بہت دن بعد پھر سے لکھنا شروع کیا تو سوچا کیا لکھوں ۔
اچانک موبائل پر اک لیکچر أیا کہ انسان چاہے تو منفی حالات میں سے بھی مثبت
پہلو نکال کر خوش رہ سکتا ہے اور کڑھتے رہنےکے نفسیاتی اور جسمانی نقصان سے
بچ سکتا ہے ۔
سنا ہے کہ بہت سے لا علاج مریضوں کو جب مثبت کاموں اور خدمت خلق میں لگایا
گیا تو ان کے اندر ایسی شفائی قوت بیدار ہوئ کہ وہ شفایاب ہو گۓ ۔
أج سوئ گیس کم أرہی ہے تو اس پر حکومت کو کوسنے کی کوفت میں پڑنے کے بجاے
کوفتے کھانے لگا جو ہلکی أنچ پر دیر تک رکھے ہونے پر کچھ اور ہی مزہ دے رہے
تھے جو کبھی محبوب دوست کے ساتھ دیر تک خاموش بیٹھنے پر أتا تھا۔
أرام سے گھر بیٹھے ہونا اور پسند کا کھانا سامنے ہونا بھی ایک بہت بڑی نعمت
ہے ۔
سوئی گیس کے نا ہونے نے ، نا ہوتی وہ تو کیا ہوتا ، اپنی اور اپنوں کی قدر
کروائ کہ أ تو رہی ہے کم کم ہی سہی اور لکھنے کی ہوئ أمد کم کم ہی سہی۔
مکمل جدائ سے بہتر ہے کہ کم کم آے اور آتی رہے بلکہ آتی رہے نلکے سے ہلکے
ہلکے سرور کے ساتھ۔
تم دینا ساتھ میرا !!! او کم ہوا !!!
بات کچھ یوں بدلی کہ
قدر کھو دیتا ہے یہ زور کا آنا جانا
|