وینس ثانی

وینس اورکراچی میں خاصی حد تک جغرافیائی مماثلت پائی جاتی ہے۔ اہل وینس کو رات دن ایڈریاٹک سمندر کی لہروں کی بوچھاڑ کا سامنا رہتا ہے جبکہ کراچی کے باسیوں کے قدم بھی بُحیرئہ عرب کے پانی سے گیلے رہتے ہیں۔ پاکستان میں امریکی و مغربی اثر نفوذ کے بعد ہماری تو خواہش ہے کہ جب ہمارے ملک میں ہر سطح پر مغربی رنگ و بو کو اپنایا جا رہا ہے تو شہروں کا نام بھی مغربی رنگ آمیزی سے مرصع ہونا چاہئے اسی لئے ابتدائی طور پر ہم کراچی کا نام تبدیل کرکے وینس ثانی (Venice II)کرنے کی تجویز پیش کرتے ہیں۔


گزشتہ دنوں کراچی شہری حکومت کے سربراہ اور نیویارک کے حکام کے درمیان باہمی ملاقات میں کراچی شہر کو نیویارک کا جڑواں شہر قرار دیا گیا ہے۔ اس سے قبل بھی یہ شہر مختلف ممالک کے شہروں سے جڑواں ناتا جوڑتا رہا ہے لیکن یہ جڑواں رشتے استوار کرنے پر ہم کچھ تحفظات رکھتے ہیں کیونکہ مذکورہ شہر نہ تو ہمارے شہر سے کسی قسم کی قدرتی، جغرافیائی، موسمیاتی اور تہذیبی مماثلت رکھتے ہیں اور نہ ہی ان کے شہریوں اور ہمارے باسیوں میں کسی بھی طورکی ذہنی ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔
ہم کراچی شہر کی کنجی رکھنے والے حضرات سے شکوہ کناں ہیں جو ہمارے شہر کیلئے دنیا بھر میں جڑواں رشتے تلاش کرتے ہیں، انہیں قدرتی و غیر قدرتی مماثلت رکھنے والے اطالیہ کے آبی شہر وینس کو کراچی کا جڑواں قرار دینے میںکیا قباحت ہے۔؟ وینس اورکراچی میں خاصی حد تک جغرافیائی مماثلت پائی جاتی ہے۔ اہل وینس کو رات دن ایڈریاٹک سمندر کی لہروں کی بوچھاڑ کا سامنا رہتا ہے جبکہ کراچی کے باسیوں کے قدم بھی بُحیرئہ عرب کے پانی سے گیلے رہتے ہیں۔ پاکستان میں امریکی و مغربی اثر نفوذ کے بعد ہماری تو خواہش ہے کہ جب ہمارے ملک میں ہر سطح پر مغربی رنگ و بو کو اپنایا جا رہا ہے تو شہروں کا نام بھی مغربی رنگ آمیزی سے مرصع ہونا چاہئے اسی لئے ابتدائی طور پر ہم کراچی کا نام تبدیل کرکے وینس ثانی (Venice II)کرنے کی تجویز پیش کرتے ہیں۔

یورپ اور ایشیاء سے بذریعہ ریل اٹلی آنے والے مسافر یوگوسلاویہ کے شہر بلغراد سے مشرقی یورپ کی سرحد پار کرکے سیزان کے راستے اطالیہ میں داخل ہوتے ہیں تو پہلا اسٹیشن ولااپ سینا آتا ہے جس کے بعد ٹرین بُحیرۂ ایڈریاٹک کے ساتھ ساتھ چلتی ہوئی تریست پہنچتی ہے جو مغربی یورپ کا پہلا اسٹیشن ہے وہاں سے ریورس گئیر لگا کر واپس مین ٹریک پر آتی ہے اور وسیع و عریض دلدل کی صورت میں ریلوے لائن کے دونوں اطراف موجزن سمندر کے درمیان چلتی ہوئی وینس میں داخل ہوجاتی ہے ۔ وینس کے اسٹیشن کی عمارت سے باہر نکلتے ہی مسافر کا کسی بس یا تانگہ اسٹینڈ اور لاری اڈّے کی بجائے گرینڈکینال سے واسطہ پڑتا ہے جہاں گھاٹ پر بے شمارکشتیاں، اسپیڈ بوٹس، اسٹیمر اور سجے سجائےگنڈولے مسافروں کا انتظار کررہے ہوتے ہیں جن میں بیٹھ کر مسافر آبی شاہراہ پر سفر کرتے ہوئے اپنی منزل مقصود تک پہنچتے ہیں۔ بالکل اسی قسم کی صورتحال کا سامنا پاکستان کے شمالی یا جنوبی علاقوں سے آنے والے مسافروں کا جنوب مغربی شہر کراچی پہنچنے پر ہوتا ہے۔ جب وہ ٹرین سے اترتے ہیں تو اسٹیشن کی عمارت سے باہر نکلتے ہی ان کے قدم سڑک پر بہتے ہوئے پانی میں پڑتے ہیں اور غلط قدم رکھنے پر وہ اکثر گر بھی جاتے ہیں۔ (بارش کے دنوں میں تو اس قسم کی صورتحال درپیش ہوتی ہی ہے لیکن ایسے حالات سے سابقہ عام دنوں میں گٹر ابلنے کی وجہ سے بھی پڑتا ہے)۔ بارش کے زمانے میں تو ہمارے شہرکی ہر شاہراہ وینس کی آبی شاہراہ گرینڈ کینال کا منظر پیش کررہی ہوتی ہے اور جب مسافر ریلوے اسٹیشن کی عمارت سے باہر نکل کر اس آبی شاہراہ پر آتے ہیں تو وہاں اسٹیمر یا گنڈولے کی بجائے بسوں، رکشہ، ٹیکسیوں کی تلاش میں سرگرداں ہونا پڑتا ہے اور ناکامی پر عقبہ بن نافع کی طرح بحر ظلمات میںکمر تک بہتے پانی میں اپنا سفر شروع کرکے منزل کی طرف رواں دواں ہوتے ہیں اور پاس سے گزرنے والی کاروں اور بڑی گاڑیوں کے ٹائروں سے اچھلنے والاگند آب ان کے سر، چہرے اور بدن کے دیگر حصوں پر جھرنے یا آبشار کی صورت میں گرتا ہے۔ احتجاج پر متاثرہ شخص کو آب شیریں سے غسل کا مشورہ دیا جاتا ہے لیکن پھر بھی وہ مجوزہ ’’گرینڈ کینال ٹو‘‘ پر سفر سے لطف اندوز ہوتے، نہر کے دونوں اطراف جدید و قدیم ، پست و بالا عمارتوں کی تصاویر اپنی آنکھوں کے لینسز سے ذہن کے کینوس پر منتقل کرتے ہوئے منزل مقصود تک پہنچ ہی جاتے ہیں لیکن اس قسم کی آسانیاں انہیں بارش کے دنوں میں ہی حاصل ہوتی ہیں جبکہ سیوریج کے پانی میں سفر کرتے ہوئے انہیں وہ لطف نہیں آتا۔
کراچی کی آبی شاہراہ پر سفر کے دوران مسافرکو توانائی کے سرچشمے سے بھی نبرد آزما ہونا پڑتا ہے اور اس کی جسمانی توانائی برقی توانائی کے استیصال سے دم توڑ جاتی ہے۔ یہ صورتحال اس وقت پیش آتی ہے جب وہ بارانِ رحمت سے بچنے کی کوشش میں برق رفتاری کے ساتھ گرینڈ کینال ٹو پر سفر کرتا ہواکسی محفوظ مقام کی جانب عازم سفر ہوتا ہے اور آسمان پر کوندنے والی برق کی کڑک بھی اسے ہراساں کررہی ہوتی ہے۔ ایسے میں زندگی میں روشنی بکھیرنے والے برقی تار، جو کھمبوں پر ایستادہ ہوتے ہیں، بارش کے چھینٹوں کا بوجھ نہ سہارتے ہوئے ٹوٹ کر سڑک پر بہتے ہوئے بارش کے پانی میںگرجاتے ہیں اور بدنصیب مسافر زیرآب پھیلنے والی برقی رو کو اپنے بدن میں جذب نہیںکرپاتا اور پانی میں گرکر چاروں ہاتھ پیروں کو پیراکی کے انداز میں چلاتے ہوئے سفر آخرت پر روانہ ہوجاتا ہے۔ اٹلی سمیت یورپ کے ساحلی شہروں میں ساحل سمندر پر پن چکیاں لگا کر برقی توانائی حاصل کی جاتی ہے جسے پَن بجلی کہتے ہیں یعنی دوسرے الفاظ میں وہاں پانی سے بجلی نکالی جاتی ہے لیکن ہم غیر ملکی پاورکمپنیوں کے اشتراک سے برقی توانائی میں اس حد تک خودکفیل ہوگئے ہیں کہ یہاں پانی میں بجلی ڈالی جاتی ہے۔ اگر مذکورہ مسافر زیرآب موجود آفت برق سے بچ جائے تو زیر زمین خلائی سفر اس کا منتظر ہوتا ہے اور وہ کھلے ہوئے مین ہول (جو اس کیلئے بلیک ہول بن جاتا ہے) میںگرکر بہتا ہوا سمندر کی تہہ میں غرق ہوجاتا ہے۔

ساری دنیا اس وقت توانائی کے بحران سے دوچار ہے۔ ہمارے ملک میں لا تعداد کاروں، موٹر سائیکلوں، بسوں، منی بسوں اور کوچزکے سڑکوں پر دوڑنے اور بارش یا ناگزیر وجوہات کی صورت میں گھنٹوں ٹریفک جام ہونے کی بناء پر لاکھوں بیرل پیٹرول اور ڈیزل کا زیاں ہوتا ہے اور ہمیں اربوں ڈالر صرف تیل کی خریداری کے بل کی مَد میں غیر ممالک کو ادا کرنا پڑتے ہیں۔ دوسری جانب سڑکوں کی تعمیر، استرکاری ، بنی بنائی سڑک کو توڑنے اور ازسرنو تعمیر کرنے سے قومی خزانے کو جو بھاری بوجھ برداشت کرنا پڑتا ہے اسے ہمارے خیال میں غیر پیداواری مصارف میں شمارکرنا چاہئے جبکہ بارش اور سیوریج کے پانی کی نکاسی کیلئے ایک علیحدہ محکمے میں ہزاروں افسران اور اہلکاروں کی تنخواہوں اور دیگر مراعات کی ادائیگی پر خطیر رقوم خرچ ہوتی ہیں۔ ہماری تو رائے ہے کہ کراچی کو وینس کا جڑواں شہر قرار دئیے جانے کے بعد متعلقہ محکمے کو ختم کرکے تمام سیوریج نالے اور گٹر بند کردئیے جائیں کیونکہ ان کے ذریعے کروڑوں کیوسک غیر شفاف پانی سمندر میں گر کر ضائع ہوجاتا ہے ۔ شاہراہوں کے اطراف دیواریں کھڑی کرکے ان شاہراہوں کو آبی شاہراہوں میں تبدیل کرنے کیلئے چھوٹی چھوٹی نالیاں نکال کر ہرگھر کا گندا پانی ان شاہراہوں پر چھوڑ دیا جائے، شہر میں موجود ندی، نالوں کا سمندر سے رابطہ منقطع کرکے ان کا تمام پانی ان شاہراہوں پر ڈالا جائے بلکہ جدید ٹیکنالوجی استعمال کرکے ٹنلز کے ذریعے سمندر کے پانی کو بھی ان شاہراہوں تک لانے کی منصوبہ بندی کی جائے۔ شہر میں چلنے والی تمام موٹر سائیکلیں، کاریں، منی بسیں، کوچز بند کرکے انہیں ری کنڈیشنڈ حالت میں غیر ممالک کو برآمد کردیا جائے۔ اس سے جو زرمبادلہ حاصل ہو اسے بادبانی، دخانی اور چپو سے چلنے والی کشتیوں، اسٹیمروں، موٹربوٹس، موٹو سکافو اور گنڈولوں کی تیاری و درآمد پر صرف کیا جائے۔ اس اقدام سے ایک تو پیٹرولیم مصنوعات کی درآمد میں کمی ہوگی، دوسری طرف ٹریفک حادثات کی صورت میں لاتعداد انسانی جانوں کے زیاں میں بھی کمی واقع ہوگی جبکہ عوام کو محفوظ اور سستے سفری ذرائع آمدورفت میسر آجائیں گے۔
ماحولیاتی آلودگی دنیا بھر میں عفریت کی شکل اختیار کرتی جارہی ہے اور اسی کی وجہ سے اوزون کی تہہ میں پڑنے والا سوراخ بڑھ کر موسمیاتی تغیرات کا سبب بن رہا ہے۔ آبی سفری ذرائع کی وسعت پذیری کے بعدکراچی میں ماحولیاتی آلودگی میں خاصی کمی واقع ہوگی اور اس کے ساتھ ہی اس کے باعث پھیلنے والے امراض کے خاتمے کے بعد حکومت کی جانب سے صحت عامہ کی مَد میں مختص قلیل ترین بجٹ میں بھی مزید کمی ہوگی۔ ہمارے یہاں اسٹیٹس سمبل کی مسابقتی دوڑ کی بڑی وجہ رنگ برنگی عالیشان کاریں اور موٹرسائیکلیں ہیں اور پیٹ بھرنے کیلئے روٹی کے حصول میں ناکامی کے باوجود لیزنگ کمپنیوں کے توسط سے کار یا موٹر سائیکل کا حصول آسان ہوگیا ہے۔ آبی سفر کی شروعات کے بعد اس مسابقتی رجحان کا بھی خاتمہ ہوجائے گا۔ ہر شخص اپنے گھر سے آبی شاہراہ تک پیدل چلتا ہوا آئے گا اور وہاں گھاٹ پر موجود کشتی یا اسٹیمر میں بیٹھ کر کم کرایہ ادا کرکے اپنے دفتر یا دیگر مقامات تک پہنچے گا۔ صاحب استطاعت لوگ جو موٹو سکافو یعنی موٹر بوٹس، اسٹیمر یا خوبصورت گنڈولے کے مالک ہوں گے، وہ آبی شاہراہ پر موٹرگیراج کی طرح گھاٹ کرائے پر لے کر اپنی آبی سواری لنگر انداز کیا کریں گے۔ اپنے بنگلے یا کوٹھی سے بذریعہ سائیکل وہ مذکورہ گھاٹ تک پہنچیں گے اور اپنی ذاتی کشتی، گنڈولے یا اسٹیمر میں بیٹھ کر شاہراہ آب پر مکمل ذہنی سکون کے ساتھ عازم سفر ہوںگے۔ راستے میں انہیں اسٹریٹ کرائمز اور موٹر بوٹ کے چھینے جانے کا بھی خطرہ نہ ہوگا۔ مین آبی شاہراہ پر رہنے والے زیادہ فائدے میں رہیں گے۔ اپنے دروازوں پر کشتی گھاٹ بنا کر ان کا تجارتی استعمال کریں گے لیکن ان کے دروازے پر شیر اور بکری کے ایک گھاٹ پر پانی پینے کے محاورے پر عمل نہ ہو سکے گا کیونکہ ایسا کرنے کی صورت میں گھاٹ کے مالکان گھاٹے میں رہیں گے۔ آبی شاہراہ کے اطراف میں حفاظتی دیوار پر خوشبودار پھولوں کے گملے رکھنے ضروری ہوں گے ورنہ رہائشی عمارتوں سے بذریعہ نالی بہہ کر آنے والا گند آب دوران سفر مسافروں کی قوت شامّہ کو متاثر کرتا ہوا بوئے بَد کو براہ ناک، انسان کی جملہ حسیّات تک پہنچاکر دماغی سوزش اور حلق میں جلن کا باعث بنے گا۔

کراچی اور وینس میں خاصی حد تک معاشرتی و ثقافتی مماثلت بھی پائی جاتی ہے۔ پرانے شہر کی زیادہ تر عمارتیں رومن فن تعمیر کا نمونہ ہیں جبکہ مجوزہ آبی شاہراہ کے کنارے بنی ہوئی ہر عمارت وینس کے ڈوجے پیلس، برنارڈ محل، سینی محل اور لیڈو قمارخانہ کی ہم پلہ ہے ۔ کراچی کی طول و طویل شاہراہ فیصل وینس کی سانتا ماریا کا اسم ثانی بنائی جاسکتی ہے جبکہ آبی شاہراہ کی اندرونی سڑکیں مرسیریا اسٹریٹ سے کسی صورت کم نہیں ہیں۔ ہماری رسوم و رواج، عادات و خصائل پر عیسائی طرز معاشرت، تہذیب و تمدن اس حد تک غلبہ پا چکی ہے کہ اہل وینس نے تو سان مارکو چوک پر سینٹ مارک کا کلیسا تعمیر کرکے اسکندریہ میں مدفون آنجہانی سینٹ مارک کے جسد کو وینس لا کر اس کلیسا میں دفنانے کے بعد اسے رومن تہذیب میں اَمرکردیا تھا لیکن ماہ و سال کی بات ہے کہ ہم اتنے روشن خیال ہوجائیں گے کہ مذکورہ عیسائی سینٹ پر عقیدت کے پھول نچھاور کرنے کیلئے کراچی میں ہر جگہ سینٹ مارک کلیسا اور سان مارکو چوک بن جائے گا۔

جغرافیائی ہم آہنگی سے الگ ہٹ کر دیکھا جائے تو اہل وینس اورکراچی کے باسیوں کی ذہنی سطح میں زیادہ فرق نہیں ہے۔ وہاں پر مشہور چوراہوں کی سیڑھیوں پر بے فکرے نوجوان آتی جاتی خواتین پر آوازیں کستے ہیں جبکہ بوڑھے اطالوی ہرگزرنے والی سیاح عورت کو ہیٹ اٹھا اٹھا کر سلام کرتے ہیں۔ ہمارے شہر کی ہر تفریح گاہ کی سیڑھیاں ایسے بوڑھے اور نوجوانوں سے بھری ملیں گی بلکہ ان میں سے اکثر تو اظہار لاتعلقی کو تعلقات میں بدلنے کے نسخہ کیمیا رکھتے ہیں۔امریکی صدر جارج والکر بش کی شروع کی گئی یکطرفہ کروسیڈ وار کے بعد جہاں عالمی پیمانے پر جغرافیائی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں، وہیں ہمارے شہر کی تہذیب و ثقافت میں بھونچال برپا ہوگیا ہے۔ یورپی و امریکی اقوام کی نقّالی کو ہم میں سے بیشتر نے اپنی شخصیت کا جزو لازم بنا لیا ہے۔ گھر کے چولہوں میں قدرتی گیس کے بے جا اصراف سے بچنے کیلئے اکثر گھرانے لنچ اور ڈنر باہر کرنے کو ترجیح دیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ کراچی کے پوش علاقوں کے علاوہ مفلوک الحال علاقوں کی شاہراہوں پربھی فوڈ اسٹریٹس بن گئی ہیں اور فٹ پاتھ ریستوران قائم ہوگئے ہیں جہاں ساختہ و خود ساختہ برگرحضرات و خواتین یورپی و ایشیائی خوراک کو تفریحی انداز میں حلق سے اتارنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کراچی کے وینس ثانی بننے کے بعد مقبول آبی شاہراہوں پر لا اینجلو طرز کے قہوہ خانے اور واٹر اسٹریٹ ریسٹورانٹس وجود میں آجائیں گے جہاں ہمارے معاشرے کے بے فکرے لوگ گرینڈ کینال ٹو پر بنے ہوئے ریستورانوں میں خوش خوراکی و شب بیداری کیا کریں گے۔

پورا وینس 115جزائر پر مشتمل ہے جو باہمی طور سے 160 نہروں اور 400 محرابی پلوں کے ذریعے منسلک ہیں لیکن سان مارکو چوک کے پاس واقع آہوں کا پل دنیا بھر میں مشہور ہے۔ اس کی وجہ شہرت نہر کے کنارے بنی ہوئی جیل کی عمارت اوردوسرے کنارے پر واقع پھانسی گھاٹ کو آپس میں ملانے والا قدیم پل ہے۔ رومن عہد میں سزائے موت پر عملدرآمد کیلئے قیدیوں کو جیل کی عمارت سے پھانسی گھاٹ تک اس پل پر سے لے جایا جاتا تھا جو آنے والی موت کے خوف سے یہاں سے روتے اور سسکتے ہوئے گزرتے تھے جس کی وجہ سے اس پل کا نام ’’آہوں کا پل‘‘ پڑگیا۔ ہمارے کراچی میں آہوں کے پلوں کی بہتات ہے۔ یہاں پر بنی ہر بالائی گزرگاہ کو آہوں کے پل کا نام دیا جاسکتا ہے کیونکہ قانون کی مجہول عملداری اور اس کا اطلاق غیر مراعات یافتہ طبقے اور شرفاء تک محدود ہونے کی وجہ سے قانون شکن عناصر اور دہشت گردوں کے ہاتھوں کسی بھی شخص کی جان و مال محفوظ نہیں اور متذکرہ عناصر ہر شاہراہ، پیڈسٹیرین برج اور فلائی اوور پل پر شکارکیلئے گھات لگائے بیٹھے ہوتے ہیں اور ان کے ہاتھوں جان و مال گنوانے والے عوام کیلئے یہ پل آہ و بکا کا باعث بن کر ’’آہوں کے پل‘‘ اور پلوں کی دیواریں، ’’دیوارگریہ‘‘ بن جاتی ہیں۔

وینس کے ہر ریسٹورنٹ میں آرکسٹرا موجود ہوتا ہے جو شائقین کی فرمائش پرگٹار اور وائلن پر یورپ کی مقبول عام دھنیں پیش کرتا ہے جن میں سے عام طور لوگ ’’زوربادی گریگ‘‘ یا ’’اریوی ڈاچی روما‘‘ پسند کرتے ہیں۔ آخرالذکر کا لغوی ترجمہ ’’روم سے جدائی ‘‘ کی دُھن ہے۔ نظریہ پاکستان سے ہماری نئی نسل کی عدم شناسائی اور جذبہ حب الوطنی مفقود ہونے کے باعث ہمارے خیال میں یہاں کے ریستورانوں میں بیٹھنے والے لوگ موسیقاروں سے ’’اریوی ڈاچی پاکی‘‘ یعنی پاکستان سے جدائی کی دُھن زیادہ ذوق و شوق سے سنیں گے۔

وینس میں سفر آخرت بھی بہت حسین ہوتا ہے۔ سجے سجائے اور پھولوں سے لدے ہوئے گنڈولوں میں میّت کا جلوس سطح آب پر خراماں خراماں، معطر معطر سفر کرتا ہوا انتہائی تزک و احتشام کے ساتھ سان مثل کے قبرستان تک پہنچتا ہے۔ ہمارے یہاں کئی قبرستان سان مثل کے قبرستان کی نسبت کافی بہتر ہیں لیکن ان تک پہنچنے کیلئے میت اور شرکائے میت کو چھکڑا میت گاڑیوں میں ٹوٹی پھوٹی سڑکوں پر پُرصعوبت سفر طے کرنا پڑتا ہے۔ ٹھیکے پر بنوائی گئی کول تار کی سڑکوں کا جھنجھٹ ختم ہونے کے بعد ہمارے مرحومین بھی اپنے آخری دنیاوی سفر کو ہچکولوں اور دھچکوں کی بجائے سجے ہوئے گنڈولوں میں پُرسکون طور پر لیٹ کر طے کیا کریں گے اور ان سے ہمیشہ کیلئے جدا ہونے والے اقرباء بھی ان کے سفر آخرت کو اپنے لئے دنیاوی عذاب سمجھنے کے بجائے شریک میت ہونا باعث افتخار سمجھا کریں گے۔ ہمیں یقین ہے کہ اتنی مماثلاتی توجیہات بیان کرنے کے بعد ہمارے ارباب و اختیارات زمینی حقائق کی اصطلاح کو سامنے رکھتے ہوئے کراچی کو وینس کا جڑواں شہر قرار دینے میں کوئی تساہل نہیں برتیں گے بلکہ اسے وینس ثانی کا لازوال نام دے کر اس کی بین الاقوامی قدرو منزلت میں اضافہ کریں گے۔


 

Rafi Abbasi
About the Author: Rafi Abbasi Read More Articles by Rafi Abbasi: 213 Articles with 223966 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.