سچا پیار نہ ملا۔۔۔ پر ہم کہاں کے سچے تھے!!!

”اسلام علیکم بھاٸی جان... اگر آپ فارغ ہیں تو ذرا مجھے ایک جگہ بہت ضروری جانا ہے ۔ وہ دراصل کمر درد کی وجہ سے میں آجکل گاڑی نہیں چلا رہی ہوں۔ بس آپ پہنچیں اور میں چند منٹ میں تیار ہو جاتی ہوں“ ۔ یوں اپنی بات مکمل کرتے ہی میں نے فون بند کیا اور جلدی سے تیار ہونے لگی۔ آپ یقیناً سوچ رہیں ہوں گے کہ بھاٸی جان کا جوب تو سن لیتی۔ بات یہ ہے جناب کہ میں جانتی ہوں کہ انہوں نے نہ کبھی انکار کیا تھا جو آج کرتے ۔ پورے دس منٹ کے بعد بھاٸی جان کی گاڑی کا ہارن سناٸی دیا اور میں سمجھ گٸی کہ وہ گیٹ کے باہر میرا انتظار کر رہے ہیں ۔ میں نے جلدی سےاپنا پرس تھاما۔۔۔ تیز تیز قدم اٹھاتے ہوۓ گیٹ کو تالا لگایا اور بھاٸی جان کی گاڑی میں سامنے کی نشست پر جا بیٹھی۔

”السلام عليكم ۔۔۔ بس بھاٸی جان... کیا بتاٶں زندگی کے بیس سال گزر گٸے پر مجال ہے جو آپ کے بہنوٸی کوٸی ذمہ داری لے لیں... مجھ بیچاری کی ایک ٹانگ مشرق میں تو دوسری مغرب میں۔۔۔ پھر بھی اس شخص کع میری قدر نہ آٸی“۔

”ہاں تو پھر جانا کہاں ہے ؟“۔ بھاٸی جان نے میری بات کاٹتے ہوٸے کہا۔ ”ہاں ہاں۔۔۔ وہی بس وہی تو بتانے لگی تھی۔ اممم۔۔۔ہاں۔۔۔ ایم ایم عالم پر لے چلیں ایک چھوٹا ہی سا کام ہے“۔

“تو میں کیا کہہ رہی۔۔۔ بس یہ حال ہو گیا ہے میرا کہ پل کی پل بھول جاتی ہوں ۔ زندگی کے بیس سال اس شخص کے ساتھ کیسے گزارے بس میں جانوں یا میرا رب! اب تو کھانا پکاتے مرچ مصالہ بھول جاتی ہوں۔ اتنے عرصے سے کہہ رہی ہوں کہ ایک خانسامہ رکھ دیجیے مگر مجال ہے جو کان پر جُوں رینگ جاٸے ۔ جس دن بھی میں بات کرتی ہوں تو کہیں گے مجھے کیا معلوم ۔۔۔خود دیکھ لو اور جب کھانا نہیں بنا پاتی تو بس باہر سےکچھ فاسٹ فوڈ ارڈر کر لیتے ہیں اللہ اللہ خیر صلاح ۔“

فاسٹ فوڈ کا ذکر آیا تو بھاٸی جان نے پوچھا,”کچھ کھاٶ گی“۔ میں نے سے جواب دیا,” ابھی تو نہیں، چلو واپسی میں کچھ لے لیں گے۔ ہاں بلکہ بچوں کے لٸے بھی لے چلے گے“۔ اتنے میں ہماری گاڑی ایم ایم عالم روڈ پر حسین چوک کی طرف سے داخل ہوٸی۔ ” ہاں تو بھاٸی جان میری زندگی تو بس۔۔۔“۔

”کہاں جانا ہے؟“ میری بات شروع بھی نہ ہوٸی تھی کہ بھاٸی جان نے میری منزل دریافت کی۔ ”جی جی بس یہیں ۔۔۔قریب میں ۔۔۔ وہ کیا نام ہے۔۔۔ ہاں۔۔۔ وہ مرحوم جنید جمشید کا سٹور ہے نا بس وہیں۔۔۔ بہت ہی بھلا اور نیک انسان تھا۔ اللہ جنت عطا فرماٸے۔ آپ تو جانتے ہیں میں سکول کے زمانے سے ہی مرحوم کی فین تھی۔ جب گاتا تھا تو کیا خوب گایا۔اورجب نعت پڑھی تو کیا دل سوز پڑھی۔۔۔ واہ!

بھاٸی جان نے میری طرف دیکھا اور میری ہاں میں ہاں میلاتے ہوۓ سر ہلایا۔ ”آمین۔۔۔ تو جے ڈوٹ پر جانا ہے یا وہاں قریب۔۔۔“

”جی بس وہیں اتار دیجٸے گا۔ دراصل آج صبح ہی ان کی سیل کا میسج آیا تھا۔۔۔ سوچا کہ ذرا نظر ہی ڈال لوں۔۔۔ ہاتھ تو ذرا تنگ ہے پر چکر لگانے میں کیا حرج ہے”۔ یہ سننا تھا تو بھاٸی جان نے اپنی جیب سے کریڈیٹ نکلا۔۔۔ اور میری جانب بڑھایا۔۔۔ میں نے فوراً منع کرنے کے لٸےہاتھ ہلایا اور کہا، ” رہنے دیں بھاٸی جان۔۔۔ رات ہی آپ کے کنجوس بہنوٸی نے مجھے چند ہزار دیے ہیں۔۔۔ گزارا ہو ہی جاٸے گا۔۔۔ جیسے بیس سال کیا ہے آج بھی کر لوں گی۔۔ ہاں ہاں بس یہیں اتار دیں ۔۔۔میں فارغ ہو کر آپ کو کال کر دوں گی“
۔۔۔تین گھنٹے بعد

”بھاٸی جان بس فارغ ہونے کو ہوں۔۔۔اللہ اللہ ارے آپ کہاں بیچ میں گھسے جا رہے ہیں“۔ ”کیا کہا؟“ میری بات سنتے ہی بھاٸی جان گھبرا کر بولے۔۔۔” اوہ کچھ نہیں۔۔۔ وہ میں کسی اور سے مخاطب تھی ۔۔۔ بس بل کی قطار میں کھڑی ہوں۔۔۔ آپ کے پہنچنے تک انشاءاللہ فارغ ہو جاٶں گی۔۔۔ ارے بھٸی کیا سست بندہ ہے یہ “۔۔۔”کون ۔۔۔ میں؟“ بھاٸی جان ایک بار پھر جونکے۔۔۔” نہیں نہیں آپ کو نہیں بلکہ اس بل بنانے والے شخص سے کہہ رہی تھی۔۔۔ آپ بس آنے کی کریں“۔۔۔ میں نے فون بند کیا اور تھوڑا آگے بڑھی۔ اللہ اللہ کر کہ میں نے کاٶنٹر تک رساٸی پاٸی اور میری خریداری کا بل ہونے لگا ۔

کیشیٸر یکے بعد دیگرے ملبوسات کے ٹیگ کو بار کوڈ مشین کے آگےکرتا رہا اور اس کا ساتھی ان کو تہہ لگا کر شوپینگ بیگز میں ڈالتا گیا۔۔۔۔

”فیفٹی فایو تھاٶزنڈ ایٹڈ ناٸین ہنڈرڈ پلیز“۔۔۔کیشیر کے کہتے ہی, ”کیا؟“ یونہی غیر ارادی طور پر ادا ہوا۔۔۔ جسے سنتے ہی اس نے فوراً ہی مجھے اردو میڈیم جانا اور جھٹ سے بولا ,”جی۔۔ پچپن ہزار اور نو سو روپے“۔
”OK...I'll pay in cash"
(او۔کے اٸیل پے ان کیش)
۔۔۔ میں نے اُتنی ہی فوراً اپنے انگریزی میڈیم ہونا کا ثبوت دیتے ہوۓ جاوب دیا اور ہینڈ بیگ سے گیارہ ۔۔پانچ ہزار کے اور ایک۔۔ ہزار کا , نوٹ نکالے اور اس کو تھما دیے۔ بقیہ سو کے ساتھ اس نے رسید میرے حوالے کی۔ میں نے چھ شوپینگ بیگ باٸیں ہاتھ سے اور سات داٸیں ہاتھ سے اٹھاۓ اور باہر کا رخ لیا۔ بھاٸی جان کی گاڑی سامنے پارکینگ میں پہلے ہی سے موجود تھی۔ انہوں نے مجھے لدھا پھدا آتا دیکھ کر جلدی سے گاڑی کی ڈگی کھول دی اور خود اٹھ کر سامان اس میں رکھوایا۔ میں ایک بار پھر آگے کی نشست پر جا بیٹھی۔ بھاٸی جان نے گاڑی سٹارٹ کی اور میں نے سیٹ بیلٹ بھاندتے ہوۓ ٹھنڈے سانس بھری۔” آہ۔۔ بس کیا بتاٶں بھاٸی جان میری زندگی تو بس ۔۔۔ اس شخص نے کبھی جو سکھ دیا ہو۔۔۔ شوہر کا سچا پیار اور قدر تو شاٸید میرے نصیب میں ہے ہی نہیں۔۔۔۔ہاں وہ پیزا ہٹ چلتے ہیں۔۔۔ بس وہیں بیٹھ کراپنا دل کا بوجھ ہلکہ کر لوں گی۔۔ ویسے کہاں وقت ملتا ہے “
بھاٸی جا ن میری طرف دیکھ کر مسکراۓ اور پیزا ہٹ کا رخ کیا۔۔۔

 

Saima Qureshi
About the Author: Saima Qureshi Read More Articles by Saima Qureshi: 17 Articles with 12708 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.