پاکستان۔آسٹریلیا لٹریری فورم انکارپوریٹڈ(پالف
آسٹریلیا)کے زیرِ اہتمام معروف دانشور، شاعر، محقق، اقبال شناس اور ماہرِ
تعلیم پروفیسر محمد رئیس علوی مرحوم کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے
10دسمبر کو ایک تعزیتی ریفرنس منعقد کیا گیا۔ پروفیسر رئیس علوی اگرچہ
کینسر جیسے موذی مرض کو شکست دینے میں کامیاب ہو گئے تھے تاہم نمونیا کا
سامنا نہ کر سکے اور2دسمبر2021کی صبح خالقِ حقیقی سے جاملے (انا للہ وانا
الیہ راجعون)۔ تعزیتی ریفرنس سے آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، ملائشیا اور پاکستان
سے معروف شخصیات نے خطاب کیا۔
پروفیسر رئیس علوی ایک ہمہ جہت شخصیت تھے۔کراچی یونیورسٹی کے رجسٹراراور،
قلندر شہباز یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی کراچی کے وائس چانسلرکی حیثیت سے خدمات
سر انجام دیں۔ وہ اردو ادب کا ایک نہایت معتبر نام تھے۔وہ علم وادب کی
روشنی پھیلانے کے لیے پانچ دہائیاں شبانہ روز مصروفِ کار رہے۔ان کی نو
کتابیں شائع چکی ہیں۔
پروفیسرڈاکٹر رئیس احمدؔ صمدانی نے اس موقع پر ”لکھنؤ ی تہذیب کا نمائندہ
شاعر۔پروفیسر رئیس ؔعلوی“ کے عنوان سے پر مغز گفتگو کی۔ ان کا کہنا تھا کہ
جب سے پروفیسر علوی کے دنیا سے رخصت ہوجانے کی خبر سنی ہے میری سوچ کا
محورمیرا ہم نام ہی ہے۔ پروفیسر رئیس علوی نے ہندوستان کی علمی ادبی سرزمین
لکھنؤ میں 7 مئی 1946ء میں آنکھ کھولی۔ لکھنؤ اور دہلی کی تہذیب، ادب خاص
طور پرشاعری کے حوالہ سے اپنا ثانی نہیں رکھتی۔ لکھنؤ ایسی سرزمین ہے جس نے
اردو کے بڑے اور نامور شاعروں کو جنم دیا۔ لکھنؤ کی تہذیب میں ایک خاص بات
یہ بھی ہے کہ جس شخص نے لکھنؤ میں آنکھ کھولی ہو، وہاں پرورش پائی ہو، وہاں
کی شاعرانہ فضاء میں سانسیں لی ہوں اس کی گفتگو، رہن سہن، انداز سب سے بڑھ
کر اس کا بانک پن بتا دیتا ہے کہ وہ لکھنؤی تہذیب میں پلا بڑھا ہے۔ پروفیسر
رئیس علوی کی خصوصیات اپنی جگہ ان کا ظاہری انداز، ان کی گفتگو، اٹھنا
بیٹھنا، طور طریقہ،شاعری، ادب سے تعلق پتا دے رہا ہوتا تھا کہ وہ لکھنؤی
تہذیب کے پروردہ ہیں۔اپنی جنم بھومی لکھنؤکے بارے میں ’نذرِ لکھنؤ‘ کے
عنوان سے کیا خوب شعر کہے ؎
یہ لکھنؤ یہ گل ِ چاندنی کا گلشن ناز
یہ سر زمین یہ حسینانِ مہہ جبیں کا وطن
یہ سر زمین یہ محبت کی آبرو ئے کہن
یہیں کہیں ہیں میرے بچپنے کے نقش قدم
یہیں کہیں مرے بچپن کے قہقہے مچلے
جو اس کی نرم فضاؤں میں جذب ہیں ابتک
یہیں کہ مدر سے میری صدا سے گونجے ہیں
یہیں کہ باغ، یہاں کے گلاب وپارہ سنگ
ورق ورق میری یادوں کے دردلکھتے ہیں
یہیں پہ میں نے تلاطم میں جینا سیکھا ہے
یہیں پہ سورشِ طوفاں کے حسن کو دیکھا ہے
پروفیسر رئیس علوی نے میٹرک لکھنؤ سے کرنے کے بعد پاکستان ہجرت کی اور شہر
کراچی کو اپنا مسکن بنایا۔ انٹر اور بی اے کرنے کے بعد جامعہ کراچی سے
1965ء میں لسانیات و ادب میں ایم اے کیا۔ کراچی کے سراج الدولہ کالج میں
استاد کی حیثیت سے اپنے خدمات کا آغاز کیا۔انہوں اپنے پہلے شعری مجموعہ میں
انہوں نے لکھا کہ ”اس مجموعے کی ترتیب و اشاعت کا بار انیتا غلام علی کے
سرجاتا ہے کہ ان کے اصرار سے شرمسار ہوکر میں نے اسے ترتیب دیا ورنہ یہ صرف
خواہش و خیال تک محدود رہتا“۔ رئیس علوی نے اپنے شعر ی مجموعے کے حوالہ سے
ایک خوبصورت شعر کہا:
ہوا ہے نقش دل میں اس کا چہرہ
رئیسؔ اب صَاحبِ دیوان ہوا ہے
کئی غزلوں کی فضانے انہیں تسلسل عطا کردیا ہے۔ رئیس علوی کے چند اشعار ؎
سوچتا ہوں کبھی دریا ہوتا
میں کسی شہر نہ ٹھرا ہوتا
رہگذر ہوتا سینے پر مرے
دم بہ دم کوئی گزرتا ہوتا
پاؤں ہوتے مرے آوارہ خرام
میں اک زلف کا سودا ہوتا
کاش اس عمرِ گریزاں سے الگ
کوئی لمحہ مرا اپنا ہوتا
ڈاکٹر صمدانی نے کہا کہ بعض موضوعات پر رئیسؔ علوی کی شاعری کمال کی ہے
مثلاً آنکھوں کے حوالہ سے ان کی نظم بہت خوبصورت ہے۔
یہ ذوق آنکھیں، جمال آنکھیں یہ ہجر آنکھیں، وصال آنکھیں
یہ زرد آنکھیں، یہ لال آنکھیں یہ ایک وحشت، غزال آنکھیں
یہ میری آنکھیں، تمہاری آنکھیں یہ جام آنکھیں، یہ شراب آنکھیں
یہ روز شب کا حساب آنکھیں حُروف دل کی کتاب آنکھیں
تپش سے دل کی خراب آنکھیں یہ میری آنکھیں، تمہاری آنکھیں
2007ء میں بھارت نے ہندوستان میں ہندی اردو ساہنتیہ ایوارڈ کمیٹی یوپی نے
اردو زبان کی خدمت کے اعتراف میں ادبی ایوارڈ سے نوازا۔ معروف شاعر فیض
احمد فیضؔ کے بعد یہ دوسرا ایوارڈ تھا جو کسی پاکستانی کو دیا گیا۔
پروفیسر رئیس علوی جب کراچی شہر میں تھے ادبی تقاریب میں ملاقات ہوجایا
کرتی۔ پھر معلوم ہوا کہ وہ آسٹریلیا کے شہر سڈنی اپنے بیٹے کے پاس چلے گئے
ہیں۔بھلا ہو افضل رضوی کا کہ انہوں نے پالف کے پلیٹ فارم سے مجھے بھی اس
طرح شامل کر لیا کہ میں پالف آسٹریلیا کی آن لائن ادبی تقریبات میں شریک
ہونے لگا۔ انہیں ادبی تقاریب میں سڈنی سے پروفیسر رئیس علوی بھی ایک مقرر
ہوا کرتے، ہم کئی پروگراموں میں ساتھ رہے۔ میں انہیں ’میرے ہم نام پروفیسر‘
کہہ کر ہی مخاطب کیا کرتا تھا۔ کیا نفیس انسان تھے، کہتے ہیں کہ پہنچی وہیں
پہ خاک جہاں کا خمیر تھا۔ لکھنؤ میں جنم لینے والے رئیسؔ علوی کو اللہ پاک
نے آسٹریلیا کے شہر سڈنی کی مٹی سے بنایا تھا اور وہ وہاں پہنچ گئے۔
افضل رضوی نے مرحوم ومغفور پروفیسر رئیس علوی کے اوصاف پر روشنی ڈالی اور
کہا کہ وہ ایک کھلے دل کے انسان تھے ادیبوں کی دل کھول کر تعریف کرتے تھے
کیو نکہ ان کا کہنا تھا کہ جس کا قلم چلتا ہے اس کی ستائش لازم ہے ورنہ
بخیلی ہو گی۔ انہوں نے اس موقع پر اپنی یاد اشتوں سے بھی حاضرین کو مستفید
کیا اور پروفیسر علوی کی ایک نظم کے اشعار بھی سنائے۔
جب شہرِ خزاں میں آئے ہو
کچھ دور چلو تنہا تنہا
کچھ دہر سنو سناٹے میں
کوئی نوحہ پیلے پتوں کا
کہیں تیز ہوا کے ہاتھوں سے
گری ٹہنی سوکھی شاخوں سے
کچھ بات کرو دھیرے دھیرے
کچھ خاک اڑاؤ رستوں کی
ذرا سر پہ بیٹھاؤ ذروں کو
پھر کھولو درد کے بستر کو
پھر اوڑو چادر زخموں کی
پھر دیکھو اپنے سینے میں
کوئی سرخ سی کونپل پھوٹتی ہے
پھر یاد کریدو یادوں کی
کوئی چنگاری ہے مہکے گی
پھر اجڑی سونی گلیوں میں
کوئی ڈھنڈو یار کا نقشِ قدم
جب شہر خزاں میں آئے ہو
کچھ دور چلو تنہا تنہا
قبل ازیں عاطف مجید ملک نے آن لائن تعزیتی ریفرنس بیاد پروفیسر محمد رئیس
علوی میں شرکاء کو خوش آمدید کہا اور سب کی شمولیت پر پالف آسٹریلیا کی
پوری ٹیم کی طرف سے شکریہ ادا کیا۔تعزیتی ریفرنس کا آغاز تلاوتِ قرآنِ پاک
سے ڈاکٹر محمد محسن علی آرزو ؔ نے کیا۔اس تقریب کی نمایاں خوبی یہ رہی کہ
اس کی نہ تو کسی نے صدارت کی اور نہ ہی کوئی مہمانِ خصوصی تھا۔
تعزیتی ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پروفیسر رئیس علوی کے صاحبزادے ڈاکٹر صفی
علوی نے اپنے والدِ گرامی ہی کے لب ولہجے میں گفتگو کی اور انہیں ایک عظیم
انسان اور بہترین سرپرست اور ایک شفیق باپ قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ابا
جان کی شاعری پڑھ کر سوچتا ہوں کہ کیا پھر کوئی ایسی باتیں لکھ سکے گا۔
انہوں نے کہا کہ ابا جان صحت کی طرف لوٹ رہے تھے کینسر سے نکل گئے تھے لیکن
اچانک نمونیا نے آلیا اور وہ اپنی نحافت اور ضعف کے باعث اس کا مقابلہ نہ
کرپائے اور خالقِ حقیقی سے جاملے۔انہوں نے کہا کہ پروفیسر مرحوم نے اپنی دو
کتابوں کی تفصیلات اپنی بیٹی فرح کو دی ہیں جو جلد شائع ہوں گی۔ اس موقع پر
انہوں نے پروفیسر علوی کی ایک غزل حاضرین کو سنائی جس کا مقطع لکھنے کی
انہیں مہلت میسر نہ آئی۔
پروفیسر علوی کی صاحبزادی فرح علوی نے کہا کہ یہ اتنا بڑا سانحہ ہے کہ ہم
نے صرف اپنے والد ہی کو نہیں کھویا بلکہ اردو ادب ایک عظیم ادیب سے بھی
محروم ہو گیا۔انہوں نے کہا کہ میں اس حوالے سے خوش قسمت رہی کہ آخری لمحات
میں اپنے والد کے پاس تھی۔ انہوں نے اس دنیا کو خیر آباد کہنے سے ایک گھنٹہ
قبل اپنے ادبی کاموں کے سلسلے میں ہدایات دیں اور ای میل لکھوائے۔
اس موقع پر پروفیسر علوی کے داماد اورنیوزی لینڈ کی معروف ادبی شخصیت عدنان
مرزا نے کہا کہ میرا رشتہ جناب رئیس علوی سے کئی حیثیتوں سے تھا۔ وہ میرے
خسرِ محترم تو تھے ہی لیکن وہ میرے لیے ایک سر پرست اور رہنما کی حیثیت بھی
رکھتے تھے۔ ہم نے یہاں سے سنگھم کا آغاز کیا تو ان کی رہنمائی میسر رہی۔
ڈاکٹر محمد محسن علی آرزوؔ نے پروفیسر رئیس علوی کی شخصیت پر روشنی ڈالتے
ہوئے کہا کہ مرحوم ایک اعلیٰ پائے کے ادیب، شاعر اور ماہرِ تعلیم تھے۔
انہوں نے منظوم خراجِ عقیدت پیش کیا جو یہاں نذرِ قارئین کیا جارہا ہے۔
ہاں اردو ادب پہ تیرا احسان ہے علوی
ہاں اردو ادب کی توہی پہچان ہے علوی
آواز میں، انداز میں، افکار میں یکتا
نقادِادب ایسا کہ للکار میں یکتا
اندازِ بیاں ایسا کہ گفتار میں یکتا
تھا زیب چمن گل وہی مہکار میں یکتا
ہاں اردو ادب پہ تیرا احسان ہے علوی
ہاں اردو ادب کی توہی پہچان ہے علوی
جانا تجھے دنیا نے تیرے طرز ِ بیاں سے
اظہارِ تمنا سے کہیں سوزِ نہاں سے
جذُبہئ بے باک سے معمور، زباں سے
افسانہئ دل سوز سے نظموں کے جہاں سے
ہاں اردو ادب پہ تیرا احسان ہے علوی
ہاں اردو ادب کی توہی پہچان ہے علوی
شائستہ لب و لہجے میں تاثیر غضب تھی
ہر لفظ میں احساس کی تصویر غضب تھی
اس نرم زبانی میں بھی تقریر غضب تھی
پر نور نگاہوں کی وہ تنویر، غضب تھی
ہاں اردو ادب پہ تیرا احسان ہے علوی
ہاں اردو ادب کی توہی پہچان ہے علوی
جاپان میں اردو کا علم تو نے اٹھایا
ہائیکو میں محبت کا جہاں تو نے بسایا
تعلیم کے زیور سے گھرانوں کو سجایا
دے بخش انہیں ہے یہ دعا تجھ سے خدایا
جدید اردو غزل کے باکمال شاعر عاطر عثمانی جو ملائیشیا میں اردو زبان و ادب
کی پہچان اور ترویج واشاعت کا منبہ مانے جاتے ہیں، انہوں نے اردو اور
انگریزی میں پروفیسر رئیس علوی کو زبردست خراجِ عقیدت پیش کیا۔
سڈنی سے ریحان علوی نے اپنے جذبات و احساسات بیان کرتے ہوئے کہا کہ وہ
پروفیسر علوی کے نام سے بچپن ہی سے واقف تھے۔ میری ان سے ملاقاتیں بڑے
بھائی کے توسط سے رہیں اور جب سے پروفیسر علوی سڈنی میں رہ رہے تھے تو ان
سے اور بھی قربت کا موقع ملا، انہوں نے مزید کہا کہ ا نہیں پروفیسر علوی کو
آسٹریلیا میں متعارف کرانے کا اعزاز حاصل ہے۔
کراچی سے ”ہم سماج“ کے مینجنگ ڈائریکٹر اور پروفیسر علوی مرحوم کے شاگرد
ارشد قریشی نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے مرحوم کو زبردست خراجِ عقیدت پیش کیا
اور کہا کہ انہوں نے اپنی زندگی میں ان سے بہت کچھ سیکھا۔ ارشد قریشی نے
کہا کہ گاہے گاہے ان کو مختلف پروگراموں میں مدعو کیا جاتا تو وہ بخوشی
شامل ہوتے اور اپنے خاص شفیقانہ اور مدبرانہ انداز میں موضوع پر روشی ڈالا
کرتے تھے۔ افسوس ہم ایک اعلیٰ پائے کے ادیب اور رہنما شخصیت سے محروم
ہوگئے۔
پالف آسٹریلیا نیو ساؤتھ ویلز کے کوآرڈینیٹر اور معروف کالم وسفر نامہ نگار
سڈنی سے طارق مرزا نے پروفیسر رئیس علوی مرحوم کے بارے اپنے تاثرات بیان
کرتے ہوئے کہا کہ وہ پروفیسر رئیس علوی سے پچھلے تیرہ چودہ سال سے واقف
تھے۔ مرحوم ایک ہمہ جہت شخصیت تھے۔ انہیں پروفیسر علوی کو بہت قریب سے
دیکھنے، جاننے اور ان سے گفتگو کرنے کے مواقع میسر رہے۔ وہ ایک نہایت شفیق
انسان، مہربان دوست اور اعلیٰ پائے کے ادیب اور شاعر تھے۔انہیں کئی اعزازات
سے نواز گیا۔ انہوں نے کہا کہ پالف آسٹریلیا یقینا مبارک باد کی مستحق ہے
کہ انہوں نے بروقت اس تعزیتی ریفرنس کا اہتمام کیا۔
پاکستان سے طلعت منیرجو نئے لب و لہجے کے شاعر ہیں اورجن کی شاعری میں
انقلابیت اور طنز نمایاں ہے، جوبڑی بے باکی سے مشکل بات کو بھی آسانی سے
کہہ جاتے ہیں،نے پروفیسر رئیس علوی کی شخصیت پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا
کہ مرحوم کئی صفات اور خوبیوں کے مالک تھے۔ انہوں نے ان کے چند اشعار بھی
نذرِ قارئین کیے۔
راقم الحروف نے اپنی یاد داشتیں بیان کیں اور کہا کہ پروفیسر رئیس علوی
مرحوم سے میرا تعارف ان کی صاحبزادی فرح علوی نے کرایا جب میری 2019میں میں
ان سے نیوزی لینڈ میں ملاقات ہوئی۔ پھر جب پروفیسر مرحوم ایڈیلیڈ تشریف
لائے تو ہمارے یہاں بھی آئے اور کئی گھنٹے نشست رہی۔ وہ ایک شفیق، ملنسار
اور صاحبِ علم شخصیت تھے۔ راقم الحروف نے مرحوم کو منظوم خراجِ تحسین بھی
پیش کیا۔ چند اشعار یہاں درج کیے جارہے ہیں۔
وہ رازِ زندگی پا گیا
جز تھا کل میں سما گیا
ہر ایک لمحہ حیات کا
کس سلیقے سے وہ نبھا گیا
کل سخت آندھی کی لپیٹ میں
اک زرد پتا بھی آ گیا
کیسا جھونکا تھا بادِ سموم کا
پل بھر میں گل مرجھا گیا
اس کٹھن سفرِ حیات کو
زیرِ لب مسکرا کے بتا گیا
جو عہد کیا تھا حیات سے
وہ طریقِ احسن نبھا گیا
وَتُعِزُّ مَنْ تَشَاءُ گیا
علوی تھا علویت میں سما گیا
تعزیتی ریفرنس سے ششی راول، عطاالرحمن، وقارقریشی اور اختر مغل نے بھی خطاب
کیا۔تعزیتی ریفرنس کے اختتام دعائے مغفرت سے ہوا۔
|