ارشادِ ربانی ہے:’’ آپ لوگوں کو اس دن سے ڈرائیں جب ان پر
عذاب آپہنچے گا ‘‘۔قیامت کی منظر کشی سے قبل نبی ٔ کریم ﷺ کے توسط سے ملت
اسلامیہ کو اس کا فرضِ منصبی یاد دلایا گیا ہے کہ منکرین آخرت کو عذابِ
الیم سے خبردار کیا جائے کیونکہ رزمِ حق و باطل میں اتمام حجت کی ذمہ داری
امت مسلمہ کی ہے۔ اب وہ منظر دیکھیں :’’ تو وہ لوگ جو ظلم کرتے رہے ہوں گے
کہیں گے: اے ہمارے رب! ہمیں تھوڑی دیر کے لئے مہلت دے دے کہ ہم تیری دعوت
کو قبول کر لیں اور رسولوں کی پیروی کر لیں۔“ بروزِ قیامت ظالموں کی اس
درخواست کے اندر یہ اعتراف موجود ہے کہ دنیا میں جب مہلت عمل تھی تو انہوں
دعوتِ الی اللہ پر لبیک کہنے سے انکار کردیا تھا، اسی لیے مزید مہلت کے طلب
کی ضرورت پیش آئی ۔ قبول حق کے بعد رسولوں کی پیروی کا وعدہ اس بات کا
اقرار ہے کہ انہیں معلوم تھا کس کی اتباع کرنی چاہیے تھی مگر اس کی بھی
روگردانی کی گئی ۔وقت نکل جانے کے بعد کی جانے والی استدعا کا صاف جواب یہ
دیا جائے گاکہ:’’ کیا تم وہی لوگ نہیں ہو جو اِس سے پہلے قسمیں کھا کھا کر
کہتے تھے کہ ہم پر تو کبھی زوال آنا ہی نہیں ہے؟ ‘‘۔سوال بتاتا ہے کہ یہ
ظالم دنیا میں بامِ عروج پر تھے اور سربلندی ایسی کہ جس کے زوال کا تصور
بھی محال تھا۔
آگے فرمانِ ربانی ہے:’’ حالانکہ تم اُن قوموں کی بستیوں میں رہ بس چکے تھے
جنہوں نے اپنے اُوپر آپ ظلم کیا تھا اور دیکھ چکے تھے کہ ہم نے اُن سے کیا
سلوک کیا ‘‘۔ یعنی پہلے جو لوگ صاحبِ اقتدار تھے ان کے محلات میں تو تم نے
قیام کیا لیکن ان کے انجام پر غورکرنے سے باز رہے ۔ آگے یہ بھی فرمایا
کہ:’’اور اُن کی مثالیں دے دے کر ہم تمہیں سمجھا بھی چکے تھے۔ اُنہوں نے
اپنی ساری ہی چالیں چل دیکھیں، مگر اُن کی ہر چال کا توڑ اللہ کے پاس تھا
‘‘۔ یعنی اپنے اقتدار کو قائم و دائم رکھنے کی خاطر ان لوگوں نے ہر ممکن
حربہ استعمال کیا مگر وہ کارگر ثابت نہیں ہوا ۔ آیت کے آخری حصے میں
ظالموں کی فریب کاریوں پر یہ تبصرہ کیا گیا ہے کہ:’’اگرچہ اُن کی چالیں
ایسی غضب کی تھیں کہ پہاڑ اُن سے ٹل جائیں‘‘۔ انسانی تاریخ ایسی چالوں کی
تفصیل سے بھری پڑی ہے جن کو مشیت الٰہی نے نیست و نابود کردیا۔ کسان تحریک
کے خلاف موجودہ حکومت کی چال بازیاں ہمارے سامنے ہیں۔
وباء کے دوران قانون سازی تا کہ احتجاج نہ ہو ۔ پنجاب کے مظاہروں کو نظر
انداز کرنا۔ دہلی آنے سے ہریانہ میں روکنا۔ برُادی پارک میں محصور کرنےکی
کوشش ۔ خالصتانی اور نکسلی کہہ کر بدنام کرنا۔ لالچ اور خوف سے انتشار کی
سازش ۔ لال قلعہ پر اپنے لوگوں کے ذریعہ پرچم لہرا کر گھیرا بندی ۔ ٹول کٹ
کا ہواّ کھڑا کرکے بین الاقوامی سازش کا حصہ قرار دینا۔’آندولن جیوی‘ کہہ
کر تمسخر اڑانا۔ گفتگو بند کرکے تھکانے کی سعی ، گاڑی چڑھا دینا ، ایسی
مکارانہ تدابیر کہ جن سے پہاڑ اکھڑ جائیں لیکن اللہ تعالیٰ نے ان سب کو
ناکام کردیا۔ حقیقت یہی ہے کہ کسان رہنماوں کے وہم و گمان میں بھی یہ بات
نہیں تھی کہ دفعتاً کالا قانون واپس ہوجائے گا ۔ وہ دباو بنانے کی خاطر ملک
بھر میں جو مہا پنچایت کررہے تھے وہ اچانک جشن فتح میں بدل گیا۔ اللہ تبارک
و تعالیٰ نے ایسے حالات بنا دئیے کہ حکومتِ وقت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور
ہونا پڑا۔ اس سلسلے کی آخری آیت یہ ہے کہ:’’سو اللہ کو ہرگز اپنے رسولوں
سے وعدہ خلافی کرنے والا نہ سمجھنا! بیشک اللہ غالب، بدلہ لینے والا
ہے‘‘۔اُخروی عذاب سے قبل دنیا میں بھی ظالموں کی گرفت ہوتی ہے۔ رسول اکرم ﷺ
نے فرمایا’’اللہ تعالیٰ ظالم کو ڈھیل دیتا رہتا ہے اور جب اس کی پکڑ فرما
لیتا ہے تو پھر اسے مہلت نہیں دیتا‘‘۔اس کے بعد آپؐ یہ آیت تلاوت
فرمائی:’’اور تیرا رب جب کسی ظالم بستی کو پکڑتا ہے تو پھر اس کی پکڑ ایسی
ہی ہوا کرتی ہے، فی الواقع اس کی پکڑ بڑی سخت اور درد ناک ہوتی ہے‘‘۔
|