فتنوں کا دور ہے اور یقین مانیں تو ڈر لگتا ہے کہ کیا پتا
کون کہا ں کافرکہہ کر قتل کر ڈالے کیونکہ یہاں"اسلام "نہیں بلکہ" انسانیت"
خطرے میں ہے ۔امام ابن تیمیہ ؒ فرماتے ہیں ’’ہم ایسے عہد میں ہیں کہ فتنے
زوروں پر ہیں اور مصائب وآفات مسلسل امڈے چلے آتے ہیں زیادہ تر فتنوں کا
باعث دو چیزیں ہیں قلت ِ علم اور عدم صبر ‘‘میری باتیں بھی میری طرح تلخ
ہوتی ہیں وطن عزیز میں اسلام کو سب سے زیادہ نقصان ان نام نہاد دین فروشوں
نے پہنچایا ہے جنہوں نے اپنے پیٹ کی خاطر خلائق عامہ تک ’’اسلام ‘‘کی اصل
تعلیمات کو پہنچنے ہی نہیں دیا ان تعلیمات میں اپنے بابوں اور بزرگوں کے من
گھڑت قصے کہانیوں کو اپنی سند جواز سے دین کا حصہ قرار دیکر عوام الناس کو
گمراہ کردیا ہے بالکل اسی طرح جس طرح حضرت موسی ؑ کی اتنی پر زور تاکید کے
باوجود بنی اسرائیل خدا کی کتاب سے غافل ہوتے چلے گئے ۔ان کی غفلت یہاں تک
بڑھی کہ حضرت موسی ؑ کے سات سو برس بعد ہیکل سلیمانی کے سجادہ نشین اور
یروشلم کے یہودی فرمان روا تک کو یہ معلوم نہ تھا کہ ان کے ہاں تورات نامی
کوئی کتاب موجود ہے ۔علمائے یہود کا سب سے بڑا قصور یہ تھا کہ انہوں نے
کتاب اﷲ (تورات)کے علم کی اشاعت کرنے کی بجائے اس کو پیشہ ور وں کے ایک
محدود طبقے میں قید کردیا تھا ۔عوام الناس تو دور کی بات خود یہودی قوم کو
اس کی ہوا نہ لگنے دیتے پھر جب عام جہالت کی وجہ سے ان کے اندر گمرائیاں
پھلیں تو علمائے یہود نے ان کی اصلاح کرنے کی بجائے عوام میں اپنی جھوٹی
شان وشوکت اور مقبولیت کو برقرار رکھنے کے لیے ہر اس گمراہی اور بدعت کو جس
کا رواج عام ہوجاتا اسے اپنے قوم وعمل سے سند جواز عطا کرنے لگے۔قرآن کریم
(سورۃ التوبہ آیت 34)کے الفاظ میں علمائے یہود کا حال یہ تھا ’’اکثر علماء
اور درویشوں کا حال یہ ہے کہ وہ لوگوں کے مال باطل طریقوں کھاتے ہیں اور
انہیں اﷲ کی راہ پر چلنے سے روکتے ہیں ‘‘آج بھی چند اشتہاری ،درباری اور
خوشامدی ملاؤں کا حال بھی یہی ہے اس حقیقت سے انکار نہیں کہ برصغیرپاک
وہندمیں ’’اسلام ‘‘کو سب سے زیادہ نقصان ہی ان نام نہاد دانشوروں نے
پہنچایا ہے اپنی جاہلانہ تعلیمات کی بدولت جیسا کہ مسجد گرادو،مندر
گرادو،نماز عشق ادا کرو ایسی بے شمار خرافات ہیں جن کا اسلام کے ساتھ دور
دور تک کوئی تعلق نہیں ہم صدیوں بت پرستوں کے ساتھ رہے جس کی وجہ سے ہم
انکی تہذیب وثقافت کو نہ بھلا سکے اوپر سے ان درویشوں نے ان فرسودہ رسموں
رواجوں کو سند جواز عطا کرتے ہوئے انہیں دین کا حصہ قرار دیدیا اور یوں ہم
اصل دین سے مسلسل دور ہوتے چلے گئے بے شک بزرگان دین نے بہت سی قربانیاں
دیکر ہم تک دین کی اصل تعلیمات پہنچائیں مگر ہم شرک و بدعت، کی تمیز کھو
بیٹھے ہیں یقین کریں کہ آج کسی بھی شخص کو یہ کہا جائے کہ قرآن وحدیث میں
یہ لکھا ہے تو وہ کہتا ہے کہ ’’ہمارے مولانا تو یہ کہتے ہیں ‘‘ان درویشوں
اور خوشامدی ملاؤں کا حال بھی کسی صورت علمائے یہود سے کم نہ ہے ۔ان
چندپیشہ ور علماء اور درویشوں کو اس بات کا بخوبی علم ہے کہ جس دن انہوں نے
حق بات کہنا شروع کردی اس دن ان کے چڑھاوے بندہ ہوجائیں گے اورلوگوں کے
اندر جو انہوں نے اپنی جھوٹی شان وشوکت قائم کی ہوئی ہے وہ ختم ہوجائے گی
۔دین اسلام اﷲ تعالیٰ کا پسنددیدہ دین ہے جوکہ ایک مکمل ضابطہ حیات ہے
۔اسلام کسی بھی صورت ظلم وجبرتشددواجاراداری ،غلامی،ناانصافی،بے ایمانی کا
درس نہیں دیتا ،اسلام تو امن بھائی چارے ،صبر ،استقامت،عفودرگزر،معافی کا
حکم دیتا ہے جن کا عملی نمونہ نبی رحمت ﷺ اور صحابہ کرام ؓ کی حیات کی صورت
میں ہمارے سامنے ہیں۔کوئی بھی الہامی مذہب انسانی جانوں کا دشمن نہیں فلسفہ
ودانش اور علم وحکمت سب کے سب انسانوں کی بھلائی کے مدعی اور علمبردار ہیں
۔اس کا مطلب یہ ہے کہ تشدد کرنے والے اور تشددکوروا رکھنے والے انسانی فکر
وذہن کے عروج اور اس کی خصوصیات کو برباد یا نذر آتش کرنے کے درپے ہیں اور
یوں وہ دراصل انسانیت کے مستقبل کو تاریک اور انسانی کردار کو بھیانک بنانے
کی ناپاک سعی کرتے ہیں ۔تشددودہشت گردی ہر سطح پر (یعنی وہ انفرادی ہو یا
اجتماعی)قابل مذمت اور لائق نفرین ہے ۔تشدد دراصل ایک جنون ہے یا مخبوط
الحواسی ،مایوسی اور نامردی کی کھلی علامت ہے۔ پاکستان میں مذہب کے نام پر
ہونے والی دہشت گردی میں کسی بھی صورت میں اسلام کے ماننے والوں کا کوئی
ہاتھ نہیں اور نہ ہی کوئی مسلمان یہ گوارا کرتا ہے کہ وہ کسی قسم کی خوفناک
،خون آشام کاروائی کا حصہ بنے ۔یہ تو چند ذہنی مریض افراد یا گروہ کی
کاروائی ہوتی ہے جو اپنے مفادات کی خاطر اسلام کا مونو استعمال کرتے ہیں
۔اسلام نے انسانی حقوق ،حریت اور آزادی کے سنہری اصولوں برابری اور رواداری
کی بنیادوں پر امن وآشتی کے ساتھ پھیلائے اور اس کی تعلیمات نے انسانیت کو
عزت سے جینے کا شعور عطا کیا ،انسان کو اشرف المخلوقات کے منصب پر فائز
ہونے نوید سنائی ۔اسلام نے بتایا کہ سب انسان برابر ہیں ،بڑائی کا معیار
تقویٰ ہے ۔جو مذہب دوران جنگ میں اصول بتائے ۔رسول کریمﷺ سے پہلے جنگ وحشت
،غارتگری اور ہوس ملک گیری کا نام تھا جس کا اصل محرک انتقام ،تفاخریامال
ومتاع کا حصول ہوتا تھا ۔جب جنگ کا طبل بجتا تو مقاتلین اور غیر مقاتلین کا
امتیاز اٹھ جاتا تھا ۔دشمن قوم کا ہر فرد دشمن بن جاتا تھا ۔عورتوں ،بچوں
اور بوڑھوں غرض یہ کہ مخالف قوم کے ہرفرد کے ساتھ یکساں وحشیانہ برتاؤ کیا
جاتا تھا۔سرورکونین ﷺ نے جنگ کے مہذب ضابطے اور قوانین بنائے اس کے آداب
اور اخلاقی حدود متعین کیے ۔مقاتلین اور مقاتلین میں اور معاہدین اور
مسافروں میں فرق قائم کیا ،سفرا ء مفتوح قوموں اور اسیران جنگ کے لیے نہایت
کریمانہ حقوق متعین کیے ۔غفلت میں حملہ ،آگ لگانے ،لوٹ مار ،عورتوں ،بچوں
،بے ضرر بوڑھوں ،غلاموں اور قیدیوں کے قتل ،بدعہدی اور دیگر وحشیانہ افعال
کو ممنوع قرار دیا ۔حق یہ ہے کہ اسلام کا عسکری نظام بھی رحمت ورافت کے
جذبوں سے لبریز ہے۔جو مذہب غیر مسلموں کے حقوق کا بھی ضامن ہو ایسے مذہب کے
ماننے والے کبھی دہشت گردنہیں ہوسکتے ۔دکھ اور تکلیف دہ امر یہ ہے کہ چند
لوگ اپنے ذاتی مفادات کے لیے مذہب کا بے دریغ استعمال کرتے ہوئے نوجوان نسل
کو حنوط کیے ہوئے ہیں ۔اوراسلام سے بے بہرہ پڑھی لکھی نوجوان نسل ان چند
برزگوں اور درویشوں کی خرافات کو من وعن دین سمجھ بیٹھے ہیں جن کے نتائج
انتہائی بھیانک نکلتے ہیں ۔اسلام فطرت کا دین ہے اور مکمل ضابطہ حیات ہے
اورانسانی حقوق کا علمبردار ہے ۔ہائے افسوس کہ یہ درویش اور بظاہر مذہب کے
رکھوالے ہم جیسوں پر اس لیے مسلط ہیں کہ ہم نے انکی اطاعت کو اطاعت الٰہی
اور اطاعت نبی ﷺ کے ساتھ مشروط کرلیا ہوا ہے ۔
|