لکھنؤ ی تہذیب کا نمائندہ شاعر۔پروفیسر رئیس ؔعلوی

لکھنؤ ی تہذیب کا نمائندہ شاعر۔پروفیسر رئیس ؔعلوی
(پاکستان آسٹریلیا ادبی فورم کے تحت ہونے آن لائن منعقد ہونے والے
تعزیتی اجلاس بیاد پروفیسر رئیس علوی میں پڑھا گیا)
٭
پروفیسرڈاکٹر رئیسؔ صمدانی
پروفیسر ایمریٹس۔ منہاج یونیورسٹی، لاہور
جب سے پروفیسر رئیس علوی کے دنیا سے رخصت ہوجانے کی خبر سنی ہے میری سوچ کا محورمیرا ہم نام ہی ہے۔ تعزیتی جملے سوشل میڈیا پر لکھ دیے لیکن میرے اندر اپنے ہم نام کے لیے جو یادیں اور باتیں کل بلارہی تھیں انہیں قرطاس پر منتقل کرنے کی سہی کرتا رہا،جب بھی کی بورڈ پر اپنی انگلیوں کو حرکت دیتا دل و دماغ انگلیوں کا ساتھ نہ دیتے۔ الفاظ اور جملوں کے تانے بانے بکھر بکھر جاتے۔ مختلف احباب کے تعزیتی پیغامات پڑھنے سے اپنے آپ کو پھر تیار کرتا، ماضی میں جانے اور اپنے ہم نام کی نجی اور پیشہ ورانہ زندگی کی کچھ باتیں ذہن میں محفوظ رکھ سکا ہوں، جو محفوظ رہیں انہیں قرطاس پر منتقل کررہا ہوں۔
پروفیسر رئیس علوی نے ہندوستان کی علمی ادبی سرزمین لکھنؤ میں 7 مئی 1946ء میں آنکھ کھولی۔ لکھنؤ اور دہلی کی تہذیب، ادب خاص طور پرشاعری کے حوالہ سے اپنا ثانی نہیں رکھتی۔ لکھنؤ ایسی سرزمین ہے جس نے اردو کے بڑے اور نامور شاعروں کو جنم دیا۔ لکھنؤ کی تہذیب میں ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ جس شخص نے لکھنؤ میں آنکھ کھولی ہو، وہاں پرورش پائی ہو، وہاں کی شاعرانہ فضاء میں سانسیں لی ہوں اس کی گفتگو، رہن سہن، اندازسب سے بڑھ کر اس کا بانک پن بتا دیتا ہے کہ وہ لکھنؤی تہذیب میں پلا بڑھا ہے۔ پروفیسر رئیس علوی کی خصوصیات اپنی جگہ ان کا ظاہری انداز، ان کی گفتگو، اٹھنا بیٹھنا، طور طریقہ،شاعری، ادب سے تعلق پتا دے رہا ہوتا تھا کہ وہ لکھنؤی تہذیب کے پروردہ ہیں۔اپنی جنم بھومی لکھنؤکے بارے میں ’نذرِ لکھنؤ‘ کے عنوان سے کیا خوب شعر کہے ؎
یہ لکھنؤ یہ گل ِ چاندنی کا گلشن ناز
یہ سر زمین یہ حسینانِ مہہ جبیں کا وطن
یہ سر زمین یہ محبت کی آبرو ئے کہن
یہیں کہیں ہیں میرے بچپنے کے نقش قدم
یہیں کہیں مرے بچپن کے قہقہے مچلے
جو اس کی نرم فضاؤں میں جذب ہیں ابتک
یہیں کہ مدر سے میری صدا سے گونجے ہیں
یہیں کہ باغ، یہاں کے گلاب وپارہ سنگ
ورق ورق میری یادوں کے دردلکھتے ہیں
یہیں پہ میں نے تلاطم میں جینا سیکھا ہے
یہیں پہ سورشِ طوفاں کے حسن کو دیکھا ہے
پروفیسر رئیس علوی نے میٹرک لکھنؤ سے کرنے کے بعد پاکستان ہجرت کی اور شہر کراچی کو اپنا مسکن بنایا۔ انٹر اور بی اے کرنے کے بعد جامعہ کراچی سے 1965ء میں لسانیات و ادب میں ایم اے کیا۔ کراچی کے سراج الدولہ کالج میں استاد کی حیثیت سے اپنے خدمات کا آغاز کیا۔اس سے قبل وہ اسکول میں بھی استاد کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے تھے۔ پروفیسر سراج الدین قاضی نے پروفیسر رئیس علوی کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے بتا یا کہ علوی صاحب بہت ہی نفیس انسان تھے، ہنس مکھ، شائستہ گفتگو اور ایک وضعدار انسان تھے۔ ان کی ایک خوبی یہ تھی کہ وہ جب تک استاد کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے۔ کلاس میں بروقت جاتے، محنت اور توجہ سے پڑھایا کرتے تھے۔ وقت پر کالج پہنچتے۔ جب انتظامی امور سے وابستہ ہوئے تو دیانتداری سے دفتری امور انجام دیئے، ماتحت عملہ جو اپنے مسائل لے کر پہنچتا اس کے ساتھ خوش دلی کے ساتھ پیش آتے، اس کا جو بھی مسئلہ ہوتا اسے فوری حل کرنے کے احکامات جاری کیا کرتے۔
بھٹو صاحب نے حکومت سنبھالی تو متعدد قسم کے انقلابی اقدامات کیے ان میں سے ایک ملک کے تعلیمی اداروں کو قومیانہ (Nationalization)بھی تھا۔ 1972ء میں ملک کے تعلیمی اداروں کو سرکاری تحویل میں لے لیاگیا۔ تعلیم کے میدان میں ایک طوفان برپا ہوگیا۔ مالکان خسارے میں اور ملازمین کی چاندی ہوگئی۔ چند ہزار لینے والے 17 سے 19گریڈ پانے لگے۔ حکومتی اقدام سے اساتذہ کومالی فائدتو ہوا ساتھ ہی کراچی میں کالج اساتذہ کے لیے بہت سے مسائل اٹھ کھڑے ہوئے۔ نیشنلائز اساتذہ کے مسائل کو حل کرنے کے لیے ایک تنظیم ’پاکستان کالج ٹیچرس ایسو سی ایشن‘ (Pakistan College Teachers Association, PTCLA)معرض وجود میں آئی۔ پروفیسر انیتہ غلام علی جو بعد میں سندھ کی وزیر تعلیم بھی رہیں اس تنظیم کی صدر، پروفیسر رئیس علوی سیکریٹری جنرل اور پروفیسر ہارون رشید اس تنظیم کے اہم رہنما تھے۔پروفیسر رئیس علوی انیتہ غلام علی کے دست راست تھے۔ پروفیسر انیتہ غلام علی سندھ ہائی کورٹ کے جج فیروز نانا کی صاحبزادی،معروف اور بااثر خاتون تھیں انہیں صدارتی تمغہ حسن کارکردگی اور ستارہ امتیاز سے بھی حکومت نے نوازا۔ وہ سندھ مسلم سائنس کالج میں استاد بھی تھیں۔ پروفیسر رئیس علوی صاحب کی پیشہ ورانہ زندگی کا یہ نقطہ آغاز تھا۔ پی سی ٹی اے کے تحت اساتذہ کے لیے کی جانے والی جدوجہد نے پروفیسر رئیس علوی صاحب کو ایک پہچان دی۔وہ اساتذہ کے علاوہ شہر کی علمی، ادبی حلقوں میں پہچانے جانے لگے۔اپنے پہلے شعری مجموعہ میں انہوں نے لکھا کہ ”اس مجموعے کی ترتیب و اشاعت کا بار انیتا غلام علی کے سرجاتا ہے کہ ان کے اصرار سے شرمسار ہوکر میں نے اسے ترتیب دیا ورنہ یہ صرف خواہش و خیال تک محدود رہتا“۔ رئیس علوی نے اپنے شعر ی مجموعے کے حوالہ سے ایک خوبصورت شعر کہا ؎
ہوا ہے نقش دل میں اس کا چہرہ
رئیسؔ اب صَاحبِ دیوان ہوا ہے
مَیں پروفیسر رئیس علوی سے 1974ء میں متعارف ہوا۔ میں نے اپنے تدریسی، علمی و ادبی سفر کا آغاز کیا تھا۔ اس وقت کالج اساتذہ کے دوکیٖڈر تھے ایک سرکاری اوردوسرے وہ اساتذہ جو نیشنلائزڈ کیڈر میں تھے، میں سرکاری کیڈر میں شامل تھا۔ سرکاری کیڈر کے اساتذہ کی ایک الگ تنظیم تھی جو ابتدا میں سندھ لیکچر ر ایسو سی ایشن(Sindh Lecturers Association, SLA) کہلائی بعد میں اس کا نام سندھ پروفیسرز اینڈ لیکچرر ایسو سی ایشن (Sindh Professor's & Lecturer Association, SPLA) ہوگیا۔ نیشنلائزڈ کیڈر اساتذہ کی نمائندگی پی ٹی سی ایل اے(PTCLA) کررہی تھی جس کی صدر پروفیسر انیتہ غلام علی اور سیکریڑی جنرل پروفیسر رئیس علوی تھے۔ سرکاری کیڈر اساتذہ کی نمائندگی سپلا (SPLA)کر رہی تھی جس کے سربراہ پروفیسر ریاض احسن مرحوم کر رہے تھے۔ انجمنوں کے حوالہ سے رئیس علوی کا ایک شعر دیکھئے ؎
عمر اپنی تو یونہی انجمنی میں گزری
سب کی باتوں کو سنا، کم سخنی میں گزری
پھر ایک دور ایسا آیا کہ پروفیسر رئیس علوی صاحب کو سندھ حکومت کے تعلیمی شعبہ میں انتظامی امورسونپ دئے گئے وہ سندھ کے ایڈیشنل سیکریٹری ہوگئے، ای ڈی او (EDO)بھی رہے،ریٹائرمنٹ کے بعد جامعہ کراچی کے رجسٹرار کے فرائض کئی سال تک انجام دیے، سندھ بوائز اسکاؤٹس کے سیکریٹری رہے۔ ایک نجی یونیورسٹی خادم علی شاہ انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (KASBIT)اور نیو پورٹ انسٹی ٹیوٹ کے ریکٹر بھی رہے۔ قلندر شہباز یونیورسٹی کے پہلے وائس چانسلر بھی مقرر ہوئے۔ اس طرح وہ تدریسی خدمات کے علاوہ ایک ماہر تعلیم کی حیثیت سے انتظامی امور بھی خوش اسلوبی سے سرانجام دیتے رہے۔
لکھنؤ سے تعلق ہو اور شاعر نہ ہو، بھلا یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے۔ کسی نے لکھا کہ لکھنؤ کا پٹواری بھی شعر کہا کرتا تھا۔ بھلا میرے ہم نام پروفیسر شاعر نہ ہوتے۔ پروفیسر رئیس علوی کاشعری مجموعہ”صدا ابھرتی ہے“ شائع ہوا۔ڈاکٹر ابو لخیر کشفی مرحوم نے رئیس علوی کے شعری مجموعہ میں لکھا ”رئیس کی غزلوں میں ہماری غزل گوئی کی صدیاں نظر آئیں گی، ان میں ایک نئی لکھنویت ملے گی۔ صفتِ سوال و جواب کے امکانات ملیں گے۔ کئی غزلوں کی فضانے انہیں تسلسل عطا کردیا ہے۔ رئیس علوی کے چند اشعار ؎
سوچتا ہوں کبھی دریا ہوتا
میں کسی شہر نہ ٹھرا ہوتا
رہگذر ہوتا سینے پر مرے
دم بہ دم کوئی گزرتا ہوتا
پاؤں ہوتے مرے آوارہ خرام
میں اک زلف کا سودا ہوتا
کاش اس عمرِ گریزاں سے الگ
کوئی لمحہ مرا اپنا ہوتا
مجتبی حسین نے رئیس علوی کے بارے میں لکھا ”آپ محمد رئیس کے شعر پڑھیے بڑے اچھے آدمی سے آپ کی ملاقات ہوگی۔ اچھے آدمی سے ملاقات خوش نصیبی ہے یہ آدمی جس کا چہرہ گردِ سفر سے اٹا ہے کبھی چھوٹے غموں اور خوشیوں، ارمانوں، حسرتوں کا دبی زبان سے ذکر چھیڑتا ہے“۔ رئیس علوی کی شاعری میں سفر کا بہت ذکر ہے۔ان کی شاعری زندگی کی شاعری ہے،رئیس علوی نے معاشرہ میں پائے جانے والی ناانصافی پر آواز بلند کی، چھوٹے بڑے مسائل کو اپنی شاعری میں بیان کیا۔ البتہ سیاست کو شاعری میں بیان نہیں کیا۔ بعض بعض موضوعات پر رئیسؔ علوی کی شاعری کمال کی ہے مثلاً آنکھوں کے حوالہ سے ان کی نظم بہت خوبصورت ہے۔ چند اشعار۔
یہ ذوق آنکھیں، جمال آنکھیں یہ ہجر آنکھیں، وصال آنکھیں
یہ زرد آنکھیں، یہ لال آنکھیں یہ ایک وحشت، غزال آنکھیں
یہ میری آنکھیں، تمہاری آنکھیں یہ جام آنکھیں، یہ شراب آنکھیں
یہ روز شب کا حساب آنکھیں حُروف دل کی کتاب آنکھیں
تپش سے دل کی خراب آنکھیں یہ میری آنکھیں، تمہاری آنکھیں
رئیس علوی کاایک شعر دیکھئے ؎
زمانہ کس کے لیے مستقل سفر میں ہے
زمیں ہے رقص میں آوارہ آسماں کیوں ہے
سوال و جواب کے حوالہ سے ایک شعر ؎
میں نے کہا کہ میری زباں پہ ہے اک سوال
اس نے کہا کہ دل جو کہے وہ جواب ہے
جاپان کی ٹوکیو یونیورسٹی میں مہمان مقرر ہوکر گئے تو جاپان میں رہتے ہوئے اردو زبان کے حوالے سے تصنیفی و تالیفی کام انجام دیے۔ جاپانی پروفیسر سوزوکی تاکیشی کے ساتھ مل کر کئی تصانیف تخلیق کیں ان میں ’اردو جپنیز ڈیلی کنورسیشن‘،’گل ساد برگ‘،’چاند کے چار رنگ‘ (شعری ترجمہ)، ’غزل نامہ‘شامل ہیں۔ انہیں کئی اعزازات سے بھی نوازا گیا۔ امریکہ کی پٹس برگ یونیورسٹی کے انسٹیٹیوٹ آف انٹر نیشنل اسٹڈیز برائے تعلیم نے 2001ء میں انہیں فیلو شب کی تکمیل پر اعلیٰ حیثیت کے اعتراف میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری سے نوازا۔ 2007ء میں بھارت نے ہندوستان میں ہندی اردو ساہنتیہ ایوارڈ کمیٹی یوپی نے اردو زبان کی خدمت کے اعتراف میں ادبی ایوارڈ سے نوازا۔ معروف شاعر فیض احمد فیضؔ کے بعد یہ دوسرا ایوارڈ تھا جو کسی پاکستانی کو دیا گیا۔
پروفیسر رئیس علوی جب کراچی شہر میں تھے ادبی تقاریب میں ملاقات ہوجایا کرتی۔ پھر معلوم ہوا کہ وہ آسٹریلیا کے شہر سڈنی اپنے بیٹے کے پاس چلے گئے ہیں۔بھلا ہو افضل رضوی صاحب کا کہ انہوں نے پالف قائم کی اور اس میں مجھ ناچیز کو بھی اس طرح شامل کر لیا کہ میں پالف(پاکستان آسٹریلیا لٹریری فورم) کے آن لائن ادبی تقریبات میں مقرر کی حیثیت سے شریک ہونے لگا۔ انہیں ادبی تقاریب میں سڈنی سے پروفیسر رئیس علوی بھی ایک مقرر ہوا کرتے، ہم کئی پروگراموں میں ساتھ رہے۔ میں انہیں ’میرے ہم نام پروفیسر‘ کہہ کر ہی مخاطب کیا کرتا تھا۔ کیا نفیس انسان تھے، کہتے ہیں کہ پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا۔ لکھنؤ میں جنم لینے والے رئیسؔ علوی کو اللہ پاک نے آسٹریلیا کے شہر سڈنی کی مٹی سے بنایا تھا اور وہ وہاں پہنچ گئے۔ اللہ پاک مرحوم کی مغرفت فرمائے، آمین۔(جمعہ 10دسمبر2021ء)
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1280301 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More