سیالکوٹ میں غیر ملکی کا قتل

سیالکوٹ میں گیارہ سال پہلے اگست2010میں دو سگے بھائی جھوٹے الزام میں مشتعل ہجوم کے ہاتھوں بے دردی سے قتل کر دیئے گئے۔ سپریم کورٹ میں یہ ثابت ہوا کہ مغیث اور منیب پر کسی زاتی دشمنی پر ڈاکو کا الزام لگایا گیا۔وہ ڈاکو نہیں تھے۔ جرم ثابت ہونے پر سات افراد کو پھانسی کی سزا اور چھ کو عمر قید سنائی گئی۔ پھر چار سال بعدپھانسی کی سزا کو عمر قید میں بدل دیا گیا۔ ہجوم کو مشتعل کیا گیا۔ پولیس تماشہ دیکھتی رہی۔ ہجوم نے لاشوں کو لٹکادیا۔ دونوں نو عمر بھائیوں کے والد سجاد بٹ انصاف کو دیکھ رہے ہیں مگر انہیں اب اولاد کوئی واپس لا کر نہیں دے سکتا۔ عوام نے بغیر کسی تحقیق اور تفتیش کے انہیں ڈاکو سمجھ لیا۔ اگر وہ ڈاکو بھی تھے پھر بھی قانون میں ہر جرم کی سزا ہے۔ کوئی شہری یا وردی پوش، کوئی سرکاری یا غیر سرکاری افسر، اہلکارقانون کو اپنے ہاتھ میں نہیں لے سکتا۔ جرم چاہے کتنا ہی سنگین ہو ۔ ملک کی عدالتیں ہیں۔ کوئی فرد یا ہجوم من مانی نہیں کر سکتا۔

سیالکوٹ میں گیارہ سال بعد ایک غیر ملکی کا لرزہ خیز قتل ہوا ہے۔ اسے ہجوم نے تشدد کر کے قتل کر دیا۔ اس کی لاش کو آگ لگا دی۔ اس طرح کی درندگی کی دین اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ۔ اسلام کے نام پر اسلام کو بدنام نہیں کیا جا سکتا۔ کوئی تحقیق نہیں ہوئی کہ اس فیکٹری منیجر نے پوسٹرز کی کس طرح توہین کی جن پر حضرت محمدﷺکا مبارک نام درج تھا۔ اگر کسی نے توہین کی بھی ہے تو اس کی سزا کوئی ہجوم نہیں دے سکتا۔ اس کے لئے بھی قانون موجود ہیں۔ عدالتیں بھی ہیں۔ واقعہ سیالکوٹ کے وزیرآباد روڈ پر پیش آیا جہاں نجی فیکٹریوں کے ورکرز نے ایک فیکٹری کے ایکسپورٹ مینیجر پر حملہ کر کے اسے قتل کیا اور اس کے بعد آگ لگادی۔ فیکٹری کے ملازمین نے مقتول پراس پوسٹرکی بے حرمتی کرنے کا الزام عائد کیا جس پر پیغمبراسلام حضرت محمدﷺ کا نام درج تھا۔ منیجر کو فیکٹری کے اندر تشدد کانشانہ بنایا گیا۔ڈی پی او عمر سعید ملک کا کہناہے کہ پولیس ہجوم کی جانب سے سری لنکن شہری کو قتل کرنے کی اصل وجوہات جاننے کی کوشش کر ررہی ہے اور لاش کی پوسٹ مارٹم ہو رہی ہے۔

اسلام نے کفار حملہ آور دشمن کو زیر کرنے کے بعد اسے قتل کرنے یا اس پر تشدد کرنے کی اجازت نہیں دی ہے۔ اگر دشمن جنگ کے دوران مارا جائے تو اس کی لاش پر تشددیا مثلہ کرنا جرم قرار دیا گیا ہے۔ یہ دین کی تعلیم ہے۔ مگر سیالکوٹ میں جو ہوا، ایسا محسوس ہوا کہ یہ سیالکوٹ نہیں بلکہ انڈیا کا کوئی علاقہ ہے جہاں شدت پسند ہندو کسی مسلمان کی ہڈی پسلی توڑنے کے بعد اس کی لاش کو آگ لگا دیتے ہیں یا پھر زندہ جلا دیتے ہیں۔ یہ درندگی اور وحشیانہ کام کوئی مسلمان کیسے کر سکتا ہے۔ اس کا اسلام میں کوئی تصور نہیں ہے ۔ لہٰذا اس قتل کو اسلام سے جوڑنا بالکل بھی مناسب نہیں۔

سری لنکن شہری کو قتل کرنا، اس کی ویڈیوز بنانا، ویڈیوز میں ہجوم کا نعرے بازی کرنا ایک دلدوز واقعہ ہے۔سیالکوٹ کے ڈسٹرکٹ پولیس افسر (ڈی پی او) عمر سعید ملک نے تصدیق کی کہ مقتول کی شناخت پریانتھا کمارا کے نام سے ہوئی ہے۔ پاکستانی قوم، پاکستان کے تمام مکاتب فکر کے علما، مشائخ اور تمام مذاہب کے ماننے والے اس طرح کے واقعہ کو جائز نہیں سمجھ سکتے۔ اس حرکت نے اسلام کو بھی بدنام کیا ہے اور ایسا کرنے والوں نے پاکستان کو بھی بدنام کیا ہے۔ اسلام امن و سلامتی، محبت اور روادری ، عفو و درگزرکا دین ہے۔ خدانخواستہ اگر توہین ناموس رسالت ہویا توہین مذہب ہوتو ملکی قوانین موجود ہیں۔ قرآن پاک، محمدرسول اﷲ ﷺ کے احکامات اور رسول اکرمﷺکی سیرت طیبہ ایسے اشتعال کی ہر گز اجازت نہیں دیتی۔ انڈیا، برما یا اسرائیل میں مشتعل ہجوم کے ہاتھوں مسلمان بے دردی سے قتل کئے جاتے ہیں۔ مسلمان اور غیر مسلم میں نمایاں فرق ہے۔

سری لنکا کے عوام اور بالخصوص مقتول کے اہل خانہ اس وقت گہرے دکھ اور صدمے سے دوچار ہوں گے۔ بھارت میں اور عالم کفر میں اس کا چرچا ہے۔ اس معاملے کو خوب اچھالا جا رہا ہے۔ یہ مکار لوگ ہیں جنھیں مسلمانوں کا قتل عام کبھی نظر نہیں آیا۔ مگر سیالکوٹ کا واقعہ ان کے لئے اہم بن گیا۔ مگر ہم نے انہیں پروپگنڈہ کرنے کا موقعہ فراہم کیا ہے۔ ہم خود اسلام کا چہرے مسخ کرنے کے ذمہ دار ہیں۔تا ہم روشن خٰالی کے نام لوگ اسلام کو مزیدبدنام کر رہے ہیں۔ پولیس نے سی سی ٹی وی فوٹیج، وائرل ویڈیوز کی مدد سے لا تعداد افراد کو گرفتار کیا ہے۔ان کے خلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ سیون اے ٹی اے کے تحت ایف آئی آردرج کی جا رہی ہیں۔بلا شبہ معاملہ حساس نوعیت کا اور دلخراش ہے۔ریجنل پولیس افسر اور گجرانوالا کمشنر جائے وقوع پر موجود ہیں۔ آئی جی پنجاب نے 48 گھنٹوں کے اندر واقعے کی رپورٹ جمع کرانے کے احکامات جاری کئے۔وہ خود سارے معاملہ کی نگرانی کر رہے ہیں۔دیگر ملزمان کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جارہے ہیں۔

سری لنکا کی وزارت خارجہ نے بھی ایک بیان جاری کیا ہے کہ انہیں پاکستانی حکام سے تفتیش اور انصاف کو یقینی بنانے کے لیے مطلوبہ کارروائی کرنے کی توقع ہے۔سری لنکن وزارت خارجہ کے ترجمان سوگیشوارا گونارتنا کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ اسلام آباد میں سری لنکا کے ہائی کمیشن واقعے کی تفصیلات کی تصدیق کے لیے پاکستانی حکام سے رابطے میں ہے۔سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ سیکڑوں افراد کی موجود گی میں منیجر مارا گیا ۔ ویڈیوز میں ہجوم کو نعرے بازی کرتے ہوئے بھی سنا جاسکتا ہے۔جائے وقوع پر جلتی ہوئی نعش کے ارد گرد زیادہ تر افراد اپنے موبائل فون پر ویڈیوز بناتے ہوئے نظر آئے۔ نامعلوم افراد کے خلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ کی سیکشن 7 اور 431، 427، 149، 147، 297، 201 اور 302 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ ڈی پی او سیالکوٹ کی سربراہی میں تفتیش کے لیے 10 ٹیمیں سی سی ٹی وی فوٹیج کی مدد سے ملزمان کی شناخت کررہی ہیں اور ان کی گرفتاری کے لیے چھاپے ماررہی ہیں۔

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) نے بھی ایک بیان جاری کیا ہے کہ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ سیالکوٹ میں ہجوم کی جانب سے بیگناہ قتل قابل مذمت اور شرم ناک ہے، اس طرح کا ماورائے قانون قتل کسی قیمت معاف نہیں کیا جاسکتا ہے۔ آرمی چیف نے اس وحشت ناک واقعے کے ملزمان کی گرفتاری کے لئے سول انتظامیہ کی ہر ممکن مدد کرنے کی ہدایت کردی۔ کے تحت کارروائی کی جائے۔ سیالکوٹ میں 2010 سے ملک بھر میں حیرت اور صدمے کی لہر دوڑ گئی تھی۔اس واقعہ نے بھی ایسا ہی کیا ہے۔امید ہے کہ سری لنکن شہری کے قتل کی تمام پہلوؤں سے تحقیقات کی جائے گی کہ بعض اداروں میں موجود رسہ کشی اور زاتی دشمنی یا عناد تو اس کی وجہ نہیں بنی ہے۔مزید یہ کہ مشتعل ہجوم کے جرائم کسی صورت قابل قبول نہ کئے جائیں کیونکہ جرائم سے نمٹنے کے لیے ریاستی قوانین موجود ہیں۔
 

Ghulamullah Kyani
About the Author: Ghulamullah Kyani Read More Articles by Ghulamullah Kyani: 710 Articles with 555704 views Simple and Clear, Friendly, Love humanity....Helpful...Trying to become a responsible citizen..... View More