دنیا میں اسلام کو مکمل طو رپر نافذ ہوئے1450 سال گذررہے
ہیں،اس سے پہلے بھی اسلام تھا اور الگ الگ پیغمبروں ورسولوں نے اسلام کی
تعلیمات دی تھیں۔ہر نبی اور رسول نے اللہ کے ایک ہونے کا پیغام دیاتھااور
دعوت وتبلیغ کے طریقے بتلائے تھے۔آپﷺنے اُمت مسلمہ کو اللہ کی طرف راغب
کیا اور اپنی زندگی کو اللہ اور اس کے رسولﷺکے احکامات کے مطابق گذارنے کی
تعلیمات دی اور یہ تعلیمات تاقیامت تک قائم رہنے والی تعلیمات ہیں،لیکن ان
تعلیمات میں بہتری اور طریقہ کار حالات اور وقت کے تقاضے کے مطابق بدلتے
رہے۔مثلاً دعوت وتبلیغ کیلئے ایک جگہ سے دوسری جگہ ہجرت کی جاتی تھی ،جبکہ
اب اس کیلئے بے انتہاء وسائل دریافت ہوچکے ہیں۔ہم اس مضمون میں کل اور آج
کے تعلق سے فرق واضح کرنے کے بجائے موجودہ وقت کی ترجیحات پر انگلی رکھنے
کی کوشش کرینگے جس کی اُمت مسلمہ کو بے حد ضرورت ہے۔مسلمانوں کیلئے آج سب
سے بڑا ہتھیار تعلیم ہے،تعلیم ہے،تعلیم ہے۔کیونکہ تعلیم کے بغیر ان کا وجود
اس قدر تاریک ہوتاجارہاہے کہ وہ صحیح اور غلط کی شناخت بھی نہیں کرپارہے
ہیں۔آج بھی مسلمان صرف مخصوص معاملات کو ہی دُنیا وآخرت کی کامیابی
وکامرانی کا خزانہ تسلیم کرتے ہیں،آج بھی مسلمانوں کے نزدیک فضائل و دلائل
کی بنیادوں پر ہی بات ہورہی ہے،آج بھی عام مسلمان چند مکروہات و ضروریات
پر بحث ومباحثے کررہے ہیں،جبکہ اسلام کو آئے ہوئے1450 سال گذر چکے ہیں اور
ان1450 سالوں میں مختلف ادوارمیں علماء،فقہا و اکابرین نے اسلام کی صاف صاف
تشریح کردی ہے ،پھر بھی مسلمان حالات کے تقاضوں کو نزدیکی سے دیکھنے کیلئے
تیارنہیں ہیں۔مختلف مسلکوں اور گروہوں میں مسلمانوں کی عمومی ترقی کو اہمیت
دینے کے بجائے اب بھی ریسرچ کے نام پر وسائل کو محدود کئے جارہے ہیں۔نوجوان
نسلیں بے راہ روی کا شکارہورہی ہیں،نوجوانوں میں جینے کامقصد ناپید
ہوتاجارہاہے،جن نسلوں کو ہمارا مستقبل ماناجاتاہے اُن نسلوں کی رہنمائی محض
اختلافات کو بڑھاوادینے کیلئے کیاجارہاہے،مسلمان کسی دورمیں حکومتوں پر راج
کرتے تھے،آج اُن نوجوانوں کو حکومتوں کے تلے کچلاجارہاہے،لیکن ہمارے یہاں
کچھ بھی اور کسی بھی طرح کا لائحہ عمل نہیں ہے۔مٹھوں ومشنریوں میں الگ الگ
قومیں ان کے نوجوانوں کی رہنمائی کررہے ہیں اور اُنہیں مستقبل کی لیڈرشپ
کیلئے تیارکیاجارہاہے،ہمارے یہاں کیا نظام ہے خودہی دیکھیں؟۔زندگی ختم ہونے
کو ہے،مگر پارٹی کا عہدہ چھوڑنے کیلئے تیارنہیں،بیٹھ کر نمازیں پڑھی جارہی
ہیں لیکن مسجدکی صدارت چھوڑنے کوتیارنہیں،محلے کے معاملات کو لیکر گھر کی
دہلیز پر جاکر معاملات حل کروانا پڑرہاہے،لیکن تنظیموں کی ذمہ داری چھوڑنے
کو تیارنہیں۔بیشتر ہمارے قائدین و لیڈران آج بھی میڈیا،سوشیل میڈیا
اورحالاتِ حاضرہ کی باریکیوں سے ناواقف ہیں،مگراب بھی وہ اپنی جگہ دوسروں
کو چھوڑکر دینےکیلئے تیارنہیں یا کم ازکم ان باریکیوں کو سمجھنے کیلئے
تیاری نہیں کررہے ہیں۔مسجدوں میں پانچ وقت کی نمازوں میں دوصف پوری نہیں
ہورہی ہیںمگر رمضان کے مدِ نظر مسجدکے اوپر ثانی مسجد پھر اُ سکے اوپر
بالائی مسجدکی تعمیر ہورہی ہے۔قوم کا سرمایہ اللہ کے گھروں پر لگایاجارہاہے
لیکن اسی اللہ کے گھروں میں کتنے اللہ کے بندے ہوتے ہیں اس کا بھی اندازہ
لگانے کی ضرورت ہے۔مسجدوں کو پرائیویٹ لمیٹیڈ بنالیاگیاہے،مخصوص مسلک ومکتب
فکرکے لوگوں کیلئے مسجدیں بنائی جارہی ہیں، جس گھر کو اللہ کا گھر
کہاجاتاہے اُسی گھر کو اب مسلکوں کے نام سے جوڑاگیاہے اور ایک دوسرے کے
مسلک کے لوگوں کے آنے جانے کو کراہت قرار دیاجارہاہے۔غیر مسلموں کومسجد
میں آنے کی دعوت دئیے جانے پر ایک غیر مسلم نے سوشیل میڈیاپر طنز کرتے
ہوئے کہاکہ ان کی ہی مسجدوں میں ایک دوسرے کے فرقوں کو آنے سے روکا جارہا
ہے،بھلاکیسے وہ غیر مسلموں کو بلاکردین کی دعوت دی جارہی ہے۔اسی لئے ہم کہہ
رہے ہیں وقت کی ترجیحات کی درجہ بندی کی جائے،کیا صحیح ہے ،کیا غیر ضروری
ہے اورکیاغلط ہے، کیا ضروری ہے،اس کاجائزہ لیاجائے۔فی الوقت اس پر کام کرنے
کی ضرورت ہے۔جب ان ضرورتوںپر کام ہونے لگے گا تو قوم میں خودبخود بیداری
آنے لگے گی۔
|