کچھ لوگ بڑے نایاب ہوتے ہیں اپنے کردار اور عمل سے وہ
دوسروں کو متاثر کرنے کے ساتھ ساتھ اپنا رنگ بھی انکے رنگوں میں شامل
کردیتے ہیں ایسے لوگ اگرسیاست میں آئیں تو انقلاب لے آتے ہیں تعلیم کے شعبہ
میں آئیں تو قوموں کی تقدیر بدل دیتے ہیں اور ہمارے پاس ایسے افراد کی کمی
نہیں صرف انہیں ڈھونڈنے کی ضرورت ہے ایسے ہی افراد کے لیے ضیاء جالندھری نے
پوری غزل کہہ دی کہ رنگ باتیں کریں اور باتوں سے خوشبو آئے ایسا ہی ایک فرد
ڈاکٹر اعجاز قریشی بھی ہے جو اس وقت پاکستان میں تعلیم کے شعبہ سے منسلک ہے
ویسے تو اس وقت پاکستان میں ایچ ای سی سے تسلیم شدہ سرکاری، نجی، فوجی، اور
پیشہ ورانہ یونیورسٹیاں 188 ہے جن میں سے ایک بھی یونیورسٹی ورلڈ رینکنگ
میں پہلے پانچ سو نمبروں میں کہیں بھی نظر نہیں آتی اور رہی سہی کسر ان
افراد نے پوری کر رکھی ہے جوروزی روٹی کے لیے استاد تو بن گئے مگر روحانی
باپ نہ بن سکے جن کا مقصد صرف ہر مہینے کے آخر میں تنخواہ وصول کرنا ہی رہ
گیا نہیں یقین تو قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انسداد منشیات میں
پارلیمانی سیکرٹری برائے تعلیم وجیہہ قمر کے سنسنی خیز انکشافات پڑھ لیں کہ
قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں منشیات فروخت ہورہی ہے بچوں کومنشیات پر
لگایاجارہاہے قائداعظم یونیورسٹی میں باقاعدہ ایک ڈرگ مافیا ہے جس کی وجہ
سے قائداعظم یونیورسٹی میں منشیات فروشی کنڑول نہیں ہورہی ہے جبکہ
یونیورسٹی سے پوچھاجاتاہے تو سب اچھے ہی کی رپورٹ دیتے ہیں باوجود سب کوپتہ
ہے کہ یونیورسٹی اور باہر کھوکھوں پر منشیات باآسانی دستیاب ہے یونیورسٹی
کے حالات بہت خراب ہیں پتہ ہونے کے باجود ہم کچھ نہیں کرسکتے ہیں تعلیمی
اداروں میں منشیات استعمال ہوتی ہے مگر ان اداروں سے پوچھا جائے تو سب اچھا
ہے کی رپورٹ دیتے ہیں یونیورسٹیوں کے حالات بہت خراب ہیں ہم نے اپنے بچوں
کو تباہ کردیا ہے منشیات فروش ارب پتی بن گئے ہیں ان کو کوئی نہیں پکڑتا ہے
بلوچستان میں منشیات کی فیکٹریاں لگی ہیں پاکستان میں 6سے8ملین لوگ منشیات
کے عادی ہیں منشیات پینے والے یا بیچنے والے جب پکڑے جاتے ہیں تو پاکستان
میں موجود 116 جیلوں میں سے کسی ایک میں چلے جاتے ہیں اور وہاں انکی کوئی
تربیت نہیں ہوتی ان سب جیلوں میں بحالی مراکز بنائے جائیں تو مسائل میں کمی
ہوسکتی ہے یہی منشیات اور دیاڑی دار اساتذہ ہمیں اپنے مقصد سے پیچھے لیکر
جارہے ہیں مسلمان کبھی تعلیم میں سب سے آگے تھے دنیامیں اس وقت 28092 سے
زائد یونیورسٹیاں قائم ہیں اور سب سے پہلی یونیورسٹی ایک خاتون مسلمان نے
بنائی تھی اس یونیورسٹی کو دنیا کی پہلی اور قدیم ترین یونیورسٹی ہونے کا
اعزاز حاصل ہے یونیسکو کے ریکارڈ کے مطابق پچھلے 1200 سالوں میں ایک دن
کیلئے بھی یہ یونیورسٹی بند نہیں ہوئی ہے. دنیا میں سب سے پہلے تعلیمی ڈگری
کا اجرا بھی اسی یونیورسٹی نے کیا تھا اس یونیورسٹی کی جامع مسجد میں بیک
وقت 22 ہزار افراد کے نماز ادا کرنے کی گنجائش ہے بلا تفریق نسل و مذہب
دنیا کے کونے کونے سے لوگ اس یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے آتے تھے. علامہ
ابن خلدون،لسان الدین الخطیب، محمد الادریسی سمیت نامور مسلم و غیر مسلم
اسکالر اسی یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہوئے تھے اس یونیورسٹی کا نام گینیز
بک آف ورلڈ ریکارڈ میں دنیا کی سب سے پہلی یونیورسٹی کے طور موجود ہے اس
یونیورسٹی کا نام 'جامعہ القرویین' ہے یہ مراکش کے فاس شہر میں قائم ہے اس
یونیورسٹی کی بنیاد ایک مسلمان رئیس زادی فاطمہ بنت محمد فہریہ نے 245 ہجری
میں رکھی تھی اسے بنانے میں اس نے اپنا ذاتی سرمایہ لگایا اس یونیورسٹی کو
تعمیر ہونے میں 18 سال لگے جب کہ اس دوران فاطمہ مسلسل روزے رکھتی تھی
فاطمہ کی بہن نے اپنے ذاتی خرچ سے یونیورسٹی سے ملحق مسجد بنائی یونیورسٹی
اور مسجد کی عمارتیں مسلم فن تعمیر کی خوبصورت شاہکار ہیں مختصر یہ کہ دنیا
کی پہلی یونیورسٹی ہم مسلمانوں نے بنائی بلکہ مسلمان عورتوں نے بنائی اور
یہی مسلمان ہماری پہچان بھی ہیں میں شروع میں ذکر کیا تھا ڈاکٹر اعجاز
قریشی کا جو اس وقت لاہورکے علاقہ گوالمنڈی میں بچوں کو اعلی تعلیم کے ساتھ
ساتھ اعلی اخلاقی اقدار سکھانے کے لیے موجود ہیں یہ وہی علاقہ ہے جس نے ملک
کو تین بار کا وزیراعظم دیامگر اس عالقے کی حالت نہ بدلی اور نہ ہی سدھری
آج بھی یہ علاقہ قیام پاکستان سے پہلے کا ہی محسوس ہوتا ہے اسی علاقے کے
باسیوں کی زندگیوں میں انقلاب لانے کے لیے یہاں یونیورسٹی کا قیام عمل میں
لایا گیا میرے دوست افتخار نے ڈاکٹر اعجاز قریشی سے ایک ملاقات رکھی جب
انہوں نے باتیں کی اور اپنا ماضی بتایا کچھ تلخ حقائق بیان کیے کچھ روشنی
کی باتیں کی تو امید پیدا ہوئی کہ اگر ایسے استاد ہمیں میسر آجائیں تو
حقیقت میں ہماری کایا پلٹ سکتی ہے تعلیم کا پیشہ روزگار تو ہے ہی ساتھ ہی
ساتھ ایک مشن بھی ہے اور ایک جذبہ بھی ڈاکٹر صاحب نے اپنا ایک قصہ سنایا کہ
باہر کی یونویرسٹی میں جب میں پڑھاتا تھا تو اس وقت پوری کلاس میں سے ایک
بچہ فیل ہوگیا وہ بھی غیر حاضریوں کی بدولت مگر باقی سب بچے اچھے نمبروں سے
پاس ہوگئے جس پر مجھے ڈین نے بلایا اور میں سمجھا کہ شائد وہ مجھے کوئی
شیلڈ یا انعام دیگی کہ سوائے ایک بچے کے سبھی پاس ہوگئے مگر ڈین نے ایک بچے
کے فیل ہونے پر سخت برا منایا اور ایک ماہ مجھے ہر روز چار گھنٹے اسے
پڑھانا پڑا تاکہ وہ پاس ہوجائے یہاں پوری کی پوری کلاس فیل ہوجائے تو کسی
کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی ڈاکٹر صاحب نے یہاں پر لائبریری ہر کسی کے
لیے 24گھنٹے کھلی رکھنے کا بھی کہا ہے اور ساتھ ہی ساتھ چھوٹے دوکانداروں
کو انگریزی بول چال مفت سکھانے کا بھی اعلان کیا ہے ایسے افراد ہمارے لیے
روشنی کا مینار ہیں اور پنجاب میں وزیراعلی سردار عثمان بزدار فروغ تعلیم
کے پہلے سے ہی کوشاں ہیں جنہوں نے ہر ضلع میں یونرسٹی بنانے کا عزم اور
اعلان کررکھا ہے جو پنجاب میں تعلیمی انقلاب کا پیشہ خیمہ ہے پنجاب حکومت
اگر ڈاکٹر اعجاز قریشی جیسے افراد ڈھونڈ کر انہیں تعلیمی انقلاب کے لیے ذمہ
داری دے تو ہم اپنی کھوئی ہوئی میراث کو دوبارہ حاصل کرسکتے ہیں ۔
|