ایک صدی تک انگریزوں کی غلامی میں رہنے کے بعد آزاد ہو
کر بھی ہم سفید چمڑی سے اس حد تک ذہنی طور سے مرعوب ہیں کہ ہر سفید فام کو
خواہ اس کا تعلق کسی بھی ملک سے ہو انگریز سمجھ کر اس کی تعظیم و تکریم فرض
سمجھتے ہیں۔ ہیلمٹ شمٹ اور ہیلمٹ کوہل جو منقسم جرمنی کے 1970-80ء کے دوران
حکمران تھے، ہمارے حکمرانوں نے محض سفید چمڑی کے باعث انہیں جو مقام دیا وہ
ہماری چاکلیٹی رنگت کی حامل ملکی شخصیات میں سے بہت کم لوگوں کے حصے
میںآیا۔ ان کی اقتدار سے علیحدگی، دیوار برلن کے انہدام اور مغربی و مشرقی
جرمنی کے انضمام کے بعد جرمنوں نے تو شاید انہیں فراموش کردیا ہو لیکن
ہمارے حکمران ان کی یادیں آج تک دل میں بسائے ہوئے ہیں اور شاید انہی کے
نام کی مناسبت سے 1980ء کے عشرے میں موٹر سائیکل سواروں کیلئے سر پر چھجّے
دارکنٹوپ کو ہیلمٹ کا نام دے کر اسے پہننے کی پابندی عائد کردی گئی اور اس
حکومتی اقدام سے اس زمانے میں ایک ہیلمٹ ساز ادارے نے اپنے فرانسیسی نام کا
فائدہ اٹھا کر بے پناہ مالی منافع حاصل کیا جبکہ کک بیک اورکمیشن دوسروں کے
حصے میں آیا۔ جب اس کمپنی کا بنک اکاؤنٹ اوور فلو ہوگیا اور ملک میں کوئی
ہیلمٹ خریدنے والا باقی نہ رہا تو یہ پابندی بھی ختم ہوگئی۔ اس کے بعد
مختلف تہواروں کی آمد سے چند روز قبل ٹریفک پولیس کی جانب سے سوموٹو ایکشن
لے کر ہیلمٹ پہناؤ مہم چلائی جاتی اور تہوارکے اختتام کے چند روز بعد یہ
مہم از خود ختم ہوجاتی کیونکہ اس مہم کے ثمرات سے ٹریفک پولیس کے نچلی سطح
کے افسران و اہلکار ہی مستفید ہوپاتے جبکہ اعلی افسران اس کی مالی منفعت سے
محروم رہتے تھے۔
ہم نے بھی ٹریفک پولیس کی مہم جوئی سے گھبرا کر ’’ہیلمٹ پہنو مہم‘‘ کے
دوسرے دور میں ایک مرتبہ ہیلمٹ خریدا تھا جسے پہننے کی نوبت شاذو نادر ہی
آتی تھی کیونکہ مُہروں کی تکلیف کی وجہ سے ہماری گردن ہیلمٹ کا کئی کلو
وزنی بوجھ برداشت کرنے سے قاصر رہتی تھی۔ ٹریفک پولیس کے اہلکاروں کی
بازپُرس کے جواب میں ہم معذرت خواہانہ انداز میں اس بیماری کو بطور جواز
پیش کرتے اور بہت زیادہ سرزنش کے بعد ہم ہیلمٹ سر پر رکھنے کیلئے مجبور
ہوجاتے اور ہیجانی کیفیت میں بائیک چلاتے ۔ انہی کیفیات کے نتیجے میں ایک
مرتبہ ٹریفک حادثے سے دوچار ہوگئے اور ہمارا مذکورہ ہیلمٹ اس حادثے میں
شکست و ریخت کا شکار ہوگیا۔ اس حادثے کے چند روز بعد ٹریفک پولیس کا ہیلمٹ
پہنانے کا جوش و خروش ختم ہوگیا اور ہم نے بھی دوبارہ اسے خریدنے کی ضرورت
محسوس نہیں کی۔
دیکھا گیا ہے پولیس حکام کی جانب سے سوموٹو ایکشن لیتے ہوئے مالی فوائد کے
حصول کے لئے اس قسم کی مہمات کا آغاز از خود کیا جاتا ہے اور ان مہمات کو
قانونی شکل میں دکھانے کیلئے قانونی نکات اور دفعات وضع کی جاتی ہیںجبکہ
جرمانے کی رقومات میں بھی وقتاً فوقتاً ردّوبدل کیا جاتاہے۔ ہیلمٹ پہنانے
کی موجودہ مہم کا آغاز بھی ٹریفک پولیس کے ایک اعلی افسر کی ایماء پر صرف
کراچی کی حد تک نومبر 2007ء میں عیدقربان سے کچھ روز پہلے ہوا تھا اور ہم
سمیت بیشتر موٹرسائیکل سواروں نے یہ سوچ کر اس مہم کو درخور اعتنا نہ سمجھا
کہ ٹریفک حکام اور اہلکاروں کی طرف سے قربانی کے فریضے کی ادائیگی کے بعد
موجودہ مہم بھی گزشتہ مہمات کی طرح اگلی عید یا بقر عید پر چلی جائے گی
لیکن اب لگتا ہے کہ ٹریفک پولیس کےحکام نے بھی مہنگائی کے عفریت سے خود کو
اور اپنے اہل خانہ کو بچانے کیلئے اس کا رخ غریب موٹر سائیکل سواروں کی طرف
موڑ دیا ہے اوریہ روز اوّل کی طرح آج بھی پوری شدت سے جاری و ساری ہے جبکہ
مہنگائی میں اضافے کے ساتھ ساتھ چالان فیس کی رقم میں بھی ازخوداضافہ ہوتا
جارہا ہے اور یہ بھی 50روپے سے بڑھا کر 200روپے کردی گئی ہے۔
مصروف شاہراہوں کے عین وسط میںیا پوری شاہراہ گھیرکر بسوں، منی بسوں، کوچز
کا سواریاں اتارنا،چڑھانا، جان لیوا انداز میں تیزرفتار ڈرائیونگ،
اوورٹیکنگ، ٹریفک سگنلز کی خلاف ورزی اور ہیلمٹ بردار بائیک رائیڈرز کی تین
چار افراد بٹھا کر خوفناک انداز میں شہ سواری ناقابل دست اندازی پولیس ہوتا
ہے جبکہ بغیر ہیلمٹ کے بائیک چلانے والوں کی گھات میں شہر کی ہر شاہراہ،
سڑک، پل، چوراہے، گلیوں سے مین روڈ کی طرف آنے والے راستوں پر ٹریفک پولیس
افسران پورے لاؤ لشکر کے ساتھ مصروف کار ملیں گے اور جہاں بغیر ہیلمٹ کے
موٹر سائیکل سوار نظر آیا ٹریفک اہلکار مجاہدانہ انداز میں اچانک بیچ سڑک
کے سامنے آکر اسے روکنے کی کوشش کرتا ہے اور ہیلمٹ پہننے کے فوائد اور نہ
پہننے کے نقائص اور قانونی نکات و دفعات جو چالان بک میں چھپی ہوتی ہیں
دکھا کر اسے 200روپے کا ٹوکن تھما دیا جاتا ہے۔ ان حالات میں ہیلمٹ بنانے
والی فیکٹریوں نے بھی اپنے ہیلمٹ کی قیمت میں دو سو سے ڈھائی سو فیصد اضافہ
کردیا ہے جبکہ دلچسپ امر یہ ہے کہ ہر مصروف شاہراہ پر ٹریفک پولیس کے ناکے
کے ساتھ ہی ہیلمٹ فروشوں کے دو تین ٹھیلے بھی مو جود ہوتے ہیں جو پولیس کے
ستائے لوگوں کو کمپنی کی طرف سے متعین کردہ قیمتوں میں اپنا منافع، پولیس
کمیشن و کک بیک شامل کرکے انتہائی مہنگے داموں فروخت کرتے ہیں۔
ایک مرتبہ ہیلمٹ کے حادثاتی طور پر ٹوٹنے کے بعد دوبارہ اسے خریدنے کی ہمت
نہ ہوئی۔ ٹریفک پولیس والوں کے روکنے کی صورت میں ہم انہیں اپنی مجبوریوںکا
احوال انتہائی دردناک انداز میں بتانے کی کوشش کرتے جبکہ جواب میں وہ ہمیں
ہیلمٹ نہ پہننے کے مضمرات، حادثے کی صورت میں دماغی چوٹ اور اس کے نتیجے
میں موت کے ہیبت ناک خدشات اور زمینی حقائق گوش گزار کرکے اس تمام دن بغیر
ہیلمٹ، بائیک چلاتے ہوئے ارضی آفات و بلیات سے محفوظ رہنے کیلئے 200روپے
کے عوض سبزرنگ کا تعویز چالان بک میں سے پھاڑ کر تھمادیتے اورہم پر سے
نحوست کے سائے دور رکھنے کیلئے 200روپے کا صدقہ بینک میں جمع کرائے جانے تک
گاڑی کی رجسٹریشن بک اپنی تحویل میں رکھتے۔اس قسم کے تعویزکئی مرتبہ وصول
کرنے کے بعد ہم نے مزید نقصان سے بچنے کیلئے پوری تندہی کے ساتھ ہیلمٹ
خریدنے کیلئے رقم پس انداز کرنا شروع کردی۔ جب مطلوبہ رقم اکٹھا ہوگئی تو
ہیلمٹ خریدنے کیلئے مختلف ٹھیلوں اور دکانوں پر گئے لیکن ہیلمٹ کی قیمت کو
اپنی پس انداز کی ہوئی رقم سے کہیں زیادہ پایا۔
کہتے ہیں ضرورت ایجاد کی ماں ہوتی ہے، ہم نے بھی گھریلو ساختہ ہیلمٹ ایجاد
کرنے کی ٹھانی۔دوران سفر ہم اکثر یہ محسوس کرتے تھے کہ مختلف انجینئرنگ
کمپنیوں کے ملازمین اپنی کمپنی کے پتیلی نما پلاسٹک کے ہیلمٹ پہن کر بائیک
چلاتے ہیں اور پولیس اہلکار بھی ان سے کوئی باز پرس نہیں کرتے۔ انتہائی
غوروخوض کے بعد ہم نے ایک انجینئرنگ کمپنی میں ملازم اپنے ایک دوست سے ایک
دن کیلئے اس کا ہیلمٹ مستعار لیا اور تمام دن اپنے کچن میں استعمال ہونے
والی پتیلی سے اس کا موازنہ کرتے رہے اس کے بعد اسپرے پینٹ سے اسپرے کرکے
پتیلی کو ہیلمٹ کی طرح رنگین بنایا اور اس میں اسی کی طرح چپکے ہوئے فوم کے
ٹکڑوں کی مانند گدے اور رضائی میں سے پولیسٹر اور روئی کے ٹکڑے کاٹ کرپتیلی
کی اندرونی سائیڈوں میں چپکا دئیے۔ خوش قسمتی سے ہماری نیک بخت اپنے مائیکہ
گئی ہوئی تھیں ورنہ ہیلمٹ سازی میں ہمیں بدبختی کا سامنا ہوسکتا تھا۔ دوسرے
روز انتہائی طمطراق سے اپنا ایجاد کردہ ہیلمٹ آہنی خود کی طرح سر پر جما
کر اپنی خودی کو بلند سے بلند تر کرتے ہوئے دفتر کی جانب رواں دواں ہوئے۔
ایک دن قبل تک ہیلمٹ کی عدم موجودگی کی بناء پر ہم وہ سڑکیں اور گلیاں تلاش
کرتے تھے جو پولیس فری زون ہوں لیکن ٹریفک پولیس نے اپنی مہم جوئی سے ہمارے
لئے ہر گلی کوچے کو نوگو ایریا بنادیا تھا اورہر جگہ سفید پوش اہلکاروں کو
اپنے استقبال کیلئے مستعد پاتے تھے۔ مذکورہ ہیلمٹ کی موجودگی نے ہماری خود
اعتمادی میں از خود اضافہ کردیا تھا اورہم جان بوجھ کر ان پولیس اہلکاروں
کے سامنے سے گزرتے رہے جو روزانہ ملاقات کی وجہ سے ہمیں دور سے ہی پہچاننے
لگے تھے اور جن کے سامنے آتے ہوئے ہماری روح قبض ہونے لگتی تھی۔ دفتر
پہنچنے کے بعد ہمارے ساتھیوں نے ہمارے ایجاد کردہ ہیلمٹ کا ستائشی انداز
میں معائنہ کیا۔ یہ بات ہمارے ذہن سے محو ہوگئی تھی کہ اس روز ہمارے
ڈپارٹمنٹ میں اجتماعی کھانے کا پروگرام تھا۔ ہم تو کسی کام سے دفتر سے باہر
چلے گئے جبکہ ہمارا پتیلی نما ہیلمٹ وہیں میز پر رکھا رہ گیا۔ ہمارے ایک
ساتھی نے جسے نہاری لانے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی، پلاسٹک کی تھیلیوں کے
جھنجھٹ سے بچنے کیلئے ہمارے ہیلمٹ میں سے روئی اور پولیسٹر کے ٹکڑے الگ کئے
اور اس کو حسب توفیق حفظانِ صحت کے اصولوں کے مطابق پاک صاف کرکے اسی میں
نہاری لے آئے۔ طعام کے اختتام کے بعد جب ہم اپنا ہیلمٹ دھونے کیلئے واش
روم گئے تو ہمارے نل کھولنے پر پانی کا آخری قطرہ بھی اس میں سے بہہ گیا
اور نلکے میں صرف ہوا باقی رہ گئی کنٹوپ دھونے کی حسرت لئے ہوئے ہم واپس
اپنے آگئے۔ ابھی ہم کرسی پر پوری طرح ٹکنے بھی نہیں پائے تھے کہ بیگم کا
فون آگیا جو ہم سے مذکورہ پتیلی کے بارے میں باز پرس کررہی تھیں کیونکہ
میکے سے واپسی پر وہ اپنے ساتھ اپنے بھائی، بھاوج اور ان کے چار عدد بچوں
کو بھی لے آئی تھیں اور اتنے افراد کیلئے سالن تیار کرنے کیلئے کچن میں
موجود پتیلیاں چھوٹی پڑ رہی تھیں۔ ہم انتہائی ہیجانی کیفیت کے ساتھ بے
خیالی میں سالن سے لتھڑی ہوئی پتیلی کو ہیلمٹ کی طرح پہن کر گھر کی طرف
روانہ ہوئے۔ دوران سفر ہم نے محسوس کیا کہ ہمارے پاس سے گزرنے والی گاڑیوں
میں لوگ ہمیں دیکھ دیکھ کر ہنس رہے ہیں ہم یہ تصور کرکے کہ شاید یہ ہمارے
ایجاد کردہ ہیلمٹ کو دیکھ کر خوش ہورہے ہیں فخر سے اپنا سر اور اونچا
کرلیتے لیکن فخر و انبساط کی کیفیت زیادہ دیر تک برقرار نہ رہ سکی کیونکہ
اس کی راہ میں ہماری آنکھ اور ناک کی جلن آڑے آرہی تھی جو ہیلمٹ سے بہنے
والے سالن کے مذکورہ مقامات پر گھسنے کی وجہ سے ہورہی تھی۔ گھر پہنچنے کے
بعد ہم بائیک کھڑی کرکے اپنے تخلیقی شاہکار کا اپنے سسرالیوں پر رعب ڈالنے
کیلئے اسے پہنے پہنے ڈرائنگ روم میں داخل ہوئے اور اپنے برادر نسبتی سے
انتہائی گرم جوشی کے ساتھ معانقہ کیا لیکن ہم نے دیکھا کہ سالے سے گلے ملنے
کے بعد ڈرائنگ روم میں موجود تمام لوگوں کے چہرے فق تھے اب ہم نے غور سے
سالے کی طرف جو دیکھا تو اس کی سفید براق قمیض سالن سے داغدار ہوگئی تھی جو
ہمارے ہیلمٹ سے بہتا ہوا اس کے کالر پر منتقل ہوا اور اب دامن کی طرف رواں
دواں تھا۔ ہم نے جو ہڑبڑا کر ہیلمٹ اتارا تو تمام فق چہروں کے دہانوں سے
پھوٹنے والے قہقہوں نے کمرے میں بھونچال پیدا کردیا ۔ ہم بغیر کچھ کہے سنے
واش روم کی طرف بھاگے جہاں دیوار گیرآئینے میں ہمیں اپنے مد مقابل ایک
عجیب الخلقت انسان کھڑا نظر آیا جس کے سر کے تمام بال سالن کی چکنائی سے
شیمپو کیے ہوئے لگ رہے تھے جبکہ ماتھے اور رخساروں کا غازے کی صورت میں
فیشیل کیا ہوا تھا۔ اپنے تجربے کے اتنے حماقت آمیز انجام سے دوچار ہونے کے
بعد ہم نے کچن کی پتیلی واپس کچن میں رکھی، موٹر سائیکل گھر کے اسٹور میں
مقفل کرکے اب ہم بسوں اور کوچز میں سفر کرنے پر مجبور ہیں کیونکہ پٹرول کی
قیمتوں میں مہینے میں دو مرتبہ اضافے کے بعد نہ تو ہم اتنی مہنگی قیمت
پرہیلمٹ خریدنے کی سکت رکھتے ہیں اور نہ ہی روزانہ چالان بھر سکتے ہیں۔
|