فن لینڈ کا تذکرہ اور ہمارے لکھاری

وقت کسی کے لئے نہیں رُکتا ________وقت کی رفتار تب بھی رفتار ہوتی ہے جب دلوں کی دھڑکنیں بند ہوجاتی ہیں۔

وقت زنداں کی تاریکی، کہساروں کی بلندی اور صحراؤں کی معظرب رتوں سے بہار کی شا موں، خزاں کی دوپہروں اور ساون کی جھڑیوں میں چلتا رہتا ہے۔ جناب ممتاز مفتی نے اسے سمے کا بندھن لکھا جبکہ میری کم مایا سی سوچ کے مطابق یہ فطرت کا تیز رفتار منہ زور گھوڑا ہے جو دوڑے چلے جارہا ہے۔ کہیں یہ لمحات کی صورت یا د کیا جاتا ہے تو کہیں یہ خیالات بنتا ہے اور کہیں یہ ایک تجربہ اور کسی داستان گو کی داستان گوئی بنتا ہے۔ وقت تاریخ بنتا ہے اور پھر اسے دھرایا جاتا ہے کبھی کسی کہانی کی صورت میں اور کبھی کسی مثال کی صورت میں. چلتے پھرتے ہم ہر روز کسی ناں کسی کہانی یا داستان کا حصہ بن جاتے ہیں .

جیسے انسانوں کی کہانیاں ہوتی ہیں ویسے ہی ملکوں کی بھی داستانیں ہوتی ہیں کیونکہ یہ ملک ان انسانوں نے ہی آباد کیے اور پھر وہ اس بڑی تصویر کا حصہ ہوتے ہیں جسے ہم معاشرت کہتے ہیں .

میں کافی مدت سے سفر میں ہوں . اور میں نے کافی ساری سفری داستانیں پڑھی ہیں میرے ایک دوست اور استاد کا کہنا ہے کہ وہ سفری داستان کسی صورت سفر نامہ نہیں ہوتی کہ جس میں عشق و حسن کی داستانیں نہ ہوں۔ میرے دوست کے مطابق سفری داستان میں داستان گو کو کم از کم یہ ضرور لکھنا چاہیے کہ میں ریل کا سفر کر رہا تھا ایک ماہ جبین دروازہ کھول کرآئی میرے ساتھ والی نشت پر بیٹھی اور پھر تھکن کے مارے میرے کندھے پہ سر رکھ کر سوگئی۔ یہیں سے وہ داستان عشق شروع ہوتی ہے جو سفر کے آخر تک ایک انجان سے بندھن کے طورقائم رہتی ہے اور پھر داستان گو آخری روز اسے ہوٹل کے کمرے میں سویا چھوڑے چلا آتا ہے۔ ایک رقعہ اس کی مدہوش زلفوں کے پاس رکھ کر یہ لکھتا ہے کہ میں اجنبی انجان منزل کا مسافر ہوں تمہاری رفاقت میرے سفر کا ایک حسین تجربہ تھی...............

زندگی کا ایک مقصد ہوتا ہے اور اس مقصد کی تکمیل کے لیے انسان کو ایک جدوجہد سے گزرنا پڑتا ہے۔ ایسی ہی ایک جدوجہد پچھلی ایک صدی سے ہمارے اہل وطن، وطن سے دور کرتے نظر آتے ہیں . بہت سی قربانیاں اور بہت سا عزم ان لوگوں کی اس جدوجہد کا حصہ ہے . گو کہ آج دنیا کا نقشہ اور حالات بدل رہے ہیں مگر جدوجہد آج بھی وہی ہے جو آج سے پہلے تھی ۔ مگر جب ہمارے لکھاریوں اور تاریخ دانوں نے وطن سے دور رہنے والے تارکین وطن کا حال بیان کیا تو اسمیں کچھ زیادہ ہی مصالحہ شامل کر دیا . اس کا ایک نقصان تو یہ ہوا کہ نوجوانوں نے جن کا تعلق برصغیر کے کم مراعات یافتہ طبقے سے تعلق تھا یورپ کے خواب دیکھنا شروع کر دیے جبکہ میرے مادر وطن کشمیر کے اس حصے میں کہ جہاں میری پیدایش ہوئی بچے کی پیدائش پر ہی ماں باپ نے اسے برٹش بنانے کے لیے اپنا کام شروع کیا اور اسکا نتیجہ آج برطانیہ میں منی آزاد کشمیر ہے . ان کشمیریوں نے بے تحاشہ محنت کی مگر آخر یہ بھی لٹیروں کے ہاتھوں اپنے وطن سے دور یہاں برطانیہ میں لٹے اور لوٹنے والے آزاد کشمیر کے سیاست دان، پٹواری ، تھانیدار اور سب سے مہلک گدی نشین پیر ہیں . خیر ان کا رونا ہم بہت رو چکے اب تو جب تک لوگ ان کو گھر بلوا کر ان کی جیب گرم نہ کریں انھیں مزہ ہی نہیں آتا . میں بات کر رہا تھا تاریخ کی کتابوں کی تو تاریخ کی کتابوں میں مورخین نے انتہائی غیر ذمہ دارانہ جھوٹ لکھے جنکی وجہ سے تاریخ کے حقائق کبھی سچ کی صورت سامنے نہ آ سکے اور جہاں کسی نے تاریخ کی سچائی بیان کی وہاں پڑھنے والے نے اسے یہ کہہ کر شیلف کی نظر کر دیا کہ یہ " بورنگ " ہے.

میرے خیال سے تاریخ کے ساتھ سب سے بڑا مذاق یہ ہے کہ اسے بیان کرنے والوں نے ان لوگوں اور حوالوں کا سہارا لیا جو کبھی سچ تھے ہی نہیں ، یہی حال ہمارے ان لکھاریوں کا ہے جو سفر نامے لکھتے ہیں . کمپیوٹر کی ایجاد نے سفر نامہ آسان کر دیا ہے . لکھاری اپنے گھر میں ہی گوگل پہ سارا سفر کرتا ہے اسمیں دو چار عاشقی کی داستانیں ڈالتا ہے اور پھر کسی اچھے پریس سے اسے چھپوا کر رائٹر آف دی ایر کا ایوارڈ لے لیتا ہے . حقیقت میں اگر کبھی ان گھر بیٹھے سیاحوں کے نقشوں پہ ہم سفر پہ نکلیں تو کبھی بھی منزل پہ نہ پہنچ پائیں . آج کے دور کے خود ساختہ سیاحوں کے سفر اور ہمارے پٹواریوں کے لٹھے ایک جیسے ہیں جو وقت کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں جن میں کچھ سچ اور بہت سا مذاق ہوتا ہے .

آجکل یہاں برطانیہ میں ٹی وی پر مائیکل پورٹیلو جو ایک سیاست دان ہے ریلوے کے نظام اور پچھلی صدی کے ریلوے کے اوقات کار اور ان کو ترتیب دینے والے جورج بروڈ شاہ کی سفری داستانوں کو بیان کرتا ہے . آدھ گھنٹے میں مائیکل کسی ایک حصے سے دوسرے حصے کا سفر اسی پٹڑی پہ کرتا ہے جسپر بروڈ شاہ نے سفر کیا تھا اور اس کا ترتیب کردہ نقشے جو ١٨٣٩ سے شروع ہوتے ہے اس بات کے غماز ہیں کہ براڈ شاہ نے نہ صرف یہ سفر طے کیے بلکہ اسکی جو ترتیب بیان کی حقیقت پر مبنی ہے . خیر میں باقی کالم نگاروں اور قلم کاروں کی طرح کسی موازنے میں نہیں جاؤں گا.

آج کتاب دوست بہت کم ہیں کسی کے پاس اچھی کتاب پڑھنے کا وقت نہیں ہے اور جو کتابیں ملتی ہیں ان میں اسقدر بے معنی مواد ہوتا ہے کہ پڑھ کہ کوفت ہوتی ہے . ابھی کچھ روز قبل ایک کتاب جو مجھ تک پہنچی انتہائی خوبصورت اور بڑے انہماک سے تریب کردہ دستاویز ہے جسے فن لینڈ میں آباد ایک پاکستانی وطن دوست قلم کار محمد ارشد فاروق نے ترتیب دیا اور اس کا ترجمہ فنش سے اردو میں کر کہ فنش سے نا واقف میرے جیسوں کو اس خوبصورت سرزمین سے آشنائی دلائی ہے . کتاب کے کل صفات ٣٥٨ ہیں جبکہ کتاب پر پاکستان کے مشہور اور نامی لکھاریوں اور اردو ادب کے چند استادوں جناب امجد اسلام امجد اور افتخار عارف نے تبصرہ ضبط قلم کیا ہے . اس کتاب کو پڑھنے کے بعد احساس ہوا کہ برطانیہ اور یورپ کے وہ علاقے کہ جہاں برصغیر پاک و ہند کے لوگ کثرت سے آباد ہیں کس قدر فلاحی اور خوبصورت ہیں . ارشد فاروق خود بھی ایک سیاح ہیں اور ان میں فطرت کو دیکھنے اور پرکھنے کا ایک شوق ہے . اس کتاب کے تمام مضامین انتہائی دلچسپ ہیں اور پڑھنے والے کو اکتاہٹ کا احساس نہیں ہوتا . کسی انجان خطے میں وہاں کی زبان پہ عبور حاصل کرنا اور اس سرزمین کی گائیڈ بک ترتیب دینا ایک ایسا شخص ہی کر سکتا ہے جسے لفظوں سے پیار ہو اور جو بے وطنی کی اہمیت کو جانتا ہو .

ارشد فاروق کی کتاب پڑھنے کے بعد احساس ہوا کہ ہمارے کتنے لکھاری جو خود کو سفر نامے کا گرو اور قلم کا پا سدار کہتے ہیں کس قدر زیادتی کرتے ہیں جب کسی اندیکھی جگہ کو اپنے سفر کی داستان رقم کرتے ہیں . کتاب کی ترتیب اور کتاب کے مضمون کی آسان ترجمانی پر میں صاحب کتاب کو مبارکباد پیش کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ وہ مستقبل میں بھی اپنے تجربات قلمبند کرتے رہیں گے . وطن سے دور کسی بھی رنگ و نسل کا تارک وطن ایک پرندہ ہوتا ہے جیسے پرندوں کا رزق انہیں ماٹی بدر کردیتا ہے ویسے ہی تارکین وطن بھی ایک درخت سے دوسرے پہ اپنا ٹھکانہ بناتے رہتے ہیں مقصد ناصرف بہتر رزق کا حصول ہے بلکہ اپنے چاہنے والوں کی امیدوں کی تکمیل ہے جن کی خاطر وہ اپنی مٹی سے اڑتے ہیں ملکوں ملکوں گھومتے ہیں اور ہر وقت اپنوں کی یاد کے سہارے لمحات سے سمجھوتہ کر لیتے ہیں انسان گوکہ مرد کوہستانی اور بندہ خاکی ہے وہ اپنا مسکن بدلتا ہے وہ بھی سفر کرتا ہے اور وہ بھی منظر اور منزل کی تلاش کرتا ہے . ایسے حالات میں جن تجربات کا سامنا یہ لوگ کرتے ہیں اس کا بیان لفظوں میں ممکن نہیں . اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو (آمین )

ختم شد
Anwaar Raja
About the Author: Anwaar Raja Read More Articles by Anwaar Raja: 71 Articles with 70251 views Anwaar Ayub Raja is a professional Broadcaster, voice over artist and linguist for Urdu and Mirpuri languages. Soon after graduating from University o.. View More