ڈیپریشن

وہ گھٹنوں میں سر دیے ماضی کی اندوناک سوچوں میں گم تھی۔ جب چھوٹی ہانیہ کھانا لیے اندر داخل ہوئی۔'' باجی کیا سوچ رہی ہے اٹھیے ہاتھ منہ دھوئیں آپ بھی کھانا کھا لے، علی کو ابھی کھانا کھلا کر امی کے پاس چھوڑ کر آئی ہوں۔ کتنی آوازیں دی تھی آپ کو، پر آپ ہر بات سنی ان سنی کر دیتی ہے ''تم کہنا کیا چاہتی ہوں؟میں پاگل ہو یا بہری ہوں؟جس نے تمہاری آواز نہیں سنی۔ لے جاؤ یہ کھانا، نہیں کھانا مجھے اور اگر علی کو کھانا کھلا دیا تو کوئی احسان نہیں کیا، مہینے کے مہینے جو کماتی ہوں تم لوگوں کے ہاتھ پر رکھتی ہوں۔۔۔۔ہانیہ جو کچھ دنوں سے باجی کے لہجے میں بدلاؤ محسوس کر رہی تھی آج یہ سب سن کر تو حیران رہ گئی

''باجی بس بھی کریں میں نے کب ایسا کہا اچھا چھوڑے ناں، آئیے باہر لان میں چلتے ہیں۔ آپ کو تازہ ہوا کی ضرورت ہے۔

امی جو علی کو سُلا کر ادھر ہی آ رہی تھی نینا کو اونچی آواز میں چلاتا سن کر دروازے کے پاس ہی رک گئی۔وہ دونوں کی گفت و شنید سن چکی تھی۔ اندر داخل ہوتے ہی نینا کو سمجھانے لگی۔ ''دیکھو بیٹا جو ہوا سو ہوا، تم بھول کیوں نہیں جاتی سب؟ آخر کب تک اُس کا غصہ دوسروں پر نکالتی رہو گی۔ کیوں خود کو اذیت دے رہی ہو؟ سکول سے آتے ہی کمرے میں اعتکاف بیٹھ جاتی ہو بس، نہ کسی سے ملنا ملانا نہ کچھ۔ آج بازار میں تمھاری دوست رملہ ملی تھی مجھ سے تمہارا پوچھ رہی تھی میں نے بھی صاف صاف بتا دیا کہ باؤلی ہو گئی ہے، بات بات پر غصہ کرنے لگتی ہے، ٹھیک سے نیند نہیں لیتی،رات گئے تک گھٹنوں میں سر دیے بیٹھی رہتی ہے بھوک اُسے نہیں لگتی وزن دن بدن کم ہوتا جا رہا ہے، دیکھو اتنا سا منہ نکال لیا ہے، بات کی طرف توجہ تم نہیں دیتی یادداشت تمہاری کمزور پڑ رہی ہے، مزاج بگڑتا جا رہا ہے''

اماں نے پچھلے ہفتے سے جو نینا کا بدلتا مزاج دیکھا تو کچھ دنوں سے سائیکو تھراپی شروع کر دی تھی آج پھر کلاس لینے بیٹھ گئی۔ وہ باتوں باتوں میں ایک ایک کر کے نینا کو ڈیپریشن کی علامات بتائے جا رہی تھی، وہ چاہتی تھی ان کی بیٹی ان مصیبت زدہ حالات سے نمٹنے کی خود کوشش کرے۔۔۔۔وہ جو اماں کی بات کا روح سمجھ رہی تھی پھر چلا اٹھی اماں تو بتائیں میں کیا کروں، کیا قصور تھا میرا جو اس نے مجھے طلاق دے دی ایک اس امیر لڑکی کی خاطر۔۔۔بیٹا وہ اپنے زندگی میں آگے بڑھ گیا ہے تو پھر تم پیچھے کیوں رکی ہو تمہیں اس سے بھی آگے جانا ہے ہمارے لیے نہ سہی اپنے بیٹے کے لیے کچھ سوچو۔وہ اب بات سمجھ رہی تھی پھر بھی سوال کر دیا۔تو اماں بتائیے کیا کروں میں؟ دیکھو بیٹا صبح اٹھ کر ورزش کیا کرو چاہے چہل قدمی ہی کیوں نہ ہو۔ ورزش سے انسان کی جسمانی صحت بھی بہتر ہوتی ہے اور نیند بھی۔ اپنے آپ کو کسی نہ کسی کام میں مصروف رکھا کرو چاہے یہ گھر کے کام کاج ہی کیوں نہ ہوں۔ اس سے انسان کا ذہن تکلیف دہ خیالات سے ہٹا رہتا ہے۔نینا نے کچھ سوچتے ہوئے ہاں میں سر ہلا دیا۔اماں آج خوش تھی کہ وہ اپنی بیٹی کو ڈیپریشن سے باہر نکالے میں کامیاب ہو رہی تھی۔
 

Aneeza Noreen
About the Author: Aneeza Noreen Read More Articles by Aneeza Noreen: 2 Articles with 2234 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.