آج 6؍دسمبر ہے۔ 29؍ سال قبل اسی دن بابری مسجد کو شہید
کیا گیا تھا۔ اس دوران کوئی ایک بھی دن ایسا نہیں گزرا جب مسلمانانِ عالم
نے اپنی اس مسجد کو بھلا یا ہو ۔یہ دن بابری مسجد کی ازسرِ نوتعمیر تک یاد
رکھا جائے گا۔ مسجد کی تعمیر کو جو لوگ ناممکن سمجھتے ہیں وہ آیہ صوفیہ کی
مسجد کے بارے میں بھی یہی خیال کرتے تھے لیکن انسانی تاریخ شاہد ہے کہ دنیا
میں وہ سب وقوع پذیرہوجاتا ہے جو انسانوں کے وہم و گمان سے پرے ہو۔ اس دنیا
کو چلانے والے کوئی انسان نہیں بلکہ وہ خدائے ذوالجلال ہے جس کی بابت
ارشادِ قرآنی ہے:’’اللہ کے لئے زمین و آسمان اور ان کے درمیان کی کل حکومت
ہے اور وہ ہر شے پر قدرت رکھنے والا ہے‘‘۔ اسی کے اذن سے امریکہ جیسی سپر
پاور کو اپنا بوریہ بستر لپیٹ کر افغانستان سے فرار ہونا پڑا کیونکہ فرمانِ
ربانی ہے:’’بےشک تمہارا پروردگار جو چاہتا ہے کرگزرتا ہے‘‘۔ اگر ایسا نہ
ہوتا تو کون سوچ سکتا تھا کہ ایک دن بے خانماں طالبان اس شان کے ساتھ
دوبارہ اقتدار پر فائز ہوجائیں گے۔ اس لیے نتائج کی پروا کیے بغیر اہل
ایمان کو اپنا فرض ِ منصبی ادا کرتے رہنا چاہیے۔
پچھلے 29؍ سالوں میں ہندوستان کے اندر جملہ سات قومی انتخابات ہوئے جن میں
سے پانچ میں بی جے پی سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری اور دو مرتبہ کانگریس کا
فال کھلا۔ پہلا انتخاب 1996 میں ہوا بی جے پی کی حکومت تو بنی 13دن بعد گر
گئی ۔ اس کے بعد دیوے گوڑا اور اندر کمار گجرال کی سرکار دو سال چلی ۔آگے
چل کر اٹل بہاری واجپائی نے دو مرتبہ انتخاب جیتااور 6 سال حکومت کی
۔نریندر مودی نے بھی دو بار انتخاب جیت کر 7 سال مکمل کرلیے یعنی کل 13سال
زعفرانی حکومت رہی ۔ درمیان میں کانگریس نے دو مرتبہ انتخاب جیت کر 10 سال
سرکار چلائی۔ اس پورے عرصے میں کبھی بھی بی جے پی کو رام مندر کی یاد نہیں
آئی۔ بی جے پی نے رام مندر کے بجائے کارگل ، چمکتا ہندوستان ، بدعنوانی،
اچھے دن اور سرجیکل اسٹرائیک کے سہارے انتخاب لڑا۔ اترپردیش میں بھی کئی
انتخابات ہوئے لیکن بی جے پی نے رام مندر کا سہارا نہیں لیا، اس کے باوجود
کلیان سنگھ، رام پرکاش گپتا اور راجناتھ سنگھ تقریباًساڑھے چار سال وزیر
اعلیٰ رہے۔ ۲۰۱۷ میں یوگی کو وزیر اعلیٰ بنانے والی کامیابی بھی رام مندر
کے بغیر ملی ۔
۲۰۱۹ میں قومی انتخاب کے بعد بی جے پی کو احساس ہوگیا کہ اب سارے حربے
پرانے ہوگئے اس لیے آگےان سے کام نہیں چلے گا،اس لیے بابری مسجد سے متعلق
سپریم کورٹ میں ایک متنازع فیصلہ کروا کر رام مندر کا راگ چھیڑ دیا گیا۔
مگر اس کی تعمیر میں ہونے والی بدعنوانی کے سبب اب ان لوگوں کو رام مندر کا
نام لینے میں شرم میں محسوس ہوتی ہے۔ ویسے بھی تخریب کار ذہنیت کے حامل
زعفرانیوں کے نزدیک رام مندر کی تعمیر میں بھی کوئی کشش نہیں ہے اس لیے
پچھلے سال سے کاشی کی گیان واپی مسجد اور متھرا کی عید گاہ کے مسائل پھر
چھیڑ دئیے گئے تاکہ وقت ضرورت کام آئے ۔ اتر پردیش میں انتخاب جیسے جیسے
قریب آرہا ہے اور بی جے پی کو اپنی ہار کے آثار دکھائی دے رہے ہیں ۔ اس
لیے متھرا اور کاشی کی اہمیت میں اضافہ ہورہا ہے ۔ یہی وجہ ہے کبھی یوگی
کہتے ہیں کہ اب ہندووں کو اپنی عبادتگاہوں کے لیےکشمکش کرنے کی ضرورت نہیں
پڑے گی تو کبھی کہاجاتاہے اب کارسیوکوں پر گولی نہیں چلے گی ۔ اکھلیش کے
جلسوں میں امڈنے والی بھیڑ کو دیکھ کر نائب وزیر اعلیٰ سوال کرتے ہیں کہ
انہیں متھرا میں کرشن مندر چاہیے یا نہیں؟ یہ اس حقیقت کا بلا واسطہ اعتراف
ہے کہ اپنی ممکنہ شکست سے گھبرا کر بی جے پی نے بحالت مجبوری وہی پرانا
حربہ آزمانہ شروع کردیا ہے جو ہرانتخا ب میں ناکام رہا ہے۔ بی جے پی کی
مشکل پر غالب کےمشہور شعر معمولی ترمیم کے ساتھ صادق آتاہے؎
سیاست میں نہیں ہے فرق جینے اور مرنے کا
اسی کو دیکھ کر جیتے ہیں جس مندر پہ دم نکلے
کسان کےقانون کی واپسی سے بھی جب بات نہیں بنی تو یکم دسمبر کو اترپردیش کے
نائب وزیر اعلیٰ کیشو پرساد موریہ نے ایک ٹویٹ میں لکھا کہ ’’ایودھیا اور
کاشی میں عظیم مندر کی تعمیر جاری ہے، متھرا تیار ہے۔ میں پوچھنا چاہتا ہوں
کہ اپوزیشن پارٹیاں متھرا میں شری کرشنا کے عظیم مندر کی تعمیر کی مخالفت
کرتی ہیں یا حمایت کرتی ہیں۔ اکھلیش کا کہنا ہے کہ میں کرشن کا بھکت ہوں،
رام کا بھکت ہوں، تو بتائیں کہ وہ کرشن کی جائے پیدائش پر مندر بنانا چاہتے
ہیں یا نہیں؟‘‘ اس اشتعال انگیز بیان کے بعد متھرا میں کشیدگی پھیل گئی ۔
اس آگ میں تیل ڈالنے کے لیے اکھل بھارتی ہندو مہاسبھا نے 6؍دسمبر کو متھرا
میں شری کرشن جنم بھومی میں جل ابھیشیک کرنے کا اعلان کردیا نتیجتاًمسجد کے
باہر پی اے سی کی 10؍بٹالین تعینات کرنی پڑی ۔ نمازیوں کو آدھار کارڈ کی
جانچ کے بعد ہی جمعہ کے دن شاہی جامع مسجد میں جانے کی اجازت دی گئی تاکہ
کوئی بھگوا شرپسند نہ گھسنے پائے ۔
25 ستمبر 2020 کوایک مقدمہ دائر کرکے رنجنا اگنی ہوتری کے ساتھ دیگر لوگوں
نے شاہی مسجد عیدگاہ کے معاملے میں ضلع جج وویک سنگھل کی عدالت میں 13.37؍
ایکڑ اراضی پر تعمیر شدہ شاہی مسجد عیدگاہ کو ہٹانے کا مطالبہ کیا ہے۔ اس
طرح ہندو اور مسلمانوں کے درمیان طے پانے والے 54 سال پرانےتصفیہ پر سوالیہ
نشان لگ گیا ہے۔ 1968؍ میں شری کرشن جنم استھان سیوا سنگھ اور شاہی عیدگاہ
مسجد کے منتظمین کے درمیان یہ طے پایا تھا کہ مسجد جتنی زمین میں بنی ہے،
بنی رہےگی۔ عیدگاہ کے سیکریٹری اور وکیل تنویر احمد کے مطابق اگر ڈکری کا
سال 1974؍ سے بھی گنتی کی جائے تو 47؍ سال بعد مقدمہ دائر کیا گیا ہے۔
انہوں نے اس مقدمہ میں کئی قانونی نقائص بیان کیےہیں مثلاً مدعی رنجنا
چترویدی اور دیگر چونکہ اصل ٹرسٹ میں نہیں ہیں، اس لیے مقدمہ دائر کرنے کا
انہیں حق ہی نہیں ہے۔ کورٹ فیس کم جمع کرائی گئی ہے ۔ مخالفین نے ناقص نقشہ
جمع کرایا یا غیر متعلق کاغذات منسلک کردیئےہیں وغیرہ لیکن اگر عدالت کی
آنکھوں پر عقیدت کا پردہ پڑا ہوتویہ سارے دلائل بے معنیٰ ہوجاتے ہیں ۔
یہ عرضی پی وی نرسمہا راؤ سرکارکے ذریعےمنظور کیے جانے والے قانون ’عبادت
گاہ (خصوصی اہتمام) ایکٹ،1991‘ کے بھی خلاف ہے کہ جس کی روُ سے رام جنم
بھومی بابری مسجد تنازعہ کے علاوہ ،15 اگست 1947 تک کی تعمیر شدہ کسی عبادت
گاہ کی صورت حال میں کوئی تبدیلی نہیں کی جائےگی۔ہندوتوا نوازوں نے اس
قانون کو بھی سپریم کورٹ میں چیلنج کررکھا ہے۔ عرضی گزاراس قانون کو
غیرآئینی ہے، کیونکہ یہ عدالتی جائزہ کے حق کو چھینتا ہے، جو کہ آئین
کااہم حصہ ہے لیکن سچ یہ ہے کہ اس سے ان کی ہنگامہ آرائی پر لگام لگتی
ہے۔متھرا میں دائر عرضی میں اسے بلادلیل 1991 ایکٹ سے مستثنیٰ قرار دیا گیا
ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے آئندہ سماعت کو یعنی 11 نومبر کے دن جج صاحب کیا گل
کھلاتے ہیں۔
امسال 9؍ اپریل کو بنارس کے کاشی وشوناتھ احاطے میں واقع تاریخی گیان واپی
مسجد کے معاملے میں وارانسی کے فاسٹ ٹریک کی کورٹ نے احاطے کا آثار قدیمہ
کے ذریعہ سروے کا حکم دے کرنیا تنازع کھڑا کردیا ۔ اس کی وجہ ہندو فریق کا
یہ دعویٰ ہے کہ مسجد کے نیچے 100 ؍فٹ اونچے آدی ویشیشور کے باقیات ہیں نیز
دیواروں پر دیوی دیوتاؤں کی تصاویر ہیں ۔ کورٹ نے سروے کے اخراجات حکومت
کے سر ڈال دئیے۔اس کام کے لیے 5 افراد پر مشتمل کمیٹی میں اقلیتی برادری کے
دو افراد کو بھی شامل کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ یہ فیصلہ بھی ایوان پارلیمان
میں منظور شدہ فیصلے کے خلاف ہے کیونکہ اگر مسجد کی حالت کو بدلا نہیں
جاسکتا تو اس ڈرامہ بازی سے حاصل کیا ہوگا؟ اس بابت مسجد کی انتظامیہ کمیٹی
سے وابستہ سید یاسین کا کہنا ہے کہ وہ فاسٹ ٹریک کورٹ کے فیصلے کو ہائی
کورٹ میں چیلنج کریں گےاورمسجد انتظامیہ سروے ٹیم کو مسجد میں داخل نہیں
ہونے سے روک دے گی۔
گیان واپی مسجد معاملے میں 1991 کے اندر وارانسی کورٹ میں مقدمہ دائر کیا
گیا تھا۔ اس کے بعد مسجد انتظامیہ نے مرکزی حکومت کی جانب سے منظور شدہ
پلیسیزآف ورشپ(اسپیشل پروویزن) ایکٹ 1991 کا حوالہ دے کر ہائی کورٹ میں
اسےچیلنج کردیا تھا۔ الہ آباد ہائی کورٹ نے 1993؍ میں اس پر اسٹے لگا کر
موجودہ صورتحال برقرار رکھنے کا حکم دے دیا تھا اور اس طرح یہ معاملہ ٹھنڈے
بستے میں چلا گیا ۔ فی الحال بی جے پی کو اترپردیش کے اندر شدید عوامی
ناراضی کا سامنا ہے ۔ مہنگائی اور بیروزگاری کے سبب عام لوگوں اور نوجوانوں
کے اندر شدید بے چینی پائی جاتی ہے۔ کورونا کو قابو پانے میں ریاستی اور
مرکزی حکومت کی ناکامی اب بھی عوام بھولے نہیں ہیں۔ اس لیے بی جے پی کے
فرقہ وارانہ منافرت پھیلا کراپنی ناکامی کی جانب سے عوام کی توجہات ہٹانے
کے سوا کوئی چارۂ کار نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رام مندر کے علاوہ کرشن جنم
بھومی اور گیان واپی مسجد کا تنازع کھڑا کیا جارہا ہے۔ بدقسمتی سے اس گندی
سیاست کی قیمت مسلمانوں کو چکانی پڑ رہی ہے ۔ بابری مسجد کی شہادت کے29؍سال
بعد فسطائی عناصرپھر ایک بار کاشی اور متھرا کے مکر کا جال پھیلا رہے ہیں ۔
اس بابت ارشادِ ربانی ہے:’’ اور اسی طرح ہم نے ہر بستی میں وہاں کے رئیسوں
ہی کو جرائم کا مرتکب بنایا تاکہ وه لوگ وہاں فریب کریں۔ اور وه لوگ اپنے
ہی ساتھ فریب کررہے ہیں اور ان کو ذرا خبر نہیں‘‘۔ |