دست قدرت

خو ش قسمت ہو تے ہیں وہ لو گ جن کی کسی ادا با ت لفظ حرکت عبا دت ریا ضت مجا ہدے ، دعا سے خا لقِ کائنات راضی ہو جا تا ہے اور پھر اس کے دل کو اپنی محبت سے بھر دیتا ہے جب کسی انسان کے دل و دماغ میں خدا کی محبت کا شگو فہ کھِلتا ہے تو اس کا کائنات میں بکھر ے ہو ئے خدا کے منا ظر میں صرف اور صرف مالک کائنات ہی نظر آتا ہے بلا شبہ کا ئنات میں ہر طرف حسن بکھرا پڑا ہے یہ مسکراتے نا چتے پھول اور ستا رے گنگناتی ہو ئی ہوا ئیں مست گھٹائیں لہراتی ہو ئی بجلیاں پہا ڑوں سے پھو ٹتے چشمے اور جھرنے پہا ڑوں سے گر تی ہوئی آبشاریں گا تی ہو ئی ندیا ں میٹھی دل آویز چاندنی سنہری دھو پ خما ر آلو د شا میں یہ درخت با غات با رش اڑتے سر مئی با دل چار سو جلو ے ہی جلو ے نغمے ہی نغمے کائنات میں ہر وقت رنگ و نور کی برسات جا ری رہتی ہے قوسِ قزح کے رنگ کہکشاں کی روشنی آسمان چاند تارے ہر منظر ِ خدا کے وجود کی گوا ہی دیتا ہے ظا ہری حسن کے ساتھ ساتھ اِن میں بلا کی لطا فت اور پیچیدگی پا ئی جا تی ہیوہیل مچھلی کے صرف ایک بال تک غذا پہنچانے کے لیے چار سو نسوں کا جال بچھا ہوا ہے انسانی دما غ کروڑوں اعصابی خلیوں اور جوا ہر کا مرکب ہے خدا ئے واحد کی بڑی تخلیقات کے ساتھ ساتھ ایسی با رک مکھیاں بھی نظر آتی ہیں جو اتنی ننھی اور چھوٹی ہو تی ہیں کہ ان کے پر سر اور پا ں تک دکھا ئی نہیں دیتے لیکن وہ اپنی ذات میں مکمل ہو تی ہیں اس خالقِ عظیم کی عظمت ملا حظہ ہو کہ اس نے اِن کی با ریک ٹا نگیں اور پر بنانے کے لیے کو نسا طریقہ یا آلا ت استعمال کئے ہیں اگر انسان اپنے جسم پر ہی غو ر کر لے تو خدا کے آگے سجدہ ریز ہو جا ئے ہم جب قدم اٹھا تے ہیں تو ایک ٹا نگ جسم کا سہا را دیتی ہے اور دوسری آگے بڑھتی ہی اِس چھوٹے سے عمل میں تقریبا ایک سو اٹھ پٹھے کام کر تے ہیں لیکن اس خدا کی تخلیق پر حیران جا ئیں کہ ہمیں با لکل بھی احساس نہیں ہو تا کب پٹھے مڑے پھیلے اور سکڑے ہما را جسم ایک مشین کی طرح کا م کر تا ہے ہما رے جسم کے تمام اعضا ایک دوسرے کے ساتھ مکمل تعاون کر تے ہیں انسان کی بتا ئی مشین نہ تو اپنی دیکھ بھا ل اور نہ ہی اپنی مرمت کر تی ہے لیکن حیوانی مشین اپنی مرمت اور دیکھ بھال خو د بخود کر تی رہتی ہے یہ روزِ اول سے ما دے کو توا نا ئی میں اور توا نائی کو ما دے میں خو د ہی کر رہی ہے اِس میں ہما ری کو ئی کو شش نہیں ہے جب بھی کو ئی وائرس یا جراثیم ہما رے اند ر چلا جا تا ہے تو ہما را دفاعی نظا م اس پر ٹو ٹ پڑتا ہے زخم اورہڈی اگر ٹوٹ جا تے تو خو د ہی مرمت اور ٹھیک ہو جاتے ہیں خو ن اگر بہہ نکلے تو خو د ہی جمنا شروع ہو جا تا ہے جسم کے سارے اندرونی نظا م خود بخود ہی کام کر تے رہتے ہیں جب ہم جا ندار اشیا کا مطالعہ کر تے ہیں تو ہمیں حیرت انگیز منظر اور پلان نظر آتا ہے ہر جاندار ماحول کے سانچے میں ڈھل رہا ہے کچھ جانور ایسے ہیں جو صرف خشکی پر زند ہ رہ سکتے ہیں کچھ ہوا میں کچھ کھا رے پا نی میں کچھ میٹھے پا نی میں مچھلی کی ایک قسم سمندر کی گہرائیوں میں رہتی ہے جہاں روشنی نہیں پہنچ سکتی کچھ جا نور صرف بر فوں میں ہی رہ سکتے ہیں کچھ آگ برساتے صحراں میں کچھ پہا ڑوں کی بلندیوں پر قدرت نے اِن جانوروں کی حفاظت کا بھی شاندار خو د کار نظام وضع کر رکھا ہے جو جا نور جس ما حول میں رہتا ہے اسے وہی رنگ عطا کر دیا جا تا ہے تا کہ وہ نظر نہ آسکے کا ئنات کا آپس کا با ہمی تعلق بھی کیا خو ب ہے پو دوں کا انحصار زمین کی زرخیزی ہے تو حیوانات کا پودوں پر باغ میں کو ئی پھول اس وقت تک نہیں کھل سکتا اور پھل میں شیرینی نہیں آسکتی جب تک ستا روں کی شعاوں سے مستفیض نہ ہو ں انسان کے معمولات پر اگر غو ر کریں تو خدا یا د آجا تا ہے انسان نے اپنے کاموں کے لیے مختلف لیور بنا ئے کنویں سے پانی نکا لنے کے لیے چرکھڑی زمین جو تنے کے لیے ہل بنا یا کدال درانتی بیلچہ اِس قسم کا نظا م انسانی جسم میں بھی ہے مثلا ایک لیور سر اٹھا نے اور جھکا نے کے لیے دوسرا بدن کو سہا را دیتے اور تیسرا اشیا کو اٹھانے کے لیے اور آپ دیکھیں جسم کے لہر جوڑ پر قبضے لگا دئیے جا تے ہیں ہما رے کندھوں گھٹنوں ٹخنوں کلائیوں کہنیوں اور کمر کو مضبو ط قبضوں نے جکڑ رکھا ہے بدن میں با ریک نا لیوں کا جال بچھا ہو اہے اور جا بجا والو لگے ہو ئے ہیں کمال کی تخلیق ملا حظہ ہو کہ ہوا غذا کی نا لیوں میں نہیں جا سکتی اور نہ غذا ہوا کی نا لی میں اِسطرح کے والو شریا نوں میں بھی موجو د ہیں ہما رے جو ڑوں کو تیل دینے کا بھی فطری نظام موجود ہے دانت میں خون کی سپلا ئی کا نظام کتنا حیرت انگیز ہے آنکھ اور کان کی ساخت دیکھ کر تو انسان سجدہ ریز ہو جا تا ہے اس خدا کی خا لقیت کو دیکھ کر اور خا لق عظیم کی ثنا پر مجبور ہو جا تا ہے اب خدا کو نہ ماننے والوں سے یہ سادہ سا سوا ل ہے کہ کیا حیوانی جسم کی مشینیں مثلا کان آنکھ زبان معدہ جگر دل پھیپھڑے کیا کسی خا لق کے بغیر ہی تخلیق پا گئے ہیں ؟ کیسا اتنی کامیا ب اور بھر پو ر مشینوں کی تخلیق کے لیے اعلی درجے کا علم اور دما غ نہیں چاہیے تھا ااگر ہم یہ مان لیں کہ آنکھ کان ایک خود کار نظا م یا مشین کی تخلیق سے تو پہلا سوا ل یہ اٹھے گا کہ اس خو د کار نظام یا مشین کا خالق کو ن ہے وہ رب ہے اِس کا ئنا ت کا اکلوتاوارث آپ جب کا ئنا ت میں مختلف تخلیقات پر غور کر تے ہیں تو نو ٹ کر تے ہیں کہ کا ئنا ت کی ترتیب حسن اور تنو ع میں کو ئی غیر معمولی علم اور دانش کا م کر رہی ہے کو ئی بے پنا ہ ہے کو ئی بھی تخلیق آپ دیکھ لیں آپ کو غیر معمولی Perfectionنظر آتی ہے جب انسان کو ئی مشین بنا تا ہے تو اس میں بہت سارے نقائص نظر آتے ہیں انسانی مشینوں کی آوازوں گڑگڑاہٹ سے اردگرد نواع میں زلزلے کی سی حالت بن جاتی ہے کہ اِن مشینوں کے شور سے پاس کھڑا ہو نا بھی مشکل ہو جا تا ہے اور جب آپ خدا کی تخلیقات کی طرف دیکھتے ہیں تو حیران ہو جا تے ہیں کہ آپ کے اطراف میں کروڑوں مشین یوں چل رہی ہیں کہ کہیں سے ہلکی سی آواز بھی نہیں نکلتی آپ کسی پھو ل کے پودے کو دیکھیں کس طرح پھو ل اپنے تخلیقی مراحل سے گزرتا ہے آپ آم کے درخت کو دیکھیں جو ایک مکمل فیکٹری سے جس میں پتے شاخیں ہیں جڑوں میں پہلے بور آتا ہے جو امبیوں میں ڈھلتا ہے اور امبیاں آم کی شکل میں آم میں دنیا کا بہترین ذائقہ گھٹلی مٹھا س خوشبو اور لذیذ ترین رس پا یا جا تا ہے اگر آپ کو کوئی جو س کی بو تل بنا نی یا بھر نی ہو تو کئی مشین کام کر تی ہیں جبکہ آپ خدا کی مشینوں کو دیکھیں کس طرح خا موشی ادب اور پراسرار طریقے سے کام کر رہی ہیں کہ کو ئی شور نہیں کو ئی آواز نہیں اگر قدرت کی بنا ئی مشینوں سے آوازیں نکلتی تو یہ زمین رہنے کے قابل نہ رہی جس طرح دھما کوں زلزلوں ٹرین کے آنے سے انسان جانور دور بھا گ جا تے ہیں اِسی طرح قدرتی مشینوں کے شور سے بھی بھا گ جا تے اِن قدرتی مشینوں کی خا موشی اس خالقِ عظیم کے بے پنا ہ علم کا ثبو ت ہے یہ کسی میں اتنی ہمت اور علم کہ وہ اِن درختوں اور پو دوں کی گنتی کر سکے یہ با ت تو طے ہے کہ کا ئنا ت کا نظام جو نہا یت با قاعدگی سے چل رہا ہے اِس میں کہیں کو ئی خرابی خا می نہیں آتی تو اِس کو کون چلا رہا ہے ہا ں پس حجاب پر دے کے پیچھے کو ن ہے اِس کا نپتی لر زتی کا ئنا ت کو جس غیر مر ئی ہا تھ نے چابک دستی سے تھا م رکھا ہے وہی خدا ہے اِس کا ئنات کا حقیقی اور اکلوتا وارث ۔

 

Prof Abdullah Bhatti
About the Author: Prof Abdullah Bhatti Read More Articles by Prof Abdullah Bhatti: 805 Articles with 736048 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.