توہین مذہب ۔۔؟

آج میرا دل اُداس اور غم زدہ ہے ،آنکھوں میں اشکوں کا ایک نہ تھمنے والا سمندر ہے جو بس بہہ جاناچاہتا ہے ۔میں آلِ رسول ؐ ہوں ،میں آل علی ؓ ہوں ،میں اپنے آقا ؐ کا غلام ہوں ۔میں اپنے آقاﷺسے شرمندہ ہوں ،میں ایک کمزور انسان اور ایک ایسا مسلمان ہوں کہ جو ظالم کا ہاتھ نہیں روک سکتا ۔سسکتی انسانیت کو بچا نہیں سکتا ۔میرے گرد عقل و شعور سے پیدل نابیناؤں کا ایک ہجوم ہے ۔جسے انسان دکھائی دیتے ہیں، نہ انسانیت پر رحم آتا ہے ۔یہ ان مسلمانوں کا ہجوم ہے کہ جن کے آقا’’رحمت العالمین ‘‘تھے اور ہیں ،یعنی کافر و مسلم کی تفریق کے بناء رحمت حق تھے ۔آج میرا جی چاہتا ہے کہ مدینہ منورہ جاؤں،اپنے آقاﷺ کے روضے پر جا کر حاضری دوں ۔ان جالیوں سے لپٹ جاؤں اور گڑگڑا کر معافی مانگوں کہ اے میرے آقا ؐ ! میں آپ ؐ کامجرم ہوں ،میں ایک چھوٹی سے ریاست مدینہ نامی ایک ملک (پاکستان)میں رہتا ہوں ،اور تیری دنیا میں ،میں کسی ایک انسان کو بھی ظلم و زیادتی سے نہ بچا سکا ۔میں جانتا ہوں ،بلکہ مجھے یقین ہے کہ اگر میں کسی غیر مسلم کو کسی ظالم سے چھڑانے کی سعی کروں گاتو درندوں اور وحشیوں کا ایک ہجوم مظلوم کے ساتھ مجھے میں جلا ڈالے گا ۔مجھے بھی توہین مذہب کا الزام لگا کر مار ڈالے گا ۔اور ہماری یہ سوچ و فکر ہے کہ ہم بناء تصدیق قانون ہاتھ میں لے لیتے ہیں اور ہجوم میں اپنی دشمنیاں نکالنے کیلئے مذہب کی چھتری تان لیتے ہیں ۔

بحیثیت مسلمان کسی گناہگار یا بے گناہ پر ظلم ڈھاتے ہوئے ہم اپنے پیارے آقاﷺ کی اس حدیث مبارکہ کو بھی بھول جاتے ہیں کہ آپ ؐ نے فرمایا ’’مسلمان وہ ہے کہ جس کے ہاتھ اور زبان سے کسی دوسرے کو ایزا نہ پہنچے ‘‘۔اس ایک حدیث میں ہمارے پیارے نبی کریم ﷺ کا ایک بڑ ا پیغام ہے ۔اور اس پیغام میں ’’کسی دوسرے کو ایزا نہ پہنچے ‘‘کا مطلب یہ ہے کہ کوئی مسلم ہویا غیر مسلم کسی کو تکلیف نہ پہنچے ، اگر ہم اس پر عمل کریں تو کہیں کوئی مذہبی تفریق پیدا ہو اور نہ ہمارے ہاتھوں کسی کی جان جائے ۔

گذشتہ روز سیالکوٹ میں ایک سرلنکن مینجر پراتھنا کماراPriyantha Kumaraکو اس کی فیکٹری کے اندر جس طرح تشدد کا نشانہ بنایا گیا ،اور اسے قتل کردیا گیا بعد ازاں اس کی لاش کو گھسیٹ کر جی ٹی روڈ پر لایا گیا اور سب کے سامنے اُسے آگ لگا دی گئی ۔المیہ یہ ہے کہ بیسیوں لوگ اس وقت موجود تھے لیکن کسی کو جرات نہ ہوئی کہ اسے بچاتے ،البتہ ہر دوسرا بندہ اس ظلم و زیادتی کی اپنے موبائل فون سے وڈیو بنانے میں لگا رہا ،تاکہ اسے سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرکے زیادتی کی نشاندہی کرسکے اور ہاہاہا کار کرے ۔

اس واقعہ کے پس منظر میں حقائق کیا ہے ۔۔؟ اس بارے قبل از وقت کچھ نہیں کہا جا سکتا ۔اب تک کی اطلاعات کے مطابق سیالکوٹ میں بیسیوں غیر ملکی باشندے فیکٹریز میں اہم عہدوں پر کام کر رہے ہیں ۔ان لوگوں کی صلاحیتوں سے استعفادہ کرنے کے لئے انہیں دیگر ممالک سے پاکستان لایا گیا ہے ۔ان کی وجہ سے ہماری سیالکوٹ میں واقع انڈسٹری اپنی پیداوار میں وسعت پا رہی ہے ۔اور بہت زیادہ ایکسپورٹس ہو رہی ہیں ۔ملک کو زرمبادلہ کی صورت کثیر رقم مل رہی ہے ۔شنیدہے کہ فیکٹری کی صفائی اور وائٹ واش کیلئے جابجا لگے ہوئے پوسٹر وغیرہ ہٹانے کی ذمہ داری سری لنکن منیجر پراتھنا کماراPriyantha Kumaraکو سونپی گئی تھی جس نے تما م پوسٹر ہٹانے کا کام شروع کروادیا ،اسی اثناء میں ایک مذہبی گروپ کے پوسٹر کو اتارگیا جس پر مشتعل ہو کر ملازمین نے منیجرسے جھگڑا شروع کر دیا ۔جنہوں نے اس بات کو اتنا بڑھاوا دیا کہ اس میں دیگر ملازمین بھی شریک ہو گئے ۔منیجر پر اسقدر تشدد کیا گیا کہ وہ جان سے ہی ہاتھ دھو بیٹھا ۔۔مشتعل افراد نے اس پر بھی اکتفا نہیں کیا بلکہ اسے مرنے کے بعد گھسیٹ کر جی ٹی روڈ پر لایا گیا اور اس کی لاش کو ہی جلا ڈالا ۔المیہ یہ ہے کہ مشتعل افراد کے طرزعمل کے سبب فیکٹری مالک نے بھی اپنے سرلنکن منیجر کو بچانے کی تدبیر نہ کی ۔اس واقعہ میں کافی وقت لگا ۔افسوسناک بات یہ ہے کہ اس دوران پولیس سمیت کسی ادارے کے افراداس منیجر کو بچانے کے لیے نہ آئے۔موقع پر موجود پولیس کے جوان بھی بے بسی سے سارا تماشا دیکھتے رہے ۔ہم سری لنکن شہری کے بیہمانہ قتل پر غم زدہ ہیں ،اسکی بیوہ اوربچے سے شرمندہ ہیں کہ ہم اپنے پردیسی مہمان کو تحفظ فراہم نہ کر سکے ۔واقعہ ایک پوسٹر اتارنے کی بناء پر ہوا،لیکن ایک سازش کے تحت اسے ایک مذہبی تحریک سے جوڑنے کی کوشش کی گئی ،لیکن قائدین تحریک نے اس سے مکمل لاتعلقی کا اعلان کیا ہے مجرمان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے ۔

ماضی میں اسی طرز کا ایک واقعہ اسی سیالکوٹ شہر میں اگست 2010 میں ہوا تھا جس میں درجنوں افراد نے 18 سالہ حافظ مغیث سجاد اور 15 سالہ منیب سجاد کو 8 پولیس اہلکاروں کی موجودگی میں تشدد کر کے قتل کر دیا تھا۔اور مشتعل ہجوم نے دونوں لاشیں چوک میں الٹی لٹکا دی تھیں ، اس کیس میں گرفتار ملزمان کو سزا سنائی گئی تھی لیکن بعدازاں انہیں ریلیف دیا گیا تھا ۔اس وقت بھی حکومت ، عدلیہ اور پولیس اگر ظالموں کو نشان عبرت بنانے میں اپنا کردار ادا کرتی تو دوبارہ یہ واقعہ نہ ہوتا ۔اب بھی حسب روایت وزیر اعظم عمران خان نے واقعہ کا سخت نوٹس لیا ہے ،اور اس کی تحقیقات کا حکم دیتے ہوئے یقین دلایا ہے کہ ظالموں کو کیفر کردار تک پہنچائیں گے ۔اسی طرح وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے بھی ایسے ہی جذبات کا اظہار کیا ہے ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ سانحہ سیالکوٹ کی غیر جانبدانہ تحقیقات کروا کر حقائق قوم کے سامنے لائے جائیں اور واقعہ میں ملوث افراد کو بھی اسی طرح نشان عبرت بنا یا جائے جس طرح ان لوگوں نے سربازار ایک غیر ملکی کے ساتھ ظلم کیا ۔سیالکوٹ ایک بڑا کاروباری حب ہے ۔ جو ملکی معیشت کیلئے بڑی اہمیت کا حامل ہے ،سیا لکوٹ میں گذشتہ کچھ عرصے سے باصلاحیت غیرملکیوں کومختلف فیکٹریز میں بھاری مشاہرے پر ملازمتیں دئیے جانے کا سلسلہ شروع کیا گیا ،تاکہ ہمارے کھیلوں کے سامان ، سرجیکل آلات سمیت دیگر انڈسٹری ترقی کرے ،روزگار کے مواقع ملیں ۔سری لنکن منیجر کے قتل کے بعد سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اب وہاں کام کرنے والے غیر ملکی سیالکوٹ میں اپنا کام جاری رکھیں گے یا عدم تحفظ کے اس ماحول میں واپس اپنے اپنے ملکوں میں چلے جائیں گے ۔بس ایک ہی دُعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ اپنے حبیب نبی رحمت ﷺ کے صدقے ہمیں ہدایت دے ۔ہمیں انسانوں کی عزت و تکریم کا شعور عطا کرے ۔۔ہمارا کردار و عمل ایسا ہو جائے کہ کافر بھی بے اختیار کہہ اٹھیں کہ یہ امتی اگر اتنا اخلاق و کردار والا ہے تو یہ جس آقا ﷺ کا امتی ہے ،وہ کتنا عظیم ہو گا ۔اس بارے کوئی دو رائے نہیں ہو سکتیں کہ ہمارے آقا کل عالم ،کل انسانیت کے لئے رحمت تھے اور رہیں گے ۔کاش! ہم لوگ بھی تذلیل انسانیت کو چھوڑ کر بلا تفریق رنگ و نسل دوسروں کے لیے رحمت بن جائیں ۔جس دن ہم بھی انسانوں اور حیوانوں کے لئے ’’ زحمت ‘‘کی بجائے ’’رحمت ‘‘ بن جائیں گے ۔اُس دن یقینا ہمارے آقا ﷺکی روح بھی مسرت و انبساط سے جھوم اٹھے گی ۔اوررب کائنات بھی ہم پر رحمتوں کی بارش برسا دیں گے ۔ہمیں چاہئے کہ ہم اپنے کردارو عمل سے دنیا کو ایسا بن کر دکھائیں کہ لوگ ہمارے درمیان رہ کر خود کو محفوظ سمجھیں اور جوق درجوق اسلام کی پناہ میں آنے کی آرزو کریں ۔ دنیا ہمیں انتہاء پسنداور دہشت گرد کے نام سے یاد کرتی ہے ، اورہم اپنے کاموں سے اس تاثر کو سچ ثابت کر دیتے ہیں۔ہمیں چاہئے کہ ہم اپنی سوچ و فکر میں تبدیلی لائیں اور اسلام کے امن وسلامتی کے پیغام کوعام کرنے میں اپنااپناکردار ادا کریں ۔بدنصیب ہیں وہ لوگ جو جنت کی آرزو میں انسانیت کی تذلیل کرکے اپنے لیے دوزخ کا سامان کرنے میں لگے ہیں۔اﷲ تعالیٰ سب کو ہدایت دے۔ آمین۔
 

syed arif saeed bukhari
About the Author: syed arif saeed bukhari Read More Articles by syed arif saeed bukhari: 126 Articles with 130341 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.