تحریر: مولانا پروفیسرمحمد عثمان ساقی
یہ ایک سچی کہانی ہے ۔سردیوں کی ٹھٹھرتی راتوں میں ان کے پاس سونے کو ایک
کمبل تک نہ تھا ۔وہ اس جان لیوا سردی سے بچنے کے لیے بکریوں کے ڈیرے میں
بھیڑ بکریوں کے ساتھ چمٹ کر گزارا کرتے تھے۔ان کے ہاں ایک ہی بیٹا تھا،جو
ان کی زندگی کی کل جمع پونجی تھی۔اس بچے کا والد لوگوں کی بکریوں کو چرانے
کام کرتا تھا۔ وہ یوکرائن کے رہنے والے تھے،جو کہ ۱۹۹۲ ء میں روس سے ساحلی
جنگ چھڑنے کے سبب امریکہ منتقل ہو گئے ان کی پوری بستی ہلاک کر دی گئی
چنانچہ اس کی والدہ نے اپنے شوہر کے ساتھ پناہ گزینوں میں شامل ہونے کا
مشورہ دیا جسے اس کے شوہر نے یکسر مسترد کردیا کہ وہ اپنے خاندان کو چھوڑ
کر امریکہ نہیں جائے گا۔چنانچہ اس کی ماں نے ایک گٹھڑی میں چند کپڑے باندھے
اور پناہ گزینوں میں شامل ہوگئی۔ چند دن کی مسافت کے بعد وہ امریکی ریاست
کیلیفورنیا میں کھڑے تھے ۔جلا وطنی ،غریب الوطنی اور پھر تمام رشتوں کی
دوریاں ۔۔۔۔ ایک ماں اور اس کا چھوٹا سا پانچ سال کا بچہ ۔۔۔ انجان ملک ،
انجان شہر ،انجان بستیاں اور انجان راستے ۔آخر کار اس کی والدہ جو ایک
متوسط طبقے کی پڑھی لکھی خاتون تھی ۔امریکہ کی ریاست کیلیفورنیا میں فوڈ
اسٹیمپ میں رہنے کا ارادہ بنایا۔یہ ایک ایسا ادارہ ہے جو غریب اور مفلو ک
الحال لوگوں کو خیراتی طور پر مفت کھانا فراہم کرتا ہے ۔وہ بچہ اور اس کی
ماں وہاں رہنے لگے۔فوڈ اسٹیمپ کی منیجر اس کی ماں کو آوارہ،سست اور بھکاری
ہونے کا طعنہ دیا کرتی۔وہ ماں بیٹا اس منیجر کی طعن و تشنیع کو سہتے اور جی
ہی جی میں کڑھتے تھے ۔اس بچے کی ماں کو اپنے بچے کی تعلیم کا بہت شوق
تھا۔وہ لوگوں سے بھیک مانگ کر اور فوڈ اسٹیمپ میں صفائی کر کے اپنے بچے کو
تعلیم دلواتی رہی یہاں تک کہ وہ بچہ انٹرمیڈیٹ کے امتحان میں امتیازی
نمبروں سے کامیاب ہوا۔اس کی ماں کے پاس اپنے بچے کو اعلیٰ تعلیم دلوانے کے
لیے رقم نہ تھی مگر اس بچے نے ہمت نہیں ہاری ۔اس نے سوفٹ ویئر انجینئرنگ
میں داخلہ لیا ۔ وہ ایک برتنوں والے سٹور میں سویپر کی نوکری کرتا رہا اور
اس آمدن سے اپنے تعلیمی اخراجات پورے کرتارہا۔اس دوران اس کی ماں کینسر کی
طویل بیماری کے باعث فوت ہوگئی۔ بالآخر چار سال کی محنت شاقہ کے بعد وہ
سوفٹ ویئر انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔وہ ایک محنتی اور
قابل انجینئر تھا۔۲۰۰۴ میں اسے پہلی دفعہ’’ یاہو ڈاٹ کام‘‘ میں کام کرنے کا
موقع ملا۔اس کے مالی معاملات بہتری کی طرف تھے کہ اسے نوکری سے بے دخل کر
دیا گیا۔وہ اپنے تعلیمی کوائف کے ساتھ فیس بک کے ایچ ۔آر آفس پہنچا مگر نا
تجربہ کاری کے سبب اس کی شنوائی نہ ہو سکی۔اس کی زندگی کی ایک بڑی خواہش یہ
تھی کہ اس کے پاس ایپل کا آئی فون ہو۔چناچہ وہ دوپہر کا کھانا ترک کر کے
رقم بچاتا رہا اور ایپل کا آئی فون خریدنے میں کامیاب ہو گیا۔اس کے ذہن میں
ایک ترکیب سوجھی کیوں نہ ایک ایسی ایپ ایجاد کی جائے جسے نہ صرف پوری دنیا
میں تحریری پیغامات بلکہ صوتی و تصاویری پیغامات اور آڈیو ویڈیو کال کے طور
پر بھی استعمال کیا جا سکے اور اس کا مواد محفوظ بھی رہے۔چناچہ صرف ایک سال
کی انتھک کوشش کے بعد وہ اپنے اس ہدف کو مکمل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔اس
ایپ کی ۲۰۰۹ میں تقریب رونمائی کی گئی۔یہ ایپ اس وقت دنیا میں میں ۴۵۰ ملین
سے زائد لوگوں میں استعمال ہو رہی ہے۔جب اس بچے نے اس ایپ کو فروخت کرنا
چاہا تو دنیا کی بڑی بڑی کمپنیاں خریداروں کی فہرست میں شامل تھیں۔یہ بولی
(۲) ملین سے شروع ہوئی اور (۱۹) بلین پر جا کر ختم ہوئی مگر اس بچے نے اس
ایپ کو فروخت کرنے پر یہ شرط لگائی کہ وہ اس ایپ کو فروخت کرنے کا معاہدہ
فوڈ اسٹیمپ کے اسی خیراتی ادارے میں جا کر ے گا جہاں بہت عرصہ قبل اس نے
اوراس کی ماں نے پناہ حاصل کی تھی۔ پہلے تو وہ کمپنی انکار کرتی رہی مگر یہ
بچہ اپنی بات پر ڈتا رہا اور بالآخر وہ آئی ٹی کمپنی اس بچے سے وہ ایپ لینے
پر مجبور ہوگئی۔اس بچے نے فوڈ اسٹیمپ کے اسی خیراتی ادارے میں بیٹھ کر (۱۹)
بلین کا چیک وصول کیاتو اس نے اسی خاتون کے سامنے جا کر وہ چیک رکھا جو اسے
اور اس کی ماں کو بھکاری ہونے کا طعنہ دیا کرتی تھی۔محترم قارئین کیا آپ
جانتے ہیں کہ اس ایپ کا نام’’ واٹس ایپ‘‘ ہے اس بچے کا نام ’’جان کاوم ‘‘ہے
اور اس خریدار کمپنی کا نام’’ فیس بک ‘‘ہے
|