مجھے پاپا رازی سے بچاؤ

’’مجھے میرے دوستوں سے بچاؤ‘‘، ایک فکاہیہ مضمون جس میں سجاد حیدر یلدرم مرحوم نے قارئین سے اپنے دوستوں کے خلاف امداد طلب کی تھی، بالکل اسی انداز میں ہم سے ایک تقریب میں ایک خاتون سیاستدان اور سابق صوبائی وزیر خوفزدہ لہجے میں ایک فوٹوگرافر کی طرف اشارہ کرکے ہماری مدد کی طالب ہوئیں کہ، ’’مجھے اس پاپا رازی سے بچاؤ،

’’مجھے میرے دوستوں سے بچاؤ‘‘، ایک فکاہیہ مضمون جس میں سجاد حیدر یلدرم مرحوم نے قارئین سے اپنے دوستوں کے خلاف امداد طلب کی تھی، بالکل اسی انداز میں ہم سے ایک تقریب میں ایک خاتون سیاستدان اور سابق صوبائی وزیر خوفزدہ لہجے میں ایک فوٹوگرافر کی طرف اشارہ کرکے ہماری مدد کی طالب ہوئیں کہ، ’’مجھے اس پاپا رازی سے بچاؤ، میں جس تقریب میں جاتی ہوں یہ مجھ سے پیسے مانگتا ہے، اسمبلی کے اجلاس کے بعد گیٹ پر میرا راستہ روکنے کی کوشش کرتا ہے، نہ رکنے پر میرا پیچھا کرتا ہے‘‘۔ ان محترمہ کی فریاد پر ہم نے مذکورہ فوٹوگرافرسے خاتون وزیرکو پریشان کرنے کا سبب پوچھا۔ جس کے جواب میں اس نے کہا کہ میری روزی، روٹی کا ذریعہ یہی ہے، فری لانس تصویریں بناتا ہوں، صاحب تصویر کو اس کی تصویر پیش کرتا ہوں اور قائد کے فوٹوگراف اورگورنر اسٹیٹ بینک کے آٹوگراف والے نوٹ کا مطالبہ کرتا ہوں‘‘۔

ذرائع ابلاغ سے وابستگی کی وجہ سے فوٹوگرافروں سے ہمارا ساتھ گزشتہ تین عشرے سے ہے۔ ان میں اخباری اور فری لانس فوٹوگرافرزدونوں شامل ہیں ۔فری لانس فوٹو گرافر ہر اس تقریب جس میں اہم شخصیات موجود ہوں، بن بلائے مہمان کی حیثیت سے شرکت کرکے دیگر مدعوئین کے چہروں کو اپنے کیمرے کے لینس کے ذریعے سلولائیڈ کے فیتے پر منتقل کرتے ہیں اور پروسیسنگ و پرنٹنگ کے مراحل سے گزارنے کے بعد اسے فوٹو پیپر پر منعکس کردیتے ہیں اور بعد ازاں تصویرکشی کے معاوضے کی ادائیگی کیلئے اپنے خودساختہ گاہکوں پر یورش کرتے ہیں۔ یہ 1997ء تک فری لانس فوٹوگرافر کی حیثیت سے ہی جانے جاتے تھے لیکن 31اگست 1997ء کو برطانوی تاج و تخت کی وارثہ شہزادی ڈائنا کی کار حادثہ میں جواں مرگی کے بعد مذکورہ صنف عالمی ذرائع ابلاغ میں ’’پاپا رازی‘‘ کے دلچسپ نام سے مقبول ہوئی۔

پاپا رازی کا لفظ طویل عرصہ تک ہمارے ذہن میں کھٹکتا رہا لیکن اس کا مطلب ہماری سمجھ میں نہیں آسکا۔ یورپی دانشور ادبی اختراعات اور اصطلاحات میں ماہر ہوتے ہیں اور مضحکہ خیز اور ستم ظریفانہ اصطلاحات کی ایجاد میں ان کا کوئی ثانی نہیں۔ شمالی افریقہ کے بہادر قبائل جنہوں نے مسلمان حکمرانوں کی ہمراہی میںسلطنت اسلامیہ کی وسعتوں کو اسپین اور فرانس کی سرحدوں تک پھیلا دیا تھا، یورپی دانشوروں نے اس کی پاداش میں وہاں کے تمام غیرعیسائی قبائل کو اُجڈ اور وحشی قرار دیتے ہوئے بَربَر (Barbarian)قبائل کا نام دیا اور بربرازم (Barbarism)کی سنگدلانہ اصطلاح وہیں سے ایجاد ہوئی جس نے بعد میں اردو لغت میں ’’بربریت‘‘ کے لفظ کے طور پر جگہ بنائی۔ پہلے پہل ہمارا خیال یہی تھا کہ شاید یورپی دانشوروں نے پاپا رازی کی اصطلاح اپنی فطری تنگ نظری کی وجہ سے ایران کے قصبہ رے میں پیدا ہونے والے نامور مسلمان طبیب اورکیمیا، فلسفہ، منطق، حساب اور طبیعات کی عالم و فاضل شخصیت ابوبکرمحمد ابن ذکریا الرازی کے نام کی مناسبت سے ایجادکی ہے۔ علامہ رازی دنیا کے پہلے طبیب تھے جنہیں سترہویں صدی تک دنیائے طب میں غیرمتنازع مقام حاصل رہا۔ انہوں نے علاج معالجے میں پہلی مرتبہ الکوحل کااستعمال کیااوربطور سرجن آپریشن میںافیون کوبےہوشی (Anaesthesia)کیلئے استعمال کیا اور موتیا سمیت دیگر امراض چشم کی وجوہات اور چیچک سمیت متعدد معتدی امراض کے بارے میں طویل مقالے تحریر کئے۔ ان کی طبی خدمات کے اعتراف میں ان کی قدآدم پورٹریٹ پیرس یونیورسٹی کی فیکلٹی آف میڈیسن میں نصب ہے۔

اس اصطلاح کے فروغ کے بعد ہم اسے پاپائیت کی ہی کوئی قسم سمجھےکیونکہ یورپی معاشرے میں قومی ہیروزکو مذہبی رہنما کی حیثیت دے دی جاتی ہے اورکسی بھی شعبہ زندگی میں کارہائے نمایاں انجام دینے والی شخصیت کو سینٹ (Saint)یعنی ولی، پیر یا صوفی کا درجہ دے کر شہر کا کوئی علاقہ اس کے نام سے منسوب کردیا جاتا ہے اور بعد از مرگ مشہور شاہراہوں پر اس کے طویل القامت مجسمے نصب کردیئے جاتے ہیں۔ طویل عرصے تک پاپا رازی کے لغوی معنی تلاش کرنے اور مختلف لائبریریوں میں تحقیق و جستجو کے بعد ہمیں معلوم ہوا کہ اس لفظ کا مخرج اطالیہ کا آبی شہر وینس ہے۔ پاپا رازی اٹلی کے قصبات میں بولی جانے والی ٹھیٹھ لاطینی زبان کا لفظ ہے، ’’رازو‘‘ کے لغوی معنی مچھرکے ہیں۔ اٹلی کے ایک فلم ساز فیڈریکو فلینی کے زمانہ طالبعلمی میں، اسکول میں اس کا ایک ہم جماعت تھا جس کا نام توکچھ اور تھا لیکن اس کی چُلبلی طبیعت اور گفتگو میں تیزی اور بھنبھناہٹ کی وجہ سے اس کی عرفیت ’’پاپا رازو‘‘ کے نام سے مشہور ہوگئی۔ بعد میں فلینی فلمساز بن گیا اور اس نے 1960میں (La dolce vita) ’’لاڈولسے ویٹا‘‘ کے نام سے ایک فکشن فلم بنائی جس میں اداکار والٹر سنٹیسو نے پریس فوٹوگرافر کا کردار ادا کیا جس کا نام ’’پاپا رازو‘‘ تھا۔ 1960 میں ریلیز ہونے والی فلم کا پاپا رازو تو واضح مقبولیت حاصل نہ کرسکا اور فلم کی طرح اس کا کردار بھی فلم بینوں کے ذہنوں سے محو ہوگیا لیکن 37سال بعد مصر کے کھرب پتی تاجر اور بزنس ٹائیکون محمد عبدالمونم الفائد اور اسلحہ کے بین الاقوامی سوداگر عدنان خشوگی کی بہن سمیرا خشوگی کے اکلوتے بیٹے، کئی مشہور زمانہ فلموں کے خالق دودی الفائد اور برطانوی شہزادی ڈائنا سے منسوب رومانی داستانوں کی وجہ شہرت نے اٹلی کے پاپا رازو کی روح فرانس کے فری لانس فوٹوگرافروں کے جسم میں سرایت کردی اور کار حادثہ میں اس شاہی جوڑے کی روح جسم سے نکلنے کے بعد پاپا رازی کا نام بھی یورپ سے نکل کر عالمی میڈیا میں گونجنے لگا اور ان دو اہم شخصیات کی موت پر کار حادثہ کا مؤرد الزام ٹھہراتے ہوئے کئی پاپا رازی جائے وقوعہ سے گرفتار کرکے پابند سلاسل کردئیے گئے جو تحقیقات اور میڈیکل رپورٹ میں دودی الفائد کی لیموزین کار کے ڈرائیور آنجہانی ہنری پال کے نشے کی حالت میں پائے جانے کے بعد رہا ہوئے۔

عربی اور برطانوی شہزادگان جتنا پاپارازی سے خوفزدہ رہتے تھے اتنا وہ اپنے پاپاؤں اور شہزادہ چارلس و ملکہ الزبتھ سے بھی خوفزدہ نہ ہوں گے۔ انہیں ہر جگہ، ہر مقام پر پاپارازی کے تعاقب کا سامنا رہتا تھا اور انہوں نے اس سے بچنے کیلئے اپنے ڈرائیور میں تیزرفتار ڈرائیونگ کیلئے جوش و جنون پیدا کرنے کیلئے ماورائے قانون شراب نوشی کی اجازت دے رکھی تھی۔ پاپا رازی شاہی جوڑے کی تصاویر کے حصول کیلئےہر جگہ ان کے پیچھے سائے کی طرح لگے رہتے تھے اور وہ دونوں ان کے کیمروں کے لینسز کی زد سے بچنے کی کوشش کرتے تھے کیونکہ ان کی تصاویر سلو لائیڈ کے فیتے پر منتقل ہونے کے بعد بین الاقوامی اخبارات اور میگزینوں میں بھاری قیمت پر فروخت کردی جاتی تھیں جو مذکورہ اخبارات و میگزین مرچ مصالحہ سے مزین خبروں اور فیچرز اور اسکینڈلزکے ساتھ اپنی خاص اشاعتوں میں چھاپتے۔ اس لئے وقوعے والے روز مذکورہ پریمی جوڑا فرانس کے پاپا رازی کی دست برد سے محفوظ ہونے کیلئے پیرس اور انگلستان کے درمیان ڈنکرک اور ڈوورکے راستے رودبار انگلستان کی زیر آب سرنگ میں عازم سفر تھا، بکنگھم پیلس پہنچنے کی جلدی میں رفتار کی حدیں ٹوٹنے کی وجہ سے حادثہ کا شکار ہوگیا اور اپنے شاہی کروفر کی وجہ سے ’’مجھے پاپا رازی سے بچاؤ‘‘ والی صدا بھی بلند نہ کرسکا۔

ترقی یافتہ ممالک میں پاپا رازی بھی ترقی یافتہ شکل میں موجود ہیں۔ انہیں تصویرکشی کیلئے جدید ٹیکنالوجی کی تمام جملہ سہولتیں دستیاب ہیں۔ تصویروں کو بھاری معاوضے پر خریدنے کیلئے ملکی و بین الاقوامی جرائد و اخبارات موجود ہیں جبکہ ہمارے ملک میں فوٹوگرافرز کو پاپارازی کی معراج تک پہنچنے کیلئے طویل عرصہ درکار ہے۔ ابھی ان کے کیمروں کی رینج سماجی تقریبات ، اسمبلی کے اجلاسوں میں شریک مہمانوں کی حکومتی شخصیات کے ساتھ تصویر کشی اور فلمی شخصیات کی اسکینڈلائیز تصاویرتک محدود ہے۔ ایک پاپا رازی کیلئے اپنی مہمات کیلئے ہائی پاور و نارمل لینسزکے ساتھ لامحدود رینج والے ٹیلی لینس، موٹو ڈرائیو یا موٹروائنڈر اور وائیڈ اینگل لینسز کا ہونا ضروری ہے۔ ڈیجیٹل کیمروں کی آمد نے فوٹوگرافی کو اور بھی آسان بنادیا ہے اور ڈیجیٹل کیمرے سے اتاری جانے والی تصاویر فوراً ہی کارڈ رائیڈر کے ذریعے کمپیوٹر پر منتقل کرکے ای میل اور انٹرنیٹ کے توسط سے ساری دنیا میں بھیجی جاسکتی ہیں۔ ایک منی مووی کیمرے نے چند سال قبل بھارت میں تہلکہ اسکینڈل کے نام سے بھارتی سیاست میں تہلکہ مچادیا تھا۔ اب موبائل فون کے ویڈیوکیمروںسے مزید تہلکہ خیز اسکینڈلز متوقع ہیں۔

ویسے 7جولائی 2005کو لندن میں زیر زمین ریلوے اسٹیشن میں بم دھماکوں میں موبائل فون کے ویڈیو کیمرے سے بھی استفادہ کیا گیا اور کسی شوقیہ پاپا رازی نے پہلی بار اپنی کارکردگی کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں استعمال کیا۔

بعض اوقات پاپارازی کی ناراضی بھی بڑی مہنگی ہوتی ہے۔ اس کا تجربہ ہانگ کانگ کی عدلیہ کو ہوا۔1999میں ہانگ کانگ کے اورنٹیل ڈیلی نیوز نے عدلیہ کے بارے میں اسیکنڈل شائع کیا جس کا نوٹس لیتے ہوئے عدلیہ نے مذکورہ اخبار کو عدالتی راز افشاء کرنے اور عدلیہ کی خودمختاری پر حملے کی چارج شیٹ جاری کردی۔ اخبار کی انتظامیہ نے اس کا انتہائی دلچسپ جواب دیا ۔ مذکورہ جج کے گھر اور دفتر کے راستے میں کتوں کے پلوں کی ایک ٹیم کھڑی کردی گئی جو 72گھنٹے تک عزت مآب جج کو پریشان کرتی رہی اور پھر وہ بھی فریاد کرنے لگے کہ ’’مجھے پاپا رازی سے بچاؤ‘‘۔



 

Rafi Abbasi
About the Author: Rafi Abbasi Read More Articles by Rafi Abbasi: 208 Articles with 192515 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.