لباس، تنگ اور چست پتلون پہن رکھی ہے۔ اوپر سے چھوٹا سا
کُرتا۔ دوپٹہ تو ہے ہی نہیں۔ اور ساتھ کھڑے لڑکے کو دیکھو اُس نے اچھی خاصی
لمبی قمیض زیب تن کر رکھی ہے۔مگر ان دونوں کو دیکھ کر کہیں سے بھی یہ نہیں
لگ رہا کہ انکا تعلق مشرق سے ہے۔ یا یہ مسلم معاشرے سے تعلق رکھتے ہیں۔ان
کہانیوں میں بس ایک بات جو میں نے اب تک دیکھی وہ یہ ہے۔کہ کوئی نہ کوئی
کِسی نہ کسی انسان کے پیچھے دیوانہ ہے۔اُس انسان کو پانے کے لیے چاہیے قتل
کرنا پڑے، جھوٹ بولنا پڑے، جادو کرنا پڑے۔ کریں گے۔پھر ہر کہانی میں ایک
لڑکی کا ایسا کردار دکھایا گیا ہے جو اپنا گھر بار چھوڑ کر اپنی خالہ یا
پھپو کے گھر قیام پذیر ہوتی ہے۔ جو محترمہ بظاہر تو بہت شریف نفس دکھائی
جاتی ہے۔ مگر پس پردہ وہ اپنی خالہ،یا پھپھو کو خوب کٹ پُتلی بنا کر اپنے
اشاروں پر ناچ نچوائے گی۔ اپنی خالہ، پھپھو کو اپنے ہی بچوں کے خلاف کرے
گی۔ اور اُنکے گھر میں رہتے ہوئے زندگی بسر کرے گی۔ پتہ نہیں کون سی تہذیب
دیکھا رھے ھیں یہ ٹی وی والے، ہمارے معاشرے میں جوان بیٹی شادی سے پہلے
کِسی اپنے کے گھر رات بسر نہیں کرتی تھی۔ معیوب سمجھا جاتا تھا۔ ان ڈراموں
میں دیکھتے ہی کیا ہو؟ کیا اخلاقیات سکھائی جا رہی ہیں؟ یہی کے کِسی کے
خلاف کیسے سازش کرنی ہے؟ اپنے بزرگوں سے کیسے بدتمیزی کرنی ہے؟ کیسے اُنکو
نظر انداز کرنا ہے؟ کیسا مغربی لباس زیب تن کرنا ہے؟ کیسے کسی کو بے اولاد
بنانا ہے؟ کیسے کسی کا گھر تباہ کرنا اور کسی دوسرے کے شوہر کو حاصل کرنا
ہے؟ کیسے کسی کے کان بھر کر کسی کو دوسرے کے خلاف کرنا ہے؟ یہ سب تو ہمارے
مُسلم معاشرے کہ حصہ نہیں ہے۔انہوں نے وہ میراث گوا دی ہے جو اجداد سے ہم
کو ملی تھی۔افسوس ہوتا ہے کہ ہماری جوان نہ سمجھ نسل ان ڈراموں کو بڑی دل
چسپی سے دیکھتی ہے۔ اور ٹھیک ویسے ہی رویہ اپنے بزرگوں سے رکھتے ہیں۔ جیسے
دیکھتے ہیں۔ میں مانتا ہوں یہ ٹی وی بڑی نایاب چیز ہے۔ ہم گھر بیٹھے پوری
دنیا کو دیکھ اور سن سکتے ہیں۔ مگر کیا فائدہ جب آپ کُچھ اچھا نہ سیکھو؟
بچوں کے دماغ کچے سوت کی طرح ہوتے ہیں۔ سوت اُسی رنگ میں رنگا جاتا ہے۔ جو
وہ دیکھتا ہے۔ سو میں سے نوے فیصد تو بے حیائی، بے پردگی، بے راراوی دکھائی
جا رہی ہے۔یہی وجہ ہی کے آج ایک مسلم معاشرے میں جرائم کا تناسب اچھائی کے
مقابلے زیادہ ہے۔پھر جو موجودہ موسیقی ہے۔ انکے الفاظ بے ہودہ ہیں۔ بے ہنگم
موسیقی ہے۔ جس سے بس شور ہی ہے۔ جس میں ساز یا الفاظ کا چناؤ درست نہیں کیا
گیا جس کی وجہ سے ہر نیا آنے والا گانا جلد ہی بھولا دیا جاتا ہے۔ پھر تُم
کو میں اس ٹی وی کے کُچھ منفی پہلو بتاتا چلو۔
۱- بچوں کی نظر ابتدائی عمر میں ہی خراب
۲- لوگوں کا ڈپریشن کا شکار ہونا
۳- نئی نسل میں بے حیائی کا فروغ
۴- مذہب سے دوری
۵- معاشرے میں جنسی زیادتی کا بڑھنا
۶ بچوں کا تعلیم پر توجو نہ دینا
۷ - بے ہنگم موسیقی سے نفسیاتی ہونا
۹ - والدین کی عزت کا کم ہونا۔
۰۱ - خونی رشتوں میں سے صبر کا ختم ہونا
۱۱- قریبی رشتوں سے دوری
۲۱- تنہائی کا صاف نہ ہونا
۳۱- لہجے سے مٹھاس کا ختم ہونا جیسے نکات شامل ہیں۔
۴۱- عورتوں کا اپنی اولاد اور گھر پر توجہ نہ دینا
جب عورتوں کے پاس ٹی وی اور موبائیل فون نہیں
ہوا کرتے تھیتو گھر خوبصورت ہوا کرتے تھے۔
عورتیں طرح طرح کے کھانے بناتی تھی۔ اُنکو میزبانی کا شوق تھا۔ گھر کے
باغیچے سر سبز اور شاداب تھے۔مردوں کا اپنے گھر کی عورتوں کے ساتھ رویہ
احسن تھا۔ کوئی کِسی کو بری نظر سے نہیں دیکھتا تھا۔ لباس کا انتخاب بھی
بہترین ہوا کرتا تھا۔ اب تو بچوں کو نہ تو کھانے پکانے کے اگاہی ہے۔ نہ ہی
کوئی اور ہنر ہاتھ میں ہے۔ بس لے دے کر پڑھائی کرتے ہیں اور مر مر کے پاس
ہوتے ہیں۔والدین کے پاس بیٹھنے اور بات کرنے تک کا وقت نہیں ہوتا۔ سب اپنی
اپنی دُنیا میں گھم ہوتے ہیں۔ ساتھ والے کمرے میں کیا ہو رہا ہے۔ اس سے
بلکل بے خبر ہوتے ہیں۔فوتیگی، شادی، عید جیسے موقع پر جوان نسل اوندھے منہ
بستر میں لیٹی سو رہی ہوتی ہے۔تو ابو کیا میں ٹی وی نہ دیکھو؟ نہیں میرے
بچے۔دیکھو مگر وہ جس میں کُچھ اچھا دکھایا جا رہا ہو۔
جیسے کے کوئی سائنسی پروگرام یا پھر کوئی دینی تعلیم سکھائی جا رہی ہو تُو
دیکھو۔ ان ڈراموں سے کیا سیکھو گی۔اُمید کرتا ہوں۔ تُم وہ بنو جو تُم ہو۔
اپنی شناخت کبھی کِسی چمکدار چیز کے پیچھے مت کھونا میری بیٹی۔ دُنیا رنگین
ضرور ہے۔ مگر یہ دُنیا امتحان ہے۔ جس میں وقت سمجھداری کے ساتھ گزارنا ہے
|