تفریحی مقامات پر جھولوں کے حصول کیلئے 2سال سے لے کر
60اور 70سال تک کی عمرکے بچوں میں اسی طرح سے چھینا جھپٹی ہوتی ہے جیسی
سیاستدان اقتدار کی کرسیوں کیلئے کرتے ہیں۔ خواتین تو جھولوں کی اس حد تک
شیدائی ہوتی ہیں کہ فلمی گیتوں تک میں ان کے جھولا جھولنے کی خواہشات کے
تذکرے ملتے ہیں۔ مثلاً
جھولے میں پون کے آئی بہار
اگر ان کا ساجن کسی مصروفیت کی وجہ سے ان سے ملنے کسی باغ یا پارک میں نہ
پہنچ سکا ہو تو وہ انتظار کی یہ گھڑیاں کسی درخت سے بندھے ہوئے رسی یا
زنجیر والے جھولے پر بیٹھ کر کاٹتی ہیں اور جب اس کی آمد کی طرف سے مایوس
ہوجاتی ہیں تو اکیلی ہی جھولا جھولتے ہوئے گانا شروع کردیتی ہیں،
بن ساجن جھولا جھولوں میں وعدہ کیسے بھولوں
دل کرتا، ہے یہ میرا میں اڑکے پون کو چھولوں
ساون کے دن آئے بالم، جھولا کون جھلائے
ہر ڈالی لہرائے بالم، جھولا کون جھلائے
چند سال قبل تک جھولے بھی رسی اور لکڑی سے بنے ہوتے تھے۔ درختوں پر رسّے
باندھ کر انسانی طاقتِ پرواز سے جھولنے کا شوق پورا کیا جاتا تھا ۔ ان
جھولوں کو چلانے میں انسان کی جسمانی قوتوں کا زیادہ عمل دخل ہوتا تھا۔
ایٹم اورکمپیوٹر کے دور میں داخلے کے بعد ہمارے جھولے بھی ترقی یافتہ دور
میں داخل ہوگئے جنہیں فولاد یا پلاسٹک کے ملے جلے اجزا سے بنا کر برقی رو
کی مدد سے چلایا جاتا ہے۔ لکڑی کی ڈولیوں والے جھولے کی جگہ دیوہیکل پہئے
کی شکل والے جھولے نے لے لی جس میں تقریباً نصف درجن ڈولیاں لٹکی ہوتی ہیں
اور اس کی سب سے اونچی ڈولی زمین سے تقریباً 100فٹ بلندی پر ہوتی ہے جس میں
بیٹھا ہوا انسان جھولے کا کرایہ دے کر مفت میں خلائی سفرکے مزے لوٹتا ہے
اور اس پر بیٹھے بیٹھے میلوں دور تک کے مناظر سے محظوظ ہوتا ہے۔ مذکورہ
جھولوں کے ہچکولوں کی تاب نہ لاکر بعض کمزور دل خواتین اپنا سارا کھایا پیا
دوسروں کی جھولیوں میں اگل دیتی ہیں لیکن اس کے باوجود وہ جھولے کے ہچکولوں
کو اس لئے پسند کرتی ہیں کہ دل و دماغ کو گُدگُداتے ہیں۔
کرینوں سے ساری دنیا میں ٹنوں وزنی بوجھ کو ایک جگہ سے دوسری جگہ رکھنے،
بندرگاہوں پر بڑے بڑے کنٹینرز، بسیں، ٹرک اورکاریں اپنے کنڈے میں پھنسا کر
بحری جہازوں سے اتارنے اور لادنے کا کام لیا جاتا ہے جبکہ سڑکوں پر انہیں
الٹنے یا کھائی یا کھڈ میں گرنے والی بسوں یا دیگر بھاری گاڑیوںکو سیدھا
کرنے یا نکالنے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ شاہراہوں پر غلط اندازمیں پارک
کی ہوئی کاروں کو بعض اوقات مع پسنجر، ٹریفک چوکی تک منتقل کرنے کے لئے
لفٹر سے کام لیا جاتا ہے۔ کرین کا سزائے موت یا مذاکرات کے لئے کار سمیت
اٹھواکر بلانے کا عمل دنیا میں سوائے دو مسلمان ملکوں کے کہیں اور نظر نہیں
آتا جہاں دو فوجی آمروں نے اسے عالمی ریکارڈ کے حامل واقعات کے طور پر
اندراج کراکے ہمیشہ کے لئے تاریخ میں ثبت کرادیا ۔
ساری دنیا میں سزائے موت دینے کے لیے پھانسی گھاٹ، گیس چیمبر، فائرنگ
اسکواڈ سے مدد لی جاتی ہے لیکن بیسویں صدی کے وسط میں مصر کے صدر جمال
عبدالناصر نے حکومتی رٹ اور حکومت کی غیر اسلامی پالیسیوں کو چیلنج کرنے کی
پاداش میں اخوان المسلمون کے رہنما حسن البنّاء اور ان کی پارٹی کے رفقاء
کوکرینوں سے چیروا کر شہید کروایا تھا۔ ہمارے ملک میں بھی ایک آمر کے دور
میں کرین کا اس سے بھی زیادہ حیران کن استعمال کیا گیا لیکن اس سے قبل ایک
اور محیرالعقول واقعہ زمین پر بیٹھے ہوئے شخص کا مبینہ طور پر فضا میں اڑتے
ہوئے طیارے کو اغواء کرنا اور طیارہ ہائی جیکنگ کے من گھڑت کیس میں قید
وبند کی صعوبتیں اور ریاستی ظلم و تشدد برداشت کرنا تھا جبکہ’’ مغوی‘‘
طیارے میں بیٹھے ہوئے شخص کا ملک اور حکومت کو ہائی جیک کرنا، دورانِ
پرواز، طیارے میں بیٹھے بیٹھے ایوان وزیراعظم پر ایس ایس جی کمانڈوز کے
ذریعے یورش کروانا اور بھاری مینڈیٹ کے حامل وزیر اعظم کا تختہ الٹ کر اس
کے خلاف طیارہ اغواء کرانے کا بے بنیاد الزام عائد کرکے اسے پابند سلاسل
کرکے اور مقدمہ بنوا کر اسے اس کے پیشرو وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی طرح
صلیب پر چڑھانے کے عزائم کو بروئے کار لانا تھا جس کا واحد مقصداعلان لاہو
ر کو سبوتاژ کرنے کے لیے کارگل پرفوج کشی اور اس کے نتیجے میں اٹھائی جانے
والی ہزیمت پر پردہ ڈالنا تھا۔
1857 ء کی جنگ آزادی کے بعد انگریزوں کے ہاتھوں شہنشاہ ہند بہادرشاہ ظفر
کی معزولی، گرفتاری اور مغل شہزادوں کے قتل کے بعد جو آنسو اس وقت شاہی
بیگمات کی آنکھوں سے گرے تھے، انہیں علامہ راشد الخیری اور خواجہ حسن
نظامی نے اپنی تصنیفات میں ’’شہزادیوں کے آنسو‘‘ کے عنوان سے پیش کیا ہے
لیکن ویسے ہی آنسو ذوالفقار علی بھٹو کی معزولی، گرفتاری اور پھانسی کے
بعد بے نظیر بھٹو کی آنکھوں سے بھی ٹپکتے رہے تھے جنہیں بے حسی کا مظاہرہ
کرکے نظر انداز کردیا گیا تھا لیکن جب ان آنسوؤں کی نمی میاں نواز شریف
کی گرفتاری کے بعد بیگم کلثوم نواز کی آنکھوں میں آئی تو انہیں محترمہ بے
نظیر بھٹو کے آنسوؤں کا بھی احساس ہوا ۔ خود پر افتاد پڑنے پر بیگم کلثوم
نواز کو بے نظیر بھٹو کا دکھ بھی یاد آیا اور اپنے شوہر کو آمریت کے عتاب
سے نجات دلانے اور سزائے موت سے بچانے کے لئے اپنے دکھ کو بے نظیر کا
سانجھا دکھ قرار دے کر دست تعاون کی طلب گار ہوئیں لیکن محترمہ نے بھی ماضی
کے تجربات کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کا ہاتھ نظر اندازکردیا۔ یہاں سے مایوس
ہوکر انہوں نے لیگی کارکنوں کو جوش دلانا چاہا لیکن ان کی جماعت کے کارکن
پی پی کے جیالے ثابت نہ ہوسکےکیونکہ وہ خود اپنی جان بچانے کی تگ و دو
کررہے تھے، اس جانب سے مایوس ہوکر انہوں نے سیاسی مہم جوؤں اور پارلیمانی
باباؤں کو پرکشش مراعات و ترغیبات کا لالچ دے کر آمادئہ تحریک کرنا چاہا
لیکن یہ تمام سیاسی اکابرین ہائی جیکنگ کے نتیجے میں برسراقتدار آنے والی
حکومت کی طرف سے وزارت عظمٰی کی پیشکش سمیت اقتدار میں شرکت کی دعوت کی آس
لگائے بیٹھے تھے اس لیے وہ اپنی جناح کیپ، ترکی یا سندھی ٹوپی الماری میں
بند کرکے سگار پیتے رہے یا حقہ گڑگڑاتے رہے۔
ہر طرف سے مایوس ہوکر سابق خاتون اوّل نے اپنے معزول حکمران شوہرکی جان
بچانے کی تمام ذمہ داری تن تنہا اپنے نیم ناتواں کاندھوں پر ڈالی اور میدان
عمل میں نکل آئیں۔ قانونی جنگ کو انہوں نے وقت کا زیاں سمجھا کیونکہ 17ویں
صدی میں تاج برطانیہ سے برآمد ہونے والے نظریہ ضرورت (Doctrine of
necessity)کو پاکستان میں ایک قانونی کلئیے کی صورت میں ڈھال دیا گیا تھا
اور اسے 1950ء کے بعد سے آمرانہ اقدامات کے تحفظ کے لیے استعمال کیا جارہا
ہے اس لیے انہوں نے اپنے کارکنوں کے بغیر ہی اسٹریٹ پالیٹکس کے آغازکا عزم
کیا اور اپنے شوہر کے چند وفادار ساتھیوں کی معاونت سے تحفظ پاکستان
کاررواں کا پروگرام ترتیب دیا۔ پروگرام کی تاریخ اور وقت کا اعلان ہوتے ہی
پنجاب انتظامیہ نے پورے لاہور شہر کی ناکہ بندی کردی اور بیگم کلثوم نواز
کو ان کے ماڈل ٹاؤن کے بنگلے میں محصور کردیا گیا۔ لیکن بیگم کلثوم نواز
نادیدہ قوتوں کی مدد سے اپنے بنگلے سے نکل کر اور تمام فولادی رکاوٹوں کو
عبور کرکے ایک کار میں اپنے چار ساتھیوں بیگم تہمینہ دولتانہ، مخدوم جاوید
ہاشمی اور دو دیگر لیگی اکابرین کی ہمراہی میں جیل روڈ تک پہنچنے میں
کامیاب ہوگئیں۔ ان کے اس اقدام سے اسلام آباد کے حکومتی حلقوں میں کھلبلی
مچ گئی۔ تعاقب کے بعد پولیس کی جیپوں اور ٹرکوں نے ان کی کار کو گھیرے میں
لے کر تمام افراد کو کار سے نیچے اترنے کی ہدایت دی لیکن انہوں نے اترنے سے
انکار کردیا جس کی اطلاع پولیس حکام نے کرنل ندیم اعجازکو دی جو اس آپریشن
کی قیادت کررہے تھے۔ انہوں نے کارکو ناکارہ بنانے کے احکامات دئیے۔ پولیس
اہلکاروں نے کار کے پہیوں کی ہوا نکال دی اور ائیرکنڈیشن بند کرنے کے لیے
سائلنسر میں کپڑا ٹھونس کرکار کے اسٹارٹنگ پوائنٹ کو بند کردیا گیا۔
ائیرکنڈیشن بند ہونے کے بعد حکام کو توقع تھی کہ مسلم لیگی رہنما گرمی اور
گھٹن سے گھبرا کر کار سے نیچے اتر آئیں گے لیکن ان رہنماؤں نے حکام کی
ساری امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ تنگ آکر جی او آر آفیسرز میس میں بیٹھے
حکام نے مذکورہ رہنماؤں کو بذریعہ کرین کار سمیت اپنے حضور پیش کرنے کا
حکم دیا اورپولیس حکام نے ان کے حکم کی تعمیل میں کرین منگوا کر سابق
حکومتی شخصیات کو کارسمیت کرین میں لٹکا کر جیل روڈ سے جی او آر آفیسرز
میس تک کئی میل طویل سفر کراکے آرمی حکام کے سامنے پیش کیا جنہوں نے دس
گھنٹے مزید انہیں کار میں محبوس رکھا۔ کرین کے ذریعے ہچکولے لیتا ہوا یہ
خلائی سفر ممکن ہے کہ سابق خاتون اول اور ان کے سیاسی رفقاء کے لیے ایک
خوشگوار تجربہ ہو لیکن اہل لاہور کے لیے مفت کی تفریح کا انتظام ہوگیا۔ وہ
جو سرکس میں پرانے کرتبوں اور گھسے پٹے کرداروں کو دیکھ دیکھ کر تنگ آگئے
تھے، اس اسٹریٹ سرکس سے خاصے محظوظ ہوئے اور جیل روڈ سے جی او آر میس تک
’’تحفظ پاکستان کاروان‘‘ کی صورت میں کرین کے ساتھ چلتے رہے۔ بذریعہ کرین
مذکورہ خلائی سفر سے بیگم کلثوم نواز کو کوئی سیاسی فائدہ پہنچا یا نہیں
لیکن جی او آر حکام کے لیے اس طرح کا بلاوا گھاٹے کا سودا رہا اور انہیں
کار کو مرمت کراکے کارنشینوں کو معذرت کے ساتھ ماڈل ٹاؤن پہنچانا پڑا جبکہ
چند میل پر محیط اس خلائی سفر کی روداد چند گھنٹوں کے اندر ذرائع ابلاغ کے
توسط سے ساری دنیا میں پھیل گئی جس سے بین الاقوامی برادری کرین کے نئے
انداز میں استعمال سے روشناس ہوئی۔
8جولائی 2000ء کا کرین کا خلائی سفر کامیاب ہوا یا ناکام اس سے ہمیں کوئی
بحث نہیں اس ایک واقعہ سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ فوجی حکمرانوں کے خلاف جو
عورت جدوجہد کر رہی ہے وہ صرف ایک وفا شعار بیوی ہے، جو اپنے شوہر کی جان
بچانے اور اسے قید و بند کی صعوبتوں سے نجات دلانے کیلئے تنہا حکمرانوں کو
چیلنج کرنے کا حوصلہ رکھتی ہے اور ہر طرح کی صعوبتیں برداشت کر سکتی ہے۔ اس
نے خود کرین پر لٹک کر حکمرانوں کو یہ پیغام دیا کہ وہ اپنے شوہر کو پھانسی
پر لٹکنے سے بچانے کے لئے ہر خطرہ مول لے سکتی ہے۔ لیکن آج ہر ذی شعور شخص
کے ذہن میں صرف ایک سوال گونج رہا ہے کہ کیا بیگم کلثوم نواز خود کو کرین
پر لٹکا کر اپنے سابق وزیراعظم شوہرکو تختہ دار پر چڑھنے سے بچا سکیں گی …؟
|