قُرآن کا قانُونِ نکاح و طلاق اور قانُونِ عِدت !!

#العلمAlilmعلمُ الکتاب سُورَةُالاَحزاب ، اٰیت 49 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیت و مفہومِ اٰیت !!
یٰایھا
الذین اٰمنوا
اذانکحتم المؤمنٰت
ثم طلقتموھن من قبل ان
تمسوھن فمالکم علیھن من عدة
تعتدونھا فمتعوھن و سرحوھن سراحا
جمیلا 49
اے ایمان دار مردو ! جب تُم ایمان دار عورتوں کے ساتھ معاہدہِ نکاح قائم کرو اور پھر نکاح کرنے کے بعد کسی بھی اَنہونی کے باعث اپنی اُن زیرِ معاہدہِ نکاح عورتوں کو جسمانی ملاپ سے پہلے پہلے ہی طلاق بھی دے دو تو طلاق دینے کے بعد تُم اپنی اُن مطلقہ عورتوں کو اُن کی عدت کی مُدت اپنے گھروں میں گزارنے کا پابند بنانےکے بجاۓ اُن کو معاہدہِ نکاح کے وقت طے کیا گیا اُن کا حقِ مال و لباس وغیرہ دے کر ایک اچھے طریقے کے ساتھ اپنے گھروں سے رُخصت کر دیا کرو !
مطالبِ اٰیت و مقاصدِ اٰیت !
معاہدہِ نکاح اگرچہ دُنیا کی ہر قوم میں وہی ایک لگا بندھا معاشرتی معاہدہ ہوتا ھے جس معاہدے کے تحت اُس قوم کے دو اَفرادِ مرد و زن اُس قوم کے مقررہ دینی و آئینی اور معاشرتی ضابطوں کے مطابق ایک چَھت تلے ایک ساتھ رہنے کا حق حاصل کر کے ایک چَھت تلے ایک ساتھ رہنے لگتے ہیں لیکن دُنیا کی ہر قوم کے دینی و آئینی اور معاشرتی ضابطے چونکہ ایک دُوسرے سے قدرے مُختلف ہوتے ہیں اِس لیۓ اُن کے ایک ہی مقصدِ نکاح پر متفق الخیال ہونے کے با وجُود بھی اُن کی شرائطِ نکاح ایک دُوسرے سے مُختلف ہوتی ہیں ، دینِ اسلام جو اِس دُنیا میں آنے والا اِس دُنیا کا آخری ترقی یافتہ دین ھے اِس دین میں جب مرد و زن کے درمیان معاہدہِ نکاح کرایا جاتا ھے تو اُس معاھدے کے اِس پہلے مرحلے میں ہی مرد کو اُس عورت کی کفالت کا ذمہ دار بنایا جاتا ھے جو اپنے والدین کا گھر اور اُس گھر کی ساری سہولتیں چھوڑ کر اُس کے گھر میں آتی ھے اور طلاق واقع ہوجانے کی صورت میں مرد کو اُسی مرحلے میں اِس اَمر کا بھی پابند بنا دیا جاتا ھے کہ وہ اُس مطلقہ عورت کے حاملہ ہونے کی صورت میں اُس کے وضع حمل تک اور امکانِ حمل کی صورت میں ظہورِ حمل تک اُس طلاق یافتہ عورت کو اُس گھر میں رکھے گا جس گھر میں وہ طلاق کے وقت موجُود تھی اور اُس کی اُس طلاق یافتہ عورت کو بھی اِس اَمر کا پابند بنا دیا جاتا ھے کہ وہ مطلقہ عورت بھی اپنے وضعِ حمل و ظہورِ حمل تک اپنے اُسی شوہر کے اُسی گھر میں رھے گی جس گھر میں وہ طلاق سے پہلے رہتی تھی ، اِس قانون کا پہلا مقصد اُس بچے کو اُس کے باپ کے اُس نسب کا حق دار بنانا ہوتا ھے اُس کا جو حقِ نسب اُس بچے کے پیدا ہوتے ہی اُس کے باپ کے نسب کے ساتھ ملاتا دیتا ھے اور اِس کا قانون کا دُوسرا مقصد اُس بچے کو اُس کی اُس وراثت کا قانونی حق دار بنانا ہوتا ھے جو وراثت اُس بچے کے بالغ ہونے کے بعد اُس کے اُس نسبی باپ کی طرف سے اُس کو ملنی ہوتی ھے اور اُس طلاق یافتہ عورت پر بھی لازم کیا گیا ھے کہ وہ اپنی عدت کی وہ سہ ماہی مُدت بھی اپنے اُسی شوہر کے اُسی گھر میں گزارے جس نے اُس کو طلاق دی ھے تاکہ اِس مُدت کے دوران اُس کے حاملہ ہونے کی صورت میں اُس کا وضع حمل ہو جاۓ اور امکانِ حمل کی صورت میں اُس کا مُمکنہ حمل ظاہر ہو جاۓ یا مرد وزن کے لواحقین کو اُس کے غیر حاملہ ہونے کا یقین حاصل ہو جاۓ اور اِس عرصے کے دوران جو بچہ پیدا ہو چکا ھے یا جو بچہ پیدا ہونے والا ھے وہ اپنے باپ کے نسب اور اپنے باپ کی اُس مُجوزہ وراثت کا قانونی وارث بن جاۓ جس قانونی وراثت کا حق دار بنانے کے لیۓ طلاق یافتہ عورت پر عدت کی وہ مُدت اُس گھر میں لازم کی گئی ھے لیکن اٰیتِ بالا کے نفسِ مضمون میں یہ بات شامل نہیں ھے جو بات اٰیتِ بالا کے نفسِ مضمون کی اِس تمہید کے طور پر ھم نے عرض کی ھے کیونکہ اٰیتِ بالا کا نفسِ مضمون صرف یہ ھے کہ اگر مرد و زن کے اُس مُنعقدہ نکاح کے معا بعد کوئی ایسی اَنہونی ہو جاۓ کہ مرد و زن کے جسمانی ملاپ سے پہلے ہی اُن مرد و زن کے درمیان طلاق واقع ہو جاۓ تو اِس صورت میں عورت پر عدت لازم نہیں ھے کیونکہ اِس صورت میں اُس حمل کا کوئی امکان ہی موجُود نہیں ھے جس حمل کے ظہور کے لیۓ عدت کا یہ قانون وضع کیا گیا ھے ، قُرآنِ کریم کا یہ ایک واضح اور غیر مُبہم مضمون ھے لیکن اِس غیر مُبہم مضمون کے باوجُود بھی اہلِ روایت نے عورت کو مُبتلاۓ عذاب بنانے اور مُبتلاۓ عذاب بناۓ رکھنے کے لیۓ قُرآنِ کریم کے اِس غیر مبہم مضمون پر بھی وہ طولانی لُغوی اور لَغوی بحثیں کی ہوئی ہیں جن بحثوں میں ایک جماعت کا کہنا ھے کہ قُرآن کے لفظِ نکاح سے مُراد محض مرد و زن کا معاہدہِ نکاح نہیں ھے بلکہ اِس سے مرد و زن کا وہ جنسی عمل بھی مُراد ھے جس کے لیۓ معاہدہِ نکاح کیا جاتا ھے ، دوسری جماعت کہتی ھے کہ نکاح کا لفظ معاہدہِ نکاح اور جنسی عمل دونوں کے لیۓ ایک مُشترک المعنی لفظ ھے جس سے دونوں مفاہیم مُراد ہو سکتے یا مُراد لیۓ جا سکتے ہیں اور تیسری جماعت کہتی ھے کہ نکاح کا معنٰی اگرچہ مُطلقا ایک عقدِ تزویج ہی ھے لیکن مجازًا جنسی عمل کے لیۓ بھی اِس کا استعمال ہوتا ھے اور علمِ لُغت کے معروف عالم راغب اصفہانی کہتے ہیں کہ لفظ نکاح کا حقیقی معنٰی تو صرف عقدِ نکاح ھے لیکن استعارے کے طور پر اِس لفظ کو جنسی عمل کے لیۓ بھی استعمال کیا جاتا ھے ، یعنی ناک تو اِن سب کی وہی ایک ھے لیکن اِس ناک کو پکڑنے کا طریقہ سب کا ایک دُوسرے سے الگ الگ ھے اور اگر اِن کی اِن تین آراء میں سے کسی ایک راۓ کو بھی تسلیم کر لیا جاۓ تو قُرآن کا پیش کیا ہوا وہ سارا بیانیہ ہی اُن کی اُس شخصی راۓ کے تابع ہو جاۓ گا جو انہوں نے پیش کی ھے اور جو اُن کے پیش نظر ھے جبکہ قُرآنِ کریم کی اِس اٰیت میں استعمال کیۓ گۓ اِس لفظی مُرکب { اذا نکحتم } کے حرفِ { اذا } اور لفظِ { نکحتم } کے درمیان میں جو ایک لفظی و معنوی فاصلہ ھے وہ فاصلہ بذاتِ خود اِس بات کی دلیل ھے کہ یہاں پر نکاح سے مُراد صرف اُس معاہدہِ نکاح کی اَنجام دہی کا وہ عمل ھے جس عمل کے ذریعے وہ اَفرادِ مرد و زن ایک دُوسرے کے جسم کو چُھونے کا ایک قانونی و آئینی اختیار حاصل کرتے ہیں اور قُرآنِ کریم نے اِس لفظی مُرکب کے معا بعد { قبل ان تمسوھن } کے الفاظ کہہ کر معاہدہِ نکاح کی اَنجام کے بعد اُس جنسی و جسمانی مرحلے تک پُہچنے کی ہی مکمل نفی کردی ھے جس نے اُس بات کا عقلی جواز ہی ختم کر دیا ھے جس بات کو جواز بنا کر اہلِ روایت نے اپنی قُرآن دُشمنی یا پھر اپنی عقل دُشمنی کا یہ ثبوت فراہم کیا ھے !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 567394 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More