رہبرؔ صمدانی۔شخصیت و شاعری

رہبرؔ صمدانی۔شخصیت و شاعری
٭
ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی
کیا تھا اظہارغم جنابِ تابش ؔکا، کل ہی کی تو بات ہے
مشکل میں ہوں کیسے لکھوں جدائی فرزندِ تابشؔ کی میں
رہبرؔ ’خاندانِ صمدانی‘ کا ایک فرد ضرور تھا ساتھ ہی وہ ملتان کاایک معروف وکیل اور اردو ادب کی دنیا میں ایک شاعر کی حیثیت سے منفرد مقام رکھتا تھا۔ چند ماہ سے اس کی بیماری کی خبریں سوشل میڈیا پر آرہی تھیں، رفتہ رفتہ ان خبروں میں تیزی آتی گئی، رہبر کی زندگی کے لیے ا س کی صحت کے لیے کون تھا جو اللہ سے التجا نہیں کررہا تھا۔ ہوتا تو وہ ہے جو اللہ چاہتا ہے۔ اللہ کی یہی مرضی تھی، وہ اتنی ہی عمر اپنے ساتھ لایا تھا۔ آج جب میں رہبر ؔ کے لیے لکھنے بیٹھا ہوں تو سمجھ نہیں آرہا کہ لکھو تا کیا لکھوں؟ میں نے رہبر کے انتقال کے بعد دو دن رہبر کے بھائیوں کو فون نہیں کیا۔ اس کی وجہ یہ رہی کہ جب ارادہ کرتا یہی سوچ کر ارادہ ترک کردیتا کہ تعزیت کیسے کروں گا، اس کے لیے کیا الفاظ استعمال کرونگا۔ جب سے یہ افسوس ناک خبر آئی ہے رہبر کا چہرہ نظروں میں اور اس سے بڑھ کر رہبر کے جنابِ تابش صمدانی کی بیماری کے آخری ایام میں انہیں ملتان دیکھنے جاناپھر چند دن بعد ان کا رخصت ہوجانا، ان کے جنازہ میں شرکت کے لیے ملتان جانا لیکن قسمت میں انہیں مٹی دینا نہیں تھا، لیٹ ہوگیا، احباب انہیں لے جاچکے تھے جب میں ان کے گھر پہنچا، بس ہاتھ ملتا اورافسوس کرتا ہی رہ گیا۔ کہتے ہے کہ اللہ پاک بندہ کی نیت پر اسے صلہ عنایت فرماتے ہیں، میری نیت تو تھی تب ہی تو میں نے اجلت میں ملتان کا سفر کیا، مٹی دینا اور کندہ میری قسمت میں نہیں تھا۔ میرے تابش ؔصمدانی سے مراسم کی نوعیت رشتہ داری سے ہٹ کر ادبی دوستی کی تھی،اس وقت ڈاک کا نظام رائج تھا وہ تو اب بھی ہے لیکن اس انداز سے نہیں۔ بعض معاملات میں مَیں نے انہیں خط لکھے اور انہوں نے مجھے، ان خطوط کی روشنی میں، ادبی اور خاندانی حوالے سے تابش ؔ صمدانی پر ایک طویل مضمون لکھا تھا، جو کئی جگہ چھپ چکا ہیں اور انٹر نیٹ پر بھی پڑھا جاسکتا ہے۔ اب تابش کے بڑے صاحبزادے رہبر صمدانی بھی رخصت ہوئے۔ اللہ پاک ان کی مغفرت فرمائے۔ آمین
کیا تھا اظہارغم جنابِ تابش ؔکا، کل ہی کی تو بات ہے
مشکل میں ہوں کیسے لکھوں جدائی فرزندِ تابشؔ کی مَیں
میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ تابشؔ صمدانی کے بعد ان کے بڑے صاحبزادے رہبر صمدانی کی جدائی بھی قلم بند کرنا پڑے گی، رہبر عمر میں مجھ سے بہت چھوٹا تھا۔اس سے میرا خاندانی تعلق کچھ اس طرح سے ہے کہ رہبر کے والد تابشؔ صمدانی میرے والدمرحوم کے حقیقی چچا خلیل احمد صمدانی کے بڑے صاحبزادے ہیں گویا تابشؔ صمدانی رشتے میں میرے چچا تھے اس طرح رہبرؔ میرا کزن ہوا۔ میرے اور رہبر کے پردادا شیخ محمد ابراہیم آزادؔ صاحبِ دیوان شاعر تھے۔ان کا نعتیہ کلام ”دیوانِ آزادؔ“ کے نام سے 1932ء میں آگرہ سے شائع ہوا تھا، پھر ا س کا دوسر ا ایڈیشن کراچی سے 2005ء میں میرے چچا مغیث احمد صمدانی کی کوششوں سے جس میں میری بھی کچھ کاوشیں شامل تھیں شائع ہوا۔ پردادا حضور کے ماشاء اللہ آٹھ بیٹے تھے ان میں سے ایک میرے دادا حقیق احمد صمدانی تھے جب کہ رہبر،ر سروراور صفدر کے دادا خلیل احمد صمدانی تھے۔ آزاد صاحب کے سات بیٹوں نے بیکانیر کی سرزمین کو خیر باد کہا اور پاکستان تشریف لے آئے۔ میرے دادا اور والد صاحب قبلہ انیس احمد صمدانی نے کراچی کو اپنا مسکن بنایا، چنانچہ ہم کراچی میں پرورش پاکر بڑے ہوئے۔ جناب خلیل احمد صمدانی، مفیق احمد صمدانی اور جناب انیق احمد صمدانی نے ملتان کی سرزمین کو اپنے لیے مناسب جانا اور وہاں کے ہورہے۔ ان کی اولادملتان کی ہی سرزمین کو آباد کیے ہوئے ہے۔مجھے فخر ہے کہ میرے خاندان کا شعر وادب کا ورثہ ہمارے جدِ امجد شیخ محمد ابراہیم آزادؔ سے موجودہ نسل تک پہنچا ہے تو اس میں خلیلؔ احمد صمدانی اور ان کی اولاد پھر ان کی اولاد میں رچا بسا ہوا ہے۔ میں شعر و ادب کا ایک ادنیٰ طالب علم ہوں۔ علاوہ ازیں مجھے ابھی علم ہوا جب ہمارے آبائی شہر بیکانیر، راجستھان میں مقیم آزاد صاحب کے ایک پڑ پوتے، جناب اسماعیل احمد صمدانی کے پوتے، جناب عارف احمد صمدانی کے بیٹے ”برکات وارثی صمدانی“ نے اپنی حمدو نعت رسول مقبول ﷺ اور منقبت پر مبنی کلام مجھے پیش لفظ لکھنے کے لیے پی ڈی ایف فائل کے ذریعہ بھیجا۔ برکات وارثی صمدانی نے اپنے مجموعے کا عنوان ”برکاتِ مصطفےٰ ﷺ“ رکھا ہے۔ گویا میرا خاندان جو ہندوستان کے شہر بیکانیر میں ہے وہ اورجو پاکستان میں ہے اس کے کئی احباب ذوق شاعری رکھتے ہیں۔ الحمد اللہ شعر کہہ رہے ہیں، صاحب دیوان شاعر بھی ہیں۔
رہبرؔ غزل کے علاوہ نعت گو شاعربھی تھے۔ غزل کی طرح ان کی کہی ہوئی نعت میں فنی حسن بدرجہ اتم پایا جاتا ہے۔ عقیدت و احترام اور عشق نبوی ﷺ میں ڈوب کر شعر کہے ہیں۔ رہبرؔ نے کب پہلا شعر کہا اس کے بارے میں کچھ کہنا میرے لیے مشکل ہے۔ میراگمان ہے کہ جس کے گھر کا ماحول شعر وادب سے معطر ہو، پردادا،دادا ور والد عشق رسول ﷺ سے ٹوٹ کر محبت رکھتے ہوں، جن کے خمیر میں حمد و نعت ﷺ ہو اس نے تو ہوش سنبھالتے ہی یہ سعادت حاصل کر لی ہوگی۔ رہبرؔ اور سرورؔ نے اپنے آبا کا پیشہ وکالت اپنا یا، ساتھ ہی شعر و شاعری خاص طور پر نعتیہ شاعری کو اپنے لیے بخشش کا سامان بھی بنالیا۔ رہبر کا مجموعہ کلا م2008 ء میں ”سلطانِ کرم“کے عنوان سے شائع ہوا۔رہبر صمدانی نے اپنے نعتیہ مجموعہ کا عنوان اپنی ایک نعت کے مقطع سے لیا۔ رہبر کی وہ نعت ؎
دیکھئے کب یاد فرماتے ہیں سلطانِ کرم
دیکھئے قسمت میں کب ہوتا ہے مہمانِ کرم
اک دنیا کھارہی ہے آپ کا صدقہ حضور
اک دنیا میں بچھا ہے آپ کا خوان ِ کرم
کبریا جانے اسے پھر یا حبیب ِ کبریا
جو شب اسرا ہوئے ہیں عہد و پیما ن کرم
میرے ہادی ہیں وہی، رہبر وہی آقا وہی
ہے رضائے ربِ اکبر، جن کا فرمان کرم
رہبرؔ کا ایک اور خوبصورت شعر ؎
ہر عطا ہر عطا ہر عطا ہر عطا
ہے کرم ہی کرم باخدا باخدا
رہبر کے چھوٹے بھائی سرور صمدانی نے اپنے بھائی کی جدائی کو قیامت قرار دیتے ہوے یہ شعر کہا ؎
تمہاری موت سے رہبر اور اپنی موت سے پہلے
سمجھ میں آگیا سرورؔ قیامت کس کو کہتے ہیں
ایک اور شعر رہبر کے لیے ؎
تُو کاروانِ زندگی کا شہہ سوار تھا
رہبر تھا تو ادب کا حسین شاہکار تھا
انور ضیا انورؔ رہبر کے کزن نے رہبر کوکچھ اس طرح خراج عقیدت پیش کیا ؎
پھولوں کے جسم و جاں میں رہبر نہیں رہے
تابش کے گلستان میں رہبر نہیں رہے
ماتم بپا ہے دل میں یہ انور ضیا سنو
ہم رہ گئے جہان میں رہبر نہیں رہے
رہبر ؔ کے دو اور اشعار ؎
سائے میں آکے آپ کے انمول ہوگئی
ورنہ تھا کون تیرا خریدار زندگی
سو بار زندگی مجھے رہبر ؔ اگر ملے
کردوں فدا حضور میں ہر بار زندگی
رہبرؔ صمدانی نے اپنے آبائی شہر راجستھان کی سرزمین بیکانیر میں یکم نومبر1964 ء کو آنکھ کھولی۔ خاندان ِآزاد ؔ کے جدِ امجد شیخ محمد ابراہیم آزادؔ دنیا سے تشریف لے جاچکے تھے لیکن آزادؔ منزل میں شعر وادب کی خوشبو رچی بسی تھی۔ اس دور کے نامی گرامی شعراء آزاد منزل آتے رہے تھے ان میں جنابِ بیخودؔ دہلوی بھی شامل تھے۔جناب آزادؔ کے صاحبزادے خلیل صمدانی اور پوتے تابش ؔ صمدانی نے خاندان کی ادبی میراث کو اپنے کاندھوں پر اٹھایا ہوا تھا۔آزاد منزل کی فضاء نعت گوئی سے معطر تھی، تابش صمدانی کے ہاں بڑے بیٹے کی ولادت ہوئی، نام’رہبر‘ رکھا گیا۔ بچپن بیکانیر، راجستھان کی فضاؤں میں گزرا۔ ابتدائی تعلیم کا آغاز بیکانیر سے ہی ہوا۔ 1970ء میں رہبر صمدانی کے دادا اور والدین نے پاکستان آنے کا قصد کیا جس کی وجہ رہبر صمدانی کے دادا کا اپنے بھائی انیق احمد صمدانی کی عیادت کرنا تھا جو ملتان میں آباد تھے۔ پاکستان میں اس خاندان کے قیام کی مدت عارضی اور صرف تین ماہ تھی۔ اسی دوران رہبر کے دادا جناب خلیلؔ صمدانی عارضہ قلب میں مبتلا ہوتے ہیں اور اچانک مالک حقیقی سے جاملتے ہیں۔ رہبر کے خاندان کے لیے بڑا صدمہ تھا ساتھ ہی یہ فیصلہ کرنا بھی تھا کہ وہ اپنے خاندان کے سربراہ کی قبر مبارک کو پاکستان چھوڑ جائیں یاپورا خاندان پاکستان کو اپنا مسکن بنالے۔ چناچہ فیصلہ یہ ہوا کہ یہ خاندان اپنے گھر کے سربراہ کی قبر کو چھوڑ کر واپس بھارت نہیں جائے گا بلکہ وہ پاکستان ہی میں رہیں گے اور ملتان کی سرزمین کو اپنے لیے مستقل رہائش گا ہ بنالیں گے۔ رہبر صمدانی اور ان کے بھائی بہنوں کی پرورش،تعلیم و تربیت ملتان میں ہوئی۔ رہبر و سرور نے اپنے والد تابشؔ صمدانی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے وکالت کے پیشے کو اپنا یا۔ رہبر اپنے والد تابشؔ صمدانی کے بعد ملتان کے معروف وکیلوں میں شمار ہوتے تھے۔ ان کے چھوٹے بھائی سرور صمدانی بھی ملتان کے معروف وکیل اور معتبر شاعر ہیں۔ شعر و ادب تو خاندانی ورثہ تھا وہ بھی جاری و ساری رہا۔ رواں سال کے شروع ہی میں رہبر بیمار ہوئے اور 20فروری 2021ء کو 53 بہاریں ہی دیکھ کر داعی اجل کو لبیک کہا۔ خاندان کے احباب کے لیے رہبر کی جدائی ایک بڑا صدمہ ہے۔ ساتھ ہی اردو ادب کی دنیا بھی ایک اچھے شاعر سے محروم ہوگئی۔ اللہ پاک رہبر صمدانی کی مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام نصیب ہو، آمین۔ (12دسمبر 2021ء)
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 866 Articles with 1440839 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More