ماں

بچپن کی بہت ساری باتیں انسان کو یاد رہتی ہیں ۔ خاص کر ایسی چیزوں کو تو ہمیشہ نظروں کے سامنے گھومتا ہوا پاتا ہے جن سے اسکا گہرا تعلق رہا ہو ۔ بچپن کے دوست، اس وقت کے کھیل، حالات اور موسم، اسکول کی باتیں ، کلاس میں کھسر پھسر کرنا اور پھر اس پر مار کھانا،کبھی کبھار کسی کلاس میں کوئی پوزیشن آئی ہو یا کسی مقابلے میں انعام ملا ہو تو وہ کامیابی کے لمحے ، کھیل کود میں بہت دیر لگا کر گھر میں آکر جھوٹ بولنا کہ فلاں دوست کے ساتھ ہوم ورک میں مشغول تھے، اور کبھی کبھار تو اسکول سے بھاگ جانے والی باتیں تو کبھی بھی نہیں بھولتیں کہ ہم اپنے بستے کیکروں کے جھنڈ میں چھپا کر چلے جاتے اور پھر چھٹی کے وقت آکر وہاں سے بستے نکال کر گھر کو چلتے بنتے جیسے کہ اسکول سے سیدھے گھر آ رہے ہیں ، وغیرہ وغیرہ ۔

یہ اس وقت کا قصہ ہے جب ہم بہت چھوٹے تھے ، یعنی جب میں غالباً نرسری کلاس میں پڑھتا ھوں گا ۔ میں ، میرا چھوٹا بھائی اور اس سے بھی چھوٹی ایک بہن ۔ ہماری عمروں میں تقریباً ایک ایک برس کا فرق رہا ہو گا ۔ ہماری ماں ، اللہ جنت نصیب کرے، جن کے ساتھ گزارے ہوئے لمحات میں سے کچھ گنے چنے لمحے مجھے اب بھی یاد ہیں ، بیمار رہتی تھیں اور اکثروبیشتر اوقات ہسپتال میں داخل رہتی تھیں (جو کہ میں اندازے سے کہہ رہا ہوں ، کیونکہ جتنا میں یاد کرسکتا ہوں اسکے حساب سے مجھے اپنی ماں کے سائے میں بہت کم واقعے یاد آتے ہیں ، یعنی جب سے ہوش سنبھالا اور حالات کی سمجھ بوجھ آئی ہم نے اپنی ماں کے سائے میں بہت کم وقت گزارا ہے ) ۔

ہم کئی کئی دن ماں سے دور رہتے تھے، کیونکہ ابا جان تو صبح تڑکا لگنے سے پہلے ہی کام پر چلے جاتے تھے اور پھر غالباً ڈیوٹی سے واپسی پر شام کے اوقات میں ماں سے ملاقات کیلئے ہسپتال چلے جاتے ہوں گے اور پھر رات کو عشا کے بعد گھر لوٹتے ۔ ہ میں اپنی ماں سے دوری تو ہو ہی گئی تھی، باپ سے ملنا بھی دشوار تھا ۔ دن کی روشنی میں ابا جان کو دیکھے ہوئے کئی کئی دن بیت جاتے ۔ اُن دنوں بجلی عام نہیں تھی اس لئے ہم رات کو لالٹین جلاتے تھے ۔ ابا جان کا لالٹین کی پیلی روشنی میں زردی مائل چہرہ اب بھی یاد آتا ہے اور اُنکی آنکھوں میں ہمارے لئے ایک بے بسی اور ایک اَن دیکھی محبت اب بھی جب یاد آتی ہے تو رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور آنکھوں سے بے اختیار آنسو نکل جاتے ہیں ۔ ہماری دیکھ بھال ، میری یاد داشت کے مطابق، کچھ عجیب تھی ۔ کبھی تو ایک ماموں کا خاکہ ذہن میں آتا ہے جو کبھی کبھار شام کے وقت نمودار ہوجاتے تھے اور پھر ہمارے پاس رات بھر رہ جاتے تھے ۔ اب یہ یاد نہیں کہ وہ کھانا وغیرہ بھی پکاتے تھے یا نہیں لیکن ہمارے ہمسائے عموماً ہمارا بہت خیال رکھتے تھے اور اکثر وبیشتر کھانابھی پکا کر دیتے تھے (ایک خدائی خالہ تھیں ، اللہ انہیں خوش رکھے، جو ہ میں اپنے بچوں کی طرح پیار کرتی تھیں ۔ انکی اپنی کوئی اولاد نہیں تھی اس لئے ہم سے انکو بہت اُنس تھا) ۔ کپڑوں کی دھلائی وغیرہ کا تو یاد پڑتا ہے کہ اتوار کے روز ابا جان چادر (دھوتی) باندھ کر غسلخانے میں جا گھستے اور دھینگا مشتی شروع کرتے اور پھر ایک بڑی سی بالٹی باہر نکال کرکپڑے ٹانگتے ہوتے تھے ۔ ہم اکثر کھیلتے وقت زیادہ اُچھل کود کرنے میں کچھ کپڑے گِرا بھی دیا کرتے تھے جس کیلئے ڈانٹ بھی پڑتی کہ میں تو تم لوگوں کے کپڑے گھِس گھِس کر تھک گیا اور تم پھر سے انہیں مٹی میں اچھال رہے ہو، وغیرہ ۔

ہ میں یاد ہے کہ ایک دن ابا جان ہ میں ہسپتال لے کر گئے تھے ۔ غالباً وہ اتوار کا دن تھا ۔ ہم تینوں بھائی بہن بہت خوش تھے ۔ اس لئے نہیں کہ ماں سے ملنے گئے تھے بلکہ اس لئے کہ گھر سے باہر کہیں گھومنے کا موقع ملا تھا ۔ احساس نام کی چیز تو اس وقت ہم میں تھی ہی نہیں ۔ ہم ہسپتال میں اپنی والدہ کے وارڈ میں گھوم رہے تھے ۔ ابا نے ہ میں غالباً نئے جوتے دلائے تھے ۔ ہم نئے جوتوں کی ٹک ٹک سے وارڈ میں شور کررہے تھے جو غالباً دوسرے مریضوں کو ناگوار گزر رہا تھا ۔ ڈاکٹر سبحانی، جو میری ماں کا علاج کرتی تھیں ، ادھر سے گزریں ( اور جب ہم بڑے ہوئے توہ میں معلوم ہوا کہ وہ بہت بڑی گائناکالوجسٹ تھیں ) ۔ انہوں نے ہ میں دیکھا اور پہچان گئیں اور ہ میں اپنی ماں کے پاس بھیجا ۔ ماں نے ہ میں ایک طائرانہ نظر سے دیکھا، لیٹے ہوئے شفقت سے ہمارے سروں پر ہاتھ پھیرا ۔ ہم نے بھی انکی آنکھوں میں تیرتے ہوئے آنسوؤں کو بھانپ لیا تھا اور ایک لمحے کیلئے تو ہماری شرارتیں بھی ہ میں بھول گئیں ۔ پھر ابا جان ہ میں باہر لان میں لے آئے اور خود واپس اندر چلے گئے اور ہ میں اندر جانے سے منع کردیا ۔ اتنے میں ہمارے ماموں آئے اور ہم ان کے ساتھ گھر واپس آ گئے ۔

ابا جان اس رات دیر سے گھر لوٹے ۔ آتے ہی ہ میں پیار کیا اور ہ میں ٹیکسی میں بٹھا کر ہمارے تایا جان کے گھر لے گئے ۔ وہاں تایا اور تائی جان سے باتیں کرتے ہوئے انکی آنکھوں سے آنسو جاری تھے لیکن ہ میں کچھ بھی نہیں کہا ۔ تھوڑی دیر بعد انہوں نے ہ میں کچھ پیسے دیئے اور کہا کہ کیا چاہئے ۔ ہم حیران رہ گئے تھے کہ عموماً جب ہم پیسے مانگتے تھے تو ہ میں پانچ یا دس پیسے ملتے تھے، جو ان دنوں کافی تھے اور دوکان سے ٹافی اور چاکلیٹ خریدنے کیلئے بہت ہوتے تھے، لیکن اس دن تو انہوں نے مٹھی بھرکر جیب سے پیسے نکال کر ہ میں دیئے جس پر ہم بہت حیران ہوئے ۔ ہ میں پھر بھی کچھ نہیں بتایا گیا ۔ درحقیقت ہماری والدہ اللہ کو پیاری ہو چکی تھیں اور ابا جان انکی میّت پی آئی اے کی کسی پرواز کے ذریعے پشاور لے جارہے تھے تاکہ انہیں اپنے آبائی گاؤں میں سپردِخاک کیا جاسکے ۔ دوسرے دن ہمارے ایک ماموں ، جنکا نام خان بہادر ہے (اللہ انہیں خوش رکھے) ہ میں تایا جان کے گھر سے سٹی اسٹیشن لے گئے ۔ انہوں نے خیبر میل کی ٹکٹیں لے رکھی تھیں ۔ ہم لوگ اسی رات خیبر میل سے روانہ ہوئے اور اگلے دودن بعد ہم لوگ اپنے گاؤں پہنچ گئے تھے ۔ ہم سب لوگوں سے ملتے رہے مگر ہماری ماں سے ہماری ملاقات نہ ہو سکی اور آخر کار ہم پر یہ حقیقت آشکار ہو گئی کہ ہم اب کبھی بھی اپنی ماں کے درشن نہیں کرسکیں گے ۔ انا للہ وانا الیہ راجعون ۔

ہماری ماں کی تجھیز وتدفین کے بعد کئی دن ہم اپنے گاؤں میں رہے ۔ کبھی چاچا کے ہاں توکبھی پھوپھی کے ہاں ، کبھی ماموں کے ہاں تو کبھی نانی کے ہاں ۔ لیکن لگتا تھا کہ کوئی بھی دل سے ہ میں قبول نہیں کررہا کیونکہ جب بھی ہم کسی کے ہاں جاتے تو انکے طورطریقے ہی بدل جاتے ۔ بہرحال اسی طرح کئی دن گزر گئے ۔ ایک روز ہ میں پتہ چلا کہ ہماری ماں واپس آرہی ہے ۔ ہم بڑے خوش ہوئے ۔ ابا جان اس دن ہ میں اپنے ساتھ پھوپھی کے گھرسے تایا جان کے گھر لے جارہے تھے ۔ اس روز بڑی زور کی بارش ہو رہی تھی ، اور ابا جان نے میرے چھوٹے بھائی اور چھوٹی بہن کودونوں جانب کندھوں پر بٹھا رکھا تھا اور میں انکی انگلی پکڑ کر چل رہا تھا ۔ تایا جان کا ایک بیٹا تقریباً میرا ہم عمر تھا اور اس لئے میں تو بہت خوش تھا کیونکہ ہم لوگ کھیل کود کے ساتھی تھے اور وہاں خوب کھیلا کرتے تھے ۔ جب وہاں پہنچے تو بہت گہماگہمی تھی اور بہت سارے رشتے دار اکٹھے ہوئے تھے جیسے کسی شادی کا سماں ہو ۔ ہمارے پہنچنے پر لوگوں کا ایک عجیب طریقے سے ہمکو دیکھنا ہ میں بہت برا لگا اس لئے ہم نے بھی اپنے رویے میں سختی برتی اور کھٹور پن اختیار کیا ۔ آدھی رات کے قریب ہلچل مچ گئی اور ایک دم سے شوروغل مچ گیا ۔ ہم بھی شور کی سمت بھاگے ۔ کئی عورتوں نے ہ میں کھینچ کھینچ کر کہا کہ تم تو ساری زندگی ساتھ رہوگے ، ہ میں دیکھ لینے دو ۔ تب ہ میں پتہ چلاکہ یہ تو ہماری نئی ماں ہیں ۔ اب پتہ چلا کہ آج ہمارے والد صاحب کا ہماری نئی ماں کے ساتھ نکاح طے پایا ہے ۔ شادی کی رس میں ختم ہوئیں اور بہت جلد ہماری نئی ماں کے ہمراہ ہم واپس کراچی روانہ ہوگئے ۔ خیبر میل ہمارا انتظارکررہی تھی اور ہم خوشی خوشی اپنے گھر کی طرف رواں دواں ہوگئے ۔ راستے بھر ہم اپنی نئی ماں کو گھور گھور کر دیکھتے تھے اور وہ بھی ہ میں ہماری شرارتوں کے حساب سے کیٹیگرائیز (categorize)کرتی رہیں ۔ آخر کا ر ایک تھکادینے والے سفر کے بعد ہم اپنے گھر پہنچے ۔ ہمارے محلے کے لوگ حیران بھی ہوئے اور خوش بھی ۔ سب لوگ آئے ، اور یہ بات سب کی زبان پر تھی کہ آئے تو ہم تعزیت کرنے تھے اور اب خوش ہیں کہ بچوں کے سر پر ہاتھ رکھنے وا لی ما ں ساتھ ہی لے آئے ہیں ۔ وہ خالہ جان تو بہت خوش ہوئیں جو ہ میں گلیوں میں رُلتے دیکھتی تھیں ۔

 

Syed Faisal Habib
About the Author: Syed Faisal Habib Read More Articles by Syed Faisal Habib: 2 Articles with 3552 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.