کاہلی یا نکمے پن کی اقسام اور ان کا حل

فرصت اور کاہلی میں بہت باریک سا فرق ہوتا ہے۔ ایک کامیاب انسان فراغت میں بھی اپنے آپ کو مصروف رکھتا ہے، چاہے وہ مطالعے کی عادت ہو یا کھیل، ورزش یا سیر و تفریح۔۔ دوسری طرف ایک سست اور کاہل الوجود شخص مصروفیت میں بھی فراغت کے بہانے تلاش کرتا ہے۔ ہمیشہ اپنے ”آج“ کو ”کل “ پر ٹالتا ہے۔۔۔

جی ڈھونڈتا ہے پھر وہی، فرصت کے رات دن
بیٹھے رہیں تصور ِ جاناں کئے ہوئے


فرصت اور کاہلی میں بہت باریک سا فرق ہوتا ہے۔ ایک کامیاب انسان فراغت میں بھی اپنے آپ کو مصروف رکھتا ہے، چاہے وہ مطالعے کی عادت ہو یا کھیل، ورزش یا سیر و تفریح۔۔ دوسری طرف ایک سست اور کاہل الوجود شخص مصروفیت میں بھی فراغت کے بہانے تلاش کرتا ہے۔ ہمیشہ اپنے ”آج“ کو ”کل “ پر ٹالتا ہے۔۔۔ کچھوے اور خرگوش کی کہانی کی طرح خود کو جھوٹی تسلیاں اور فریب دیتا ہے کہ ابھی تو بہت وقت پڑا ہے۔۔۔ بعد میں کر لیں گے۔ اور نتیجتا ً زندگی کے ہر شعبے میں ناکامی کا منہ دیکھتا ہے۔

کہتے ہیں کہ سست اور کاہل الوجود انسان صرف ایک وقت ہی کامیاب ہو سکتا ہے۔۔۔ جب وہ کچھ بھی نہ کرنے کی کوشش کرے۔ یعنی اگر حرکت میں برکت ہے تو سستی اور کاہلی میں ذلت ہے، نحوست ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سستی، نکما پن یا کاہلی سب برائیوں کی ماں بھی کہی جاتی ہے۔ چاہے یہ آپ کے پروفیشنل کیریئر کی بات ہو یا پھر آپ کی اپنی ذات کی، حتی ٰ کہ آپ کی جسمانی اور ذہنی صحت کی، یہ آپ کو کہیں کا نہیں چھوڑتی۔

سوال یہ ہے کہ کاہلی اور سستی کے اسباب کیا ہو سکتے ہیں۔۔۔۔ وہ کون سی جھوٹی تسلیاں یا لوریاں ہیں جن کو ہم میں سے بہت سے لوگ اپنے ضمیر کو بار بار سنا کر سلاتے رہتے ہیں؟
آیئے جائزہ لیتے ہیں۔

۔ اعصابی خوف: بس، یہ مجھ سے نہیں ہو سکتا، میں یہ نہیں کر سکتا۔ یہ مجھ سے نہیں ہو سکے گا۔ میں یہ نہیں کر سکوں گا۔
۔ مخصوص ذہنیت: مجھے ڈر ہے کہ کہ ایسا کرنے سے لوگ مجھے بے وقوف سمجھیں گے۔ اگر میں نے ایسا کیا تو میں ناکام ہو جاؤں گا۔ لوگ کیا کہیں گے؟
۔ تذبذب: مجھے نہیں معلوم کیا کرنا ہے، یہ کیسے ہو گا۔
۔ پشیمانی: بہت دیر ہو چکی ہے۔ اب میری عمر نہیں یہ سب کرنے کی۔
۔شناخت: میں ایک سست اور کاہل انسان ہوں۔
۔ شرمندگی: مجھے اتنا نکما نہیں ہونا چاہیئے۔
۔ بے حسی: جو بھی ہو، مجھے پرواہ نہیں۔
۔ سستی: میرے اندر اتنی طاقت، اتنی اہلیت ہی نہیں کہ میں یہ کر سکوں۔

اور بد قسمتی سے یہ وہ ساری آوازیں ہیں جو خود ہمارے ہی اندر سے ابھرتی ہیں اور ان کا ماخذ اکثر بیرونی دنیا اور دوسرے لوگ نہیں بلکہ خود ہماری اپنی انا اور نفس ہوتے ہیں۔
یاد رکھیئے، سستی اور کاہلی کی سزا محض اپنی ناکامی ہی نہیں بلکہ دوسروں کی کامیابی بھی ہوا کرتی ہے۔

حل کیا ہے؟
مثبت سوچیئے۔۔۔ زندگی میں ہر کام کو با مقصد بنایئے۔ بغیر مقصد کے زندگی ایسی ہی ہے جیسے منزل کے بغیر سفر۔۔۔ مثبت تبدیلی کا آغاز ہی وہا ں سے ہوا کرتا ہے جہاں ہمارے کمفرٹ زون، ہمارے خود ساخت آرام کا گوشہ ختم ہوتا ہے۔ چاہے آپ کی صحت کا معاملہ ہو یا پھر ذاتی تعلقات کا یا پھر کاروبار یا ملازمت کا۔۔۔ زہریلے اور منفی لوگوں سے حتی الامکان خود کو دور رکھیئے۔ خواب دیکھئے۔۔۔ ضرور دیکھئے مگر یہ یاد رکھیئے محض خواب دیکھنے سے تعبیر نہیں ملتی۔ عمل سے ملتی ہے۔۔۔ منصوبے سے ملتی ہے۔۔۔ حرکت سے ملتی ہے!

عمل سے زندگی بنتی ہے، جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں، نہ نوری ہے نہ ناری ہے

 

Dr. Syed Ikram
About the Author: Dr. Syed Ikram Read More Articles by Dr. Syed Ikram: 8 Articles with 6313 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.