سُندر بَن اور فرار

ابا جان جب مشرقی پاکستان میں جنگی قیدی ہونے سے بچ کر پاکستان پہنچ گئے تو ہماری خوشیوں کا ٹھکانہ نہ تھا ۔ ہم اور ہمارے عزیز واقارب سب انتہائی خوش تھے اور وقتاً فوقتاً ابا سے ملاقات کیلئے آتے رہتے تھے ۔ ان میں کئی لوگوں سے ابا مختلف حالات بیان کیا کرتے تھے، اور ہم چھپ چھپ کے کان لگا لگاکر سنا کرتے تھے ۔ دراصل بات یہ تھی کہ شاید ہ میں یا تو بچے سمجھ کر اپنے واقعات نہیں سناتے تھے یا پھر ہ میں بتانا فضول سمجھتے ہوں ۔ بہرحال ہم تو اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئے تھے اور ہم نے بڑا اچھا طریقہ بھی اپنالیا تھا کہ جب کوئی مہمان آتا تو ہم مہمان کی خاطر تواضع میں لگ جاتے اور اس سے چائے پانی دریافت کرتے اور اسکی خدمت کیلئے دست بستہ کھڑے ہوجاتے ۔ ابا جان ہ میں اسطرح با ادب دیکھ کرمسکراتے اور خوش ہوتے جیسے کہ ہم نے شرارتوں سے توبہ کرلی ہو ۔ یہاں ایک بات واضح کردوں ۔ میں اکثر جگہ ہم کا صیغہ استعمال کرتاآیا ہوں اور کہیں کہیں میں کا ۔ تو بات یہ ہے کہ جو چیز صرف مجھ تک محدود ہوتی تھی اسکو میں صرف میں یا میرے سے ہی منسوب کرتا ہوں لیکن جہاں دوسرے ساتھی یا بھائی بہن بھی جملے میں مراد ہوں تو وہاں جمع کا صیغہ استعمال کرتا ہوں ۔ پچھلے مضامین میں جمع سے مراد میرے دوست وغیرہ تھے اور اب جمع سے مراد میرے بھائی بہن ہیں ۔

ابا فرما رہے تھے کہ مشرقی پاکستان میں جنگ انڈیا سے نہیں بلکہ وہاں کے مقامی باشندوں سے لڑنا دشوارتھی ۔ یہ ایک طرح کی عام بغاوت تھی جس میں بنگالی بھی مغربی پاکستانیوں کو نشانہ بنا رہے تھے اور انڈین فوجی بھی ۔ فوجیوں کو شناخت کرنا کوئی دشوار کام نہیں تھا لیکن مکتی باہنی کے لوگوں کو پہچاننا ناممکن تھا (مکتی باہنی مشرقی پاکستان کے مقامی باشندے تھے جو آزادی کے نام پر مغربی پاکستان کے لوگوں کو کاٹ رہے تھے) ۔ ان کے مطابق بنگالی عام دھوتی بنیان میں گزرتا اور پھر تھوڑی دیر بعد کوئی دھماکہ ہوجاتا ۔ عام شہری اورمکتی باہنی میں فرق بالکل ناممکن تھا اس لئے ہم لوگ ہرطرف سے مار کھارہے تھے ۔ انڈین آرمی سے بھی اورمکتی باہنی سے بھی ۔ آرمی سے تو بندوق در بندوق بات ہوتی تھی لیکن گوریلوں سے نبردآزمائی انتہائی سنگین بات تھی ۔ عام شہری کو گوریلا سمجھ کر پکڑنا بھی غلط تھا اور نہ پکڑتے تومکتی باہنی کا شک بھی ہ میں لگا رہتا ، کرتے تو کیا کرتے ۔ اتنے میں حکومت نے سیز فائر کا اعلان کردیا ۔ پاکستانی فوج کی ایک بہت بڑی تعداد جنگی قیدی بن گئی ۔ ابا کہتے ہیں کہ ہم ریڈیو باقاعدگی سے سنتے تھے ۔ عموماً ریڈیو سے وقتاً فوقتاً یہ اعلان ہوتا رہتا تھا کہ یہ ریڈیو پاکستان ڈھاکہ ہے ، اب آپ فلاں پروگرام سنیں گے ، یہ ریڈیو پاکستان چٹاگانگ ہے ، اب فلاں پروگرام کا وقت ہوا چاہتا ہے، وغیرہ ۔ ابا کے مطابق جب ریڈیو بنگلہ دیش ڈھاکہ سنائی دیا تو ہمارے اوسان خطا ہوگئے ۔ تب ہم نے اپنی کمانڈسے سرنڈر ہونے کی بجائے لڑنے مرنے یا اپنے آپ کو بچانے کی اجازت چاہی ۔ ہمارے پاس کوئی دوسرا متبادل راستہ نہیں تھا ۔ ایک جنگی بوٹ (fighter boat)تھی جس میں ہم کچھ لوگ ڈیوٹی پر تھے ۔ ہم نے دشمن کے سامنے گھٹنے ٹیکنے کے بجائے ،مریں گے یا مار یں گے،کی بنیاد پر روانگی شروع کی ۔

ہم دوپہر کو سندر بن کے جنگلوں میں چھپ جاتے تھے اور رات کو سمندر میں سفر کرتے تھے ۔ دن کے وقت فضا میں دشمن کے ہوائی جہاز ہم لوگوں کی تلاش میں اڑتے پھرتے تھے اس لئے ہم دن دھاڑے سفر نہیں کرتے تھے ۔ سندر بن بہت گھنا اور خطرناک جنگل ہے جہاں جنگلی جانوروں کی بہتات ہے ۔ بندر، سانپ اور بچھو تو بہت عام ہیں ۔ ان سب سے بچ کے رہنے کے علاوہ مکتی باہنی سے بچنا بھی اپنے مینو (menu) میں تھا;252; مکتی باہنی سے بچتے تو جنگلی درندوں سے دو دو ہاتھ کرنے پڑتے اور ان سے چھوٹتے تو مکتی باہنی سے مڈھ بھیڑ ہوجاتی ۔ اور تو اور، بانس کے درخت سے اللہ بچائے;252; بانس کے درخت خودرو درخت ہوتے ہیں ۔ راتوں رات کئی کئی انچ لمبی بانس کی نئی کونپل نکل آتی ہے ۔ اور یہ کونپل ایک بڑے سوئے کی جیسی نوکیلی اور تیز ہوتی ہے اور جب ز میں سے نکلتی ہے توایک جھٹکے سے نکلتی ہے جیسے کوئی ہتھوڑے سے کیل ٹھوکتا ہو ۔ ہم آرام کرنے کیلئے سستاتے تو ساتھ ہی ایک بانس کونپل نکل آتی ۔ لاحول ولا قوۃ پڑھ کر بیٹھ جاتے اور جان کی امان پانے کا شکرادا کرتے اور پھرکہنیوں کے بل بیٹھ کر اگلی کونپلوں کے نکلنے کی جگہ کا تعین کرتے اور وہاں سے آگے کھسکتے ۔ ہمارا حال بالکل ایسا تھا کہ آسمان سے گرا ، اور کھجور میں اٹکا ۔ اوپر سے دشمن کا ڈر، مکتی باہنی کا ڈر اور درندوں کا ڈر اور نیچے سے بانس کونپل کا ڈر ۔

بہت مشکل سے ہم رات میں کنارے کنارے سفر کرتے رہے ۔ ڈر یہ تھا کہ بوٹ کی آواز سے اگر کہیں نزدیک آبادی ہو تو وہ جان جائیں گے کہ پاکستانی جارہے ہیں اور اگر کھلے سمندر میں جائیں تو اوپر سے ہوائی جہاز کی گرفت میں آنے کا ڈر ۔ ہماراریڈار سسٹم بھی خراب تھا اور کمپاس (compass)بھی نہیں تھا ۔ ہم ستاروں کی روشنی میں اللہ اللہ کرکے چل رہے تھے ۔

آخر کار ہم نے دور سے کچھ فوجی کشتیاں اپنے قریب آتی دیکھیں ۔ ہمارا یہ معرکہ کامیاب ہوتا دکھائی دیا ۔ فوجی کشتیاں برمی حکومت کی تھیں اور ہ میں انہوں نے پناہ دی ۔ ہم لوگوں کو انہوں نے ایک صاف ستھرے ماحول والے کیمپ میں رکھا ۔ ہماری حکومت سے رابطہ کیا گیا اور پھر کچھ دنوں کی زحمت کے بعد ہم لوگ پاکستان واپس پہنچ گئے ۔

پاکستان زندہ باد

 

Syed Faisal Habib
About the Author: Syed Faisal Habib Read More Articles by Syed Faisal Habib: 2 Articles with 3571 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.