تحریر:خالد محمود عاصم
انتخاب و پیشکش : محمد اسلم لودھی
ا
ڈاکٹر رفیع محمد چوہدری یکم جولائی 1903ء کو ہندوستان کے ضلع روہتک کے ایک
گاؤں کہنور (Kahnour) میں پیدا ہوئے۔ پرائمری تک کی تعلیم اپنے گاؤں سے ہی
حاصل کی جبکہ روہتک شہر سے اپنی ثانوی تعلیم مکمل کی اور 1923ء میں سکالرشپ
پر مسلم یونیورسٹی علی گڑھ چلے گئے۔ وہاں انہوں نے کئی اعزازات (گولڈ میڈل)
حاصل کئے جس میں سے ایک 1929ء میں یونیورسٹی کے ایم ایس سی فزکس کے امتحان
میں اول آنے پر جبکہ دوسرا تمام سائنسی مضامین میں سب سے زیادہ نمبر لینے
پر اور پہلی پوزیشن حاصل کرنے پر حاصل کیا۔ ان کا یہ ریکارڈ ایک چوتھائی
صدی تک برقرار رہا۔
رفیع محمد چوہدری کے شاندار تعلیمی کیریئر سے متاثر ہو کر نواب آف بھوپال
نے انہیں مزید تعلیم کے حصول کے لئے انگلینڈ کی مشہور درسگاہ کیمبرج
یونیورسٹی کے لئے سکالرشپ دے دیا چنانچہ وہ انگلینڈ چلے گئے۔ چونکہ وہ
کیمبرج میں نووارد تھے اور وہاں کے داخلہ کے نظام کے بارے میں کچھ نہ جانتے
تھے‘ اس لئے وہ مشہور زمانہ نوبل انعام یافتہ سائنس دان لارڈ ردر فورڈ کے
پاس چلے گئے اور ان سے مشہور کیونڈش لیبارٹری میں کسی جگہ کے متعلق دریافت
کیا۔ لارڈ ردر فورڈ نے ان کی مدد کی اور انہیں فٹس ولیم ہاؤس (اب فٹس ولیم
کالج) میں جگہ دلوا دی۔ اس کے ساتھ ساتھ انہیں ریسرچ طالب علم کے طور پر
رکھ لیا اور انہیں دھاتوں سے ثانوی الیکٹران کے اخراج اور گیسوں میں برقی
اخراج کی تحقیق کا کام سونپا۔ اس وقت ان موضوعات پر پروفیسر جے جے تھامسن
بھی اپنی تجربہ گاہ میں تحقیق میں مصروف تھے۔
ڈاکٹر رفیع محمد چوہدری نے 1923ء کے اواخر میں اپنا ڈاکٹریٹ کا مقالہ مکمل
کر لیا۔ انہوں نے کیونڈش میں قیام کے دوران استفادہ کرتے ہوئے نمایاں حیثیت
سے کام کیا اور پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کر لی۔ تیس کے عشرے کے اوائل میں
کیونڈش کا یہ ایک شاندار دور تھا کیونکہ اس زمانے میں ایٹم اور نیوکلیئر
فزکس میں بہت پیش رفت ہوئی۔ کیونڈش لیبارٹری میں اس وقت سر جے جے تھامسن‘
لارڈ ردر فورڈ‘ آسٹن ولسن‘ کک روفٹ‘ والٹن‘ سرجیمس چیڈویک جیسے نامور سائنس
دان کام کرتے تھے۔ ڈاکٹر رفیع محمد چوہدری ہمیشہ اس بات پر فخر کرتے رہے کہ
وہ کیونڈش میں اپنے سنہری دور کے دوران ردر فورڈ کے طالب علم تھے۔
1933ء کے آغاز میں ڈاکٹر رفیع محمد چوہدری پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے کے
بعد واپس ہندوستان چلے آئے۔ واپس آنے پر ان کی شادی کر دی گئی۔ 1933ء میں
ہی ان کی پہلی تقرری غیرمنقسم ہندوستان میں اسلامیہ کالج لاہور میں بطور
فزکس کے پروفیسر کے طور پر عمل میں آئی۔ وہ 1938ء تک اس ادارے میں تدریسی
فرائض سرانجام دیتے رہے۔ وہ اس دوران شعبہ فزکس کے چیئرمین بھی رہے۔
1938ء میں پروفیسر سر مارک اولیفانٹ کی دعوت پر برمنگھم یونیورسٹی کے شعبہ
فزکس میں بطور نوفلیڈ فیلو کے طور پر کام کرنے کے لئے دوبارہ انگلینڈ گئے۔
برمنگھم میں اپنے دو سالہ قیام کے اختتام پر 1948ء میں ڈاکٹر رفیع محمد
چوہدری جب واپس علی گڑھ پہنچے تو ہندوستان کی تقسیم عمل میں آ چکی تھی اور
14 اگست 1947ء کو پاکستان معرض وجود میں آ چکا تھا۔
قیام پاکستان کے فوراً بعد سر مارک اولیفانٹ نے قائداعظم کو ایک خصوصی
مراسلے میں پاکستان جیسے نوزائیدہ ملک میں سائنسی میدان میں خصوصاً ایٹمی
اور نیوکلیئر فزکس میں تدریس وتحقیق کے فروغ کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے
یہ بھی لکھا کہ اس پروگرام کے کامیاب اطلاق کے لئے پورے ہندوستان میں
پروفیسر رفیع محمد چوہدری سے بہتر کوئی مسلمان سائنس دان نہیں ہے۔ انہوں نے
پروفیسر رفیع محمد چوہدری کو فوری طور پر پاکستان بلانے پر بھی زور دیا۔
قائداعظم نے سر مارک اولیفانٹ کے دلائل کے پیش نظر پروفیسر چوہدری کو خط
لکھا اور انہیں پاکستان آنے کی دعوت دی۔ اس کے ساتھ ہی قائداعظم نے وزارت
تعلیم کو حکم نامہ جاری کیا جس کے تحت پروفیسر رفیع محمد چوہدری کو گورنمنٹ
کالج لاہور اور پنجاب یونیورسٹی لاہور میں شعبہ فزکس میں پروفیسر شپ اور
چیئرمین شپ کی پیش کش کی گئی۔
جب بھارتی وزیراعظم جواہر لال نہرو کو اس پیش رفت کا علم ہوا تو اس نے
پروفیسر رفیع محمد چوہدری کو فوراً نیشنل فزکس لیبارٹری میں ڈپٹی ڈائریکٹر
شپ کی پیش کش کی۔ یہ لیبارٹری دنیا کی فزکس کی سب سے بڑی لیبارٹریوں میں سے
ایک ہے۔ انہیں دوسری ترغیبات بھی دی گئیں مگر پروفیسر رفیع محمد چوہدری نے
نہرو کی پیش کش کو ٹھکرا دیا اور اسے لکھا کہ ’’غیرمنقسم ہندوستان میں
سائنس کے میدان میں ہندو اساتذہ چھائے ہوئے تھے۔ وہ یونیورسٹی کی سطح پر
مسلمان طلباء کو سائنس اور ریاضی کی تعلیم حاصل کرنے پر ان کی حوصلہ شکنی
کرتے تھے۔ علاوہ ازیں تقسیم ہند کے بعد سائنس کے ہندو اساتذہ کے ہجرت کر
جانے کی وجہ سے پاکستان میں ایک خلاء سا پیدا ہو گیا ہے۔ اب ہماری پاکستان
کو ضرورت ہے۔‘‘
نوزائیدہ پاکستان اور اس کے باشندوں کی ضروریات کا احساس کرتے ہوئے پروفیسر
رفیع محمد چوہدری نے قائداعظم کی پیش کش قبول کر لی اور 1948ء میں ہی
پاکستان چلے آئے۔ پاکستان آتے ہی انہوں نے فوری طور پر گورنمنٹ کالج لاہور
میں فزکس کے ایم ایس سی کے کورس کا آغاز کر دیا جس کے آخری سال (فائنل
ایئر) میں تھیسز (Theses) بھی شامل کیا گیا اور اس طرح گورنمنٹ کالج لاہور
میں پوسٹ گریجویشن کی تعلیم کا آغاز ہو گیا۔ پروفیسر رفیع محمد چوہدری مسلم
یونیورسٹی علی گڑھ سے اپنے ساتھ ایک دو ساتھی بھی لے آئے جن میں سے ایک
پروفیسر طاہر حسین تھے جنہیں انہوں نے بعدازاں نیوکلیئر فزکس میں پی ایچ ڈی
کے لئے آکسفورڈ بھیجا۔ پروفیسر رفیع محمد چوہدری کی تقلید میں گورنمنٹ کالج
لاہور میں دوسرے سائنسی علوم کے کورسز کا بھی اجراء کیا گیا۔
پروفیسر رفیع محمد چوہدری اپنی ریٹائرمنٹ تک خود ایٹمی اور نیوکلیئر فزکس
پر لیکچر دیتے رہے۔ ان کا ہر لیکچر دو گھنٹوں پر مشتمل ہوتا تھا اور وہ
ہفتے میں تین مرتبہ لیکچر دیتے تھے جبکہ ان کے دوسرے ساتھ اساتذہ حرارت‘
تھرموڈائنامکس‘ بصریات‘ ریاضی اور الیکٹرونکس وغیرہ پر لیکچر دیتے تھے۔
1949-50ء میں گونمنٹ کالج لاہور کے فزکس میں ایم ایس سی کرنے والے بیچ
(Batch) نے کامیابی سے اپنا کورس مکمل کر لیا اور اسناد حاصل کیں۔
1948ء میں انہوں نے ایک ریسرچ اور ٹریننگ لیبارٹری کے قیام اور تعمیر کا
منصوبہ ترتیب وتشکیل دیا جس میں ایٹمی اور نیوکلیئر فزکس کے موضوعات پر
اعلیٰ تحقیقی کام کیا جا سکے اور جہاں جدید تحقیقی ماحول میں پوسٹ گریجویٹ
طلباء کو زیور تعلیم وتحقیق سے آراستہ کیا جا سکے۔
انہوں نے یہ منصوبہ حکومت پاکستان کو پیش کیا۔ اس منصوبے میں آلات کی
خریداری‘ لیبارٹری کی تعمیر اور تحقیقی اور غیرتحقیقی سٹاف کی تجاویز شامل
تھیں۔ خوش قسمتی سے حکومت نے بغیر کسی قدغن اور ہچکچاہٹ کے اس منصوبے کو
بلاتاخیر منظور کر لیا چنانچہ آلات کی خریداری کے آرڈرز دے دیئے گئے اور
1949-50ء میں لیبارٹری کی تعمیر شروع کر دی گئی۔ لیبارٹری کے لئے بنیادی
چیز 1.2 Mev Cockroft-Walton Generator تھا جس کے لئے 50 فٹ بلند خالص
کنکریٹ سے بنی ہوئی دیواروں والی عمارت درکار تھی جو کہ موسم گرما میں
زیادہ سے زیادہ گرمی برداشت کر سکے۔ اس کو ٹھنڈا رکھنے کے لئے خاص انتظامات
کی ضرورت تھی۔ پروفیسر رفیع محمد چوہدری نے اس لیبارٹری کا بذات خود سنگ
بنیاد رکھا اور بعدازاں تعمیراتی کام کو میعار کے مطابق یقینی بھی بنایا ۔
نمونہ جات کو باقاعدگی سے ٹیسٹ کیا جاتا تھا اور یہی بات ٹھیکیدار کی
ناراضگی کا باعث بنی کیونکہ یہ بات ٹھیکے دار کو مکمل طور پر صرف رقم بنانے
میں مزاحم ثابت ہوئی۔ چنانچہ کئی مرتبہ پروفیسر رفیع محمد چوہدری کو نقصان
پہنچانے کی کوشش کی گئی مگر وہ مرعوب نہ ہوئے اور یوں پچاس کے اوائل میں
لیبارٹری کی تعمیر مکمل ہو گئی۔
جلد ہی آلات کی تنصیب عمل میں لائی گئی اور متعدد تجربات کا آغاز بھی کر
دیا گیا۔ لیبارٹری میں تحقیقی ماحول کی بدولت ایم ایس سی فزکس کے فائنل
ایئر کے طلبہ اپنے تھیسز کے لئے آزادانہ کام کرتے جو تجربات کئے گئے ان میں
سے کچھ قابل ذکر یہ ہیں:
1- High energy proton impact phenomena.
2- Cosmic rays.
3- Determination of half lives of artificially activated elements such
as silver.
4- Development of radio frequency ion sources.
5- Geiger-muller counters.
6- Neutron and X-rays scattering experiments.
7- Gaseous discharges.
8- Mercury discharges.
9- X-particles.
10- The photo electric effect.
1954-55ء میں پروفیسر رفیع محمد چوہدری اور ان کے ساتھیوں نے تجربات کے
دوران ایک نئی چیز دریافت کی۔ سلور دھات کے نمونے پر کام کرتے ہوئے انہوں
نے دھاتی سطح سے سپیکٹرم کے مسلسل اخراج کو دریافت کیا حالانکہ اس سے پہلے
یہ یقین کیا جاتا تھا کہ یہ سپیکٹرم ایک پٹی کی صورت میں ہوتا ہے اور جب
پروفیسر چوہدری نے ’’فزیکل ریویو‘‘ کو اس تجربے کا مسودہ بھیجا تو ججوں نے
اس کو قبول کرنے سے پہلے متعدد سوالات پوچھے۔ یہ مقالہ 1956ء میں اشاعت
پذیر ہوا۔ اس دریافت پر دنیا بھر کے تجرباتی اور نظریاتی ماہرین طبیعات نے
بہت زیادہ دلچسپی کا مظاہرہ کیا اور تجرباتی طریقوں اور حالات
(Experimental Methods and condition) پر بہت زیادہ انکوائری کی گئی۔
اس دریافت کی اشاعت کے بعد خاص طور پر ہائی ٹینشن لیبارٹری بہت تیزی سے بین
الاقوامی سطح پر جانی پہچانی جانے لگی۔ یہاں تک کہ جب غیرملکی سائنس دان
پاکستان کے دورے پر آتے تو اس لیبارٹری کو دیکھنے کی خواہش کرتے یا پھر
حکومت یا برٹش کونسل یا یو ایس انفارمیشن سروسز انہیں اس لیبارٹری کو
دیکھنے کا مشورہ دیتے۔ یہ بات گورنمنٹ کالج لاہور اور ہائی ٹینشن لیبارٹری
کے لئے بڑی قابل فخر تھی۔ 1958ء میں پرنس فلپ نے اس لیبارٹری کا دورہ کیا
اور بیس سے زیادہ تجربات کا مشاہدہ کیا۔ وہ اس لیبارٹری اور پروفیسر رفیع
محمد چوہدری سے بہت متاثر ہوئے اور مہمانوں کی کتاب میں شاندار خراج عقیدت
پیش کیا۔ اسی طرح لارڈ بلیک کٹ‘ اولیفانٹ‘ ایلی بون‘ سیگرے‘ مارشک اور
لیٹرنٹ جیسے نامور سائنس دانوں نے اس لیبارٹری کو دیکھا۔ دورے کے اختتام پر
یہ جملہ ضرور سنائی دیتا کہ ’’یہ دیکھ کر خوشی ہوتی ہے کہ یہاں کیونڈش کی
طرح کا ماحول ہے۔‘‘ یہ بات پروفیسر رفیع محمد چوہدری‘ ان کے ساتھی اساتذہ
اور طلباء کے لئے اطمینان کا باعث تھی۔
ہائی ٹینشن لیبارٹری کی تربیت نے طلباء کو ان کے کیریئر میں بہت زیادہ
فائدہ پہنچایا۔ اس لیبارٹری سے تربیت حاصل کرنے والے متعدد طلباء پاکستان
اور بیرون ملک اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں۔ اس حساب سے ہائی ٹینشن لیبارٹری نے
اپنا کردار صحیح طور پر نبھایا ہے۔
1965ء میں پروفیسر رفیع محمد چوہدری ریٹائر ہو گئے۔ فزکس ڈیپارٹمنٹ کے
سربراہ نے لیبارٹری کا چارج بھی سنبھال لیا اور لیبارٹری کا نام تبدیل کر
کے نیوکلیئر ریسرچ لیبارٹری رکھ دیا۔ بعض ناعاقبت اندیش سائنس دانوں نے اس
لیبارٹری کو بند کرانے کی بھی کوشش کی۔ ریٹائرمنٹ کے بعد پروفیسر چوہدری پر
اس لیبارٹری کے دروازے بند کر دیئے گئے تاہم وہ مایوس نہیں ہوئے۔
1970ء کے اوائل میں انہوں نے پنجاب یونیورسٹی کے سنٹر فار سالڈ سٹیٹ فزکس
میں گوشہ عافیت تلاش کر لیا جہاں انہوں نے پلازمہ فزکس کی نئی ریسرچ
لیبارٹری قائم کی۔ اس لیبارٹری میں انہوں نے یونیورسٹی کے متعدد طلباء کو
ایم ایس سی اور ایم فل کے لئے تربیت دی۔ اس کام سے متعلق بڑی تعداد میں
مقالات بھی تحریر اور شائع کرائے گئے۔
پروفیسر رفیع محمد چوہدری کی پنجاب یونیورسٹی سے شروع سے ہی وابستگی رہی۔
وہ 1960ء سے 1977ء تک پنجاب یونیورسٹی میں اعزازی پروفیسر کے طور پر خدمات
انجام دیتے رہے۔
1977ء میں پنجاب یونیورسٹی نے انہیں تاحیات پروفیسر آف ایمریطس مقرر کیا۔ 4
دسمبر 1988ء کو ایک مختصر علالت کے بعد ڈاکٹر رفیع محمد چوہدری اس دارفانی
سے کوچ کر گئے مگر علم وعمل کی جو شمع وہ روشن کر گئے وہ رہتی دنیا تک
روشنی پھیلاتی رہے گی۔
ڈاکٹر رفیع محمد چوہدری کو ان کی شاندار سائنسی خدمات کی وجہ سے متعدد ملکی
اور بین الاقوامی اداروں اور تنظیموں نے رکنیت‘ فیلوشپ یا چیئرمین شپ دی۔
چند ایک قابل ذکر ہیں:
1- فیلو آف انسٹی ٹیوٹ آف فزکس (برطانیہ)
2- 1974ء سے فیلو آف پاکستان اکیڈمی آف سائنسز۔
3- ڈبلیو پی ای ایس آئی (سینئر) ریٹائرڈ۔
4- سینئر پروفیسر آف فزکس اور صدر شعبہ فزکس‘ سابق وائس پرنسپل اور ہائی
ٹینشن اینڈ نیوکلیئر ریسرچ لیبارٹری گورنمنٹ کالج لاہور کے بانی ڈائریکٹر
(ان عہدوں پر وہ 1948ء سے 1965ء تک فائز رہے)
5- 1960-77ء کے دوران پنجاب یونیورسٹی لاہور میں فزکس کے اعزازی پروفیسر۔
6- 1938ء سے 1948ء تک چیئرمین اور پروفیسر آف فزکس مسلم یونیورسٹی علی گڑھ
(بھارت)
7- 1977ء سے تاحیات پنجاب یونیورسٹی لاہور کے پروفیسر آف ایمریطس۔
8- 1946-47ء کے دوران برمنگھم یونیورسٹی میں لارڈ نو فیلڈ ریسرچ فیلو۔
9- 1933-35ء کے دوران کیمبرج یونیورسٹی میں فلاسفیکل سوسائٹی کے فیلو۔
10- 1948ء سے یورپین فزیکل سوسائٹی کے فیلو۔
11- چار پانچ سال کے لئے یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کی سینڈیکٹ
کے رکن۔
12- 1977ء سے تاحیات پنجاب یونیورسٹی لاہور کی سینٹ کے رکن۔
13- 1948ء سے تاحیات پنجاب یونیورسٹی لاہور کی اکیڈمک کونسل کے رکن۔
14- 1948ء سے 1977ء تک بورڈ آف سٹڈی ان فزکس کے رکن۔
15- 1929ء سے 1933ء کے دوران مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے ریسرچ سکالر کی
حیثیت سے کیمبرج یونیورسٹی برطانیہ کی کیونڈش لیبارٹری میں پروفیسر لارڈ
ردر فورڈ کے تحت تحقیقی کام کیا۔
16- 1933ء سے 1938ء تک اسلامیہ کالج لاہور میں پروفیسر آف فزکس اور صدر
شعبہ سائنس۔
17- 1948ء سے 1958ء تک گورنمنٹ کالج لاہور میں فزکس کے پروفیسر اور صدر
شعبہ فزکس۔
18- تین چار سال کے لئے یونیورسٹی آف پنجاب لاہور کی سینڈیکٹ کے رکن۔
19- 1948ء سے 1965ء تک گورنمنٹ کالج لاہور کی ہائی ٹینشن اور نیوکلیئر
ریسرچ لیبارٹری کے بانی ڈائریکٹر۔
20- 1961ء سے 1977ء تک پنجاب یونیورسٹی لاہور میں فزکس کے اعزازی پروفیسر۔
21- پنجاب یونیورسٹی لاہور کے شعبہ تعلیم وتحقیق کے ادارے کے بورڈ آف گورنر
کے تین چار سال تک رکن۔
22- 1948ء میں انہیں ڈھاکہ یونیورسٹی کی طرف سے فزکس کے پروفیسر اور
چیئرمین شپ کی پیش کش کی گئی۔
23- 1945ء میں انہیں دی آسٹریلین نیشنل یونیورسٹی کینبرا آسٹریلیا نے ریسرچ
پوزیشن کی پیشکش کی۔
پروفیسر ڈاکٹر رفیع محمد چوہدری نے 1952ء میں آسٹریلیا کے دارالحکومت
کینبرا میں منعقد ہونے والی بین الاقوامی کامن ویلتھ کانفرنس میں پاکستان
کی نمائندگی کی۔ اس طرح انہوں نے 1955ء میں سوئٹزرلینڈ کے شہر جنیوا میں
’’ایٹمی توانائی کے پرامن استعمالات‘‘ کے موضوع پر ہونے والی پہلی بین
الاقوامی کانفرنس میں بھی پاکستان کی نمائندگی کی۔
1971ء میں انہوں نے لارڈ ردر فورڈ کی سوویں سالگرہ کی تقریبات میں شرکت کی۔
ڈاکٹر پروفیسر رفیع محمد چوہدری کو 1964ء میں سائنس اور سائنس کی اعلیٰ
تعلیم کے لئے شاندار خدمات سرانجام دینے پر ’’ستارہ خدمت‘‘ کا قومی ایوارڈ
دیا گیا۔
23 مارچ 1982ء کو یوم پاکستان کے موقع پر صدر پاکستان نے ان کی درج ذیل
خدمات پر انہیں ’’ستارہ امتیاز‘‘ کے اعزاز سے نوازا۔
1- وہ دھاتوں سے Ion Induced فوٹان کے اخراج کے دریافت کنندہ ہیں۔ ان کی اس
دریافت کو پوری دنیا میں سراہا گیا کیونکہ فزکس میں یہ ایک نئی دریافت تھی۔
ان کے اس کام کو 1975ء میں ’’رپورٹس آن پروگریس ان فزکس‘‘ کی جلد 38 میں
شائع کیا گیا۔
2- وہ اس پوری سکیم کے مصنف ہیں جو انہوں نے 1967ء میں پنجاب یونیورسٹی کے
وائس چانسلر کی دعوت پر یونیورسٹی میں تجرباتی تحقیق‘ سالڈ ٹیسٹ فزکس
پلازمہ فزکس‘ آئنی فزکس اور لوانرجی نیوکلیئر فزکس (Low Energy Nuclear
Physics) کی لیبارٹریز کے قیام کے سلسلے میں تیار کی۔
پروفیسر ڈاکٹر رفیع محمد چوہدری نے 1932ء سے 1988ء کے دوران 53 اعلیٰ پائے
کے تحقیقی مقالات تحریر کئے جو مختلف بین الاقوامی جرائد کی زینت بنے۔
پروفیسر رفیع محمد چوہدری کے نامور شاگردوں میں ڈاکٹر اشفاق احمد (پاکستان
اٹامک انرجی کمیشن کے چیئرمین) ڈاکٹر طاہر حسین (پروفیسر گورنمنٹ کالج
لاہور‘ وائس پرنسپل آزاد کشمیر یونیورسٹی اور ممتاز ایٹمی سائنس دان) اور
ڈاکٹر این اے بٹ شامل ہیں۔
پاکستان میں ایٹمی پروگرام کے حوالے سے ڈاکٹر عبدالقدیر خان‘ ڈاکٹر ثمر
مبارک مند‘ ڈاکٹر اشفاق احمد‘ ڈاکٹر منیر احمد خان اور ڈاکٹر آئی ایچ
عثمانی کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر پروفیسر رفیع محمد چوہدری کی خدمات کو فراموش
نہیں کیا جانا چاہئے۔
******************************
|