|
|
'چونکہ الزام بہت بڑا تھا اور اگر میں دہکتے انگاروں پر
سے گزرنے کے لیے راضی نہیں ہوتا تو بے گناہ ہونے کے باوجود زندگی بھر کے
لیے مجھ پر بدنامی کا دھبہ لگتا۔ اس لیے میں اللہ کا نام لے کر بلاخوف و
خطر دہکتے انگاروں سے گزر گیا۔‘ |
|
یہ کہنا تھا بلوچستان کے ضلع زیارت کے علاقے سنجاوی سے
تعلق رکھنے والے محمد رضا کا جن پر ایک اور شخص کے ساتھ مل کر چوری کرنے کا
الزام عائد کیا گیا تھا اور انھیں اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے دہکتے
انگاروں سے گزرنا پڑا تھا۔ |
|
دونوں ہی افراد باآسانی انگاروں سے گزر گئے اور اس عمل
کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی۔ |
|
فون پر بی بی سی سے بات کرتے ہوئے محمد رضا نے بتایا کہ اگر وہ انگاروں سے
نہیں گزرتے تو بدنامی کے ساتھ ساتھ ان کو بھاری رقم کی ادائیگی بھی کرنی
پڑتی۔ |
|
انھوں نے دعویٰ کیا کہ جس گڑھے سے انھیں گزارا گیا اس کو انگاروں سے بھرنے
کے لیے ’12 من لکڑیاں‘ جلائی گئی تھیں۔ وہ کہتے ہیں کہ 'چونکہ میں بے گناہ
تھا اس لیے دہکتے انگاروں پر پاؤں رکھے اور ہمت اور حوصلے کے ساتھ چلتے
ہوئے گڑھے سے باہر نکلا۔‘ |
|
سرکاری حکام نے اس واقعے کا نوٹس لیا ہے اور اس عمل میں ملوث افراد کے خلاف
کارروائی کی یقین دہانی کروائی ہے۔ |
|
سنجاوی کے اسسٹنٹ کمشنر احسن وقار نے بتایا کہ ’یہ طے ہے کہ ملکی قوانین
میں کسی بھی طرح ایسے اقدامات کی اجازت نہیں ہے۔ چونکہ قبائلی رسم و رواج
کے لحاظ سے اس عمل کو غلط نہیں سمجھا جاتا ہے اس لیے لوگ اس پر عمل کرتے
ہیں۔‘ |
|
انھوں نے کہا کہ ’اس واقعے میں ملوث فریقین نے ایک خلاف قانون کام کیا اس
لیے جونہی انتظامیہ کی نوٹس میں یہ بات آ گئی تو اس سلسلے میں قانون کے
مطابق کارروائی کا سلسلہ شروع کیا گیا۔‘ |
|
انھوں نے کہا کہ ’اس واقعے کے حوالے سے دونوں فریقین کے علاوہ ان لوگوں کے
بیانات ریکارڈ کیے جا رہے ہیں جنھوں نے دونوں افراد کو انگاروں سے گزارنے
کا فیصلہ کیا اور اس کی روشنی میں ڈپٹی کمشنر کو رپورٹ بھیجی جائے گی۔ |
|
ان کا کہنا تھا کہ ’ڈپٹی کمشنر نے جو بھی فیصلہ کیا اس کے مطابق کارروائی
کی جائے گی۔‘ |
|
|
|
دونوں افراد کو کس الزام
میں انگاروں سے گزارا گیا؟ |
سنجاوی میں لیویز فورس کے ایک اہلکار نے بتایا کہ سرہ
خیزی کے علاقے میں ایک شخص کا ٹریکٹر چوری ہو گیا تھا۔ ٹریکٹر کے مالک نے
چوری کا الزام اس علاقے کے دو افراد محمد رضا اور گل زمان پر عائد کیا تھا۔ |
|
محمد رضا نے کہا کہ اگرچہ انھوں نے چوری کے الزام سے
انکار کیا لیکن ٹریکٹر کے مالک کے اصرار پر یہ فیصلہ کیا گیا کہ وہ اپنی بے
گناہی ثابت کرنے کے لیے انگاروں سے گزریں گے۔ |
|
انھوں نے بتایا کہ ’اس فیصلے کے مطابق ہم دونوں ننگے پاﺅں
دہکتے انگاروں سے گزرے اور اس طرح ہم نے اپنی بے گناہی ثابت کی۔‘ |
|
انگاروں سے گزرنے والے
ویڈیو میں کیا ہے؟ |
انگاروں سے گزرنے والی جو ویڈیو وائرل ہوئی اس
میں لوگوں کا ایک ہجوم نظرآ رہا ہے۔ |
|
درمیان میں ایک گڑھا ہے جس میں انگارے نظر آتے
ہیں۔ |
|
ملزمان کے انگاروں کے اوپر سے گزرنے سے پہلے
ایک شخص جس کے ہاتھ میں ایک بیلچا ہے وہ انگاروں کو اس کے ذریعے ہموار کرتا
ہے۔ |
|
جب گڑھے میں انگاروں کو ہموار کیا جاتا ہے تو
دونوں ملزمان یکے بعد دیگر دہکتے انگاروں سے گزرتے ہیں۔ |
|
جب پہلا شخص گڑھے میں ننگے پاﺅں اترتا ہے تو
تیز تیز قدم نہیں اٹھاتا ہے بلکہ انگاروں پر اطمینان کے ساتھ چلتا ہوا نظر
آتا ہے۔ |
|
جب وہ باہر نکلتا ہے تو بہت سارے لوگ ان کو گلے
لگاتے ہیں اور مبارکباد دیتے ہیں اور ایک شخص ان کے گلے میں ہار بھی ڈالتا
ہے۔ |
|
پہلے شخص کے نکل جانے کے بعد دوسرا شخص بھی
انگاروں سے انتہائی اطمینان سے گزر جاتا ہے۔ |
|
|
|
انگاروں سے
گزرنے سے پہلے محمد رضا کے کیا احساسات تھے؟ |
محمد رضا نے بتایا کہ ’بظاہر یہ خوفناک منظر
ہوتا ہے کہ لکڑیوں کو جلا کر ان کو دہکتے انگاروں میں تبدیل کیا جائے اور
پھر کسی انسان کو ان پر چلنے کے لیے کہا جائے۔‘ |
|
ان کا کہنا تھا کہ چونکہ وہ بے گناہ تھے اس لیے
انھوں نے جوتے اتارنے کے بعد اللہ کے نام کے ساتھ بے خوف گڑھے میں پاﺅں
رکھا اور پھر انگاروں پر چلنا شروع کیا۔ |
|
ان کا کہنا تھا کہ وہ کسی کمزوری کا مظاہرہ کیے
بغیر اطمینان کے ساتھ گڑھے سے باہر نکلے اوراسی طرح دوسرے شخص گل زمان بھی
اطمینان کے ساتھ انگاروں سے گزر گئے۔ ’جب ہم دونوں باہر نکلے تو ہمارے لیے
مبارکباد کے نعرے بلند ہو رہے تھے۔‘ |
|
محمد رضا نے بتایا کہ ان کے علاقے اور گردونواح
میں پہلے بھی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے اس رسم پر عملدرآمد ہوتا رہا ہے۔ |
|
انھوں نے بتایا کہ ’اس سے پہلے تین چار واقعات
میں ایسا ہوا کہ جب ملزمان انگاروں پر چلنے کے لیے گڑھے کے قریب آئے تو
الزام لگانے والوں نے ان کو معاف کیا لیکن ہمارے معاملے میں ایسا نہیں کیا
گیا بلکہ ہمیں انگاروں سے گزارا گیا۔‘ |
|
محمد رضا کا کہنا تھا کہ اب چونکہ ان کو
انگاروں سے گزارا گیا اور وہ بے گناہ ثابت ہوئے تو اب الزام لگانے والے کو
جرگہ لے کر ان کے گھر آنا پڑے گا اور ہمارے مطالبے کے مطابق ان کو ہرجانہ
بھی دینا پڑے گا۔ |
|
انگاروں سے
گزارنے کی رسم کیا ہے اور یہ بلوچستان کے کن علاقوں میں ہوتی ہے؟ |
سنجاوی بلوچستان کے ضلع زیارت میں واقع ہے۔ ضلع
زیارت کی آبادی مختلف پشتون قبائل پر مشتمل ہے۔ |
|
محمد رضا نے بتایا کہ پشتو میں بے گناہی ثابت
کرنے کے لیے اس طریقے کو ’چر‘ کہا جاتا ہے۔ |
|
بلوچستان میں بلوچی رسم و رواج پر تحقیق کرنے
والے دانشور اور ادیب پناہ بلوچ نے کہا کہ ’بے گناہی ثابت کرنے کے لیے یہ
رسم زیادہ تر ان بلوچ قبائل میں رائج ہے جو کہ کوہ سلیمان، ڈیرہ بگٹی، نصیر
آباد، سبی اور کوہلو وغیرہ میں آباد ہیں۔‘ |
|
انھوں نے بتایا کہ اس رسم کو بلوچی زبان میں آس
آف کہتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’آس آگ کو کہتے ہیں اور آف پانی کو۔ جس طرح
بے گناہی ثابت کرنے کے لیے آگ سے لوگوں کو گزارا جاتا ہے اسی طرح پانی میں
بھی ان کو ڈبویا جاتا ہے۔‘ |
|
انھوں نے کہا کہ ’آگ سے گزارنے کے لیے ایک گڑھا
کھودا جاتا ہے جس کی لمبائی چھ قدم ہوتی ہے جبکہ چوڑائی اور گہرائی دو دو
فٹ ہوتی ہے۔ اس میں ایک فٹ تک انگارے ہوتے ہیں۔ ان انگاروں پر گزر کر بے
گناہی ثابت کرنی ہوتی ہے۔‘ |
|
انھوں نے کہا کہ بلوچ قبائل کے ساتھ متصل
علاقوں میں بعض دیگر قبائل کے لوگوں میں بھی یہ رسم رائج ہے۔ ’بلوچوں کے
ساتھ ملحق سندھ کے علاقوں میں اسے ’چربیل‘ یا ’چربیلی‘ کہا جاتا ہے۔‘ |
|
انھوں نے کہا کہ اگر کسی پر الزام لگایا جاتا
ہے تو اسے انگاروں سے گزارا جاتا ہے اور اگر وہ گزرتے ہوئے مجرم ثابت ہوتا
ہے تو وہ مجرم ہے اور اگر نہیں ہوتا ہے تو وہ بے گناہ قرار دیا جاتا ہے۔ |
|
|
|
ان کا کہنا تھا کہ اس رسم کی ادائیگی کے وقت
ایک مذہبی عالم موجود ہوتا ہے جو کہ انگاروں پر کچھ پڑھ کر ان پر کچھ سبز
پتے پھینکتا ہے اور پھر ملزم وضو کر کے انگاروں سے گزرتا ہے۔ |
|
وہ بتاتے ہیں کہ ’انگاروں پر سے گزرتے ہوئے وہ
جب گڑھے کے دوسرے سرے پرپہنچتا ہے تو اس کے پیروں کو زمین پر نہیں لگنے دیا
جاتا ہے اور کوئی شخص اسے اوپر اٹھا کر اس کے پیروں کو اس مقصد کے لیے تازہ
زبح کیے جانے والے بکرے کے خون میں رکھتا ہے کہ اگر ان پر آبلے پڑ گئے ہوں
تو وہ ملزم ہوتا ہے اور اگر ان پر آبلے نہ پڑیں تو وہ بے گناہ قرار دیا
جاتا ہے۔‘ |
|
انھوں نے بتایا کہ انگاروں سے گزرنے والا شخص
اگر مجرم ثابت ہوا تو ان کو جرمانہ یا تاوان ادا کرنا پڑے گا اوراگر مجرم
ثابت نہیں ہوا تو پھر الزام لگانے والے کو تاوان اور ہرجانہ دینا پڑے گا۔ |
|
پناہ بلوچ نے بتایا کہ یہ رسم صدیوں سے رائج ہے
اور بعض محققین کی یہ رائے ہے کہ آتش پرستوں یا ان سے قبل کے قبائل میں یہ
رائج تھی جو ابھی تک چلتی آ رہی ہے۔ |
|
قانونی ماہرین
کی رائے |
آئینی اور قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ کسی کو
مجرم یا بے گناہ ثابت کرنے کے لیے انگاروں سے گزارنے کے عمل کی نہ مروجہ
ملکی قانون میں اجازت ہے اور نہ اسلام میں اس کی گنجائش ہے۔ |
|
بلوچستان کے سابق ایڈووکیٹ جنرل اور سپریم کورٹ
بار کے سابق صدر امان اللہ کنرانی ایڈووکیٹ نے بتایا کہ ملکی قوانین میں اس
کی کوئی اجازت نہیں ہے بلکہ ملکی قوانین کے تحت سزائیں عدالتیں دیتی ہیں
اور تفتیش پولیس یا قانون نافذ کرنے والے ادارے کرتے ہیں۔ |
|
انھوں نے کہا کہ ملکی قوانین کے باوجود اس طرح
کے غیر قانونی رسم ورواج کے وقوع پزیر ہونے کی بہت ساری وجوہات ہیں جن میں
انتظامیہ کی کمزوری بھی شامل ہے۔ |
|
’دیگر وجوہات میں یہ بھی شامل ہے کہ لوگ پولیس
کی تفتیش سے مطمئن نہیں ہوتے اس لیے لوگ کسی کو ملزم ثابت کرنے کے لیے اپنے
قبائلی ذرائع یا رسم و رواج کو استعمال کرتے ہیں۔‘ |
|
انھوں نے کہا کہ پولیس یا دیگر تحقیقاتی اداروں
کی تفتیش کا عمل مؤثر اور سائنسی بنیادوں پر ہو تو لوگ پھر ان قدیم اور غیر
قانونی رسم و رواج کی طرف رجوع نہیں کریں گے۔ |
|
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر سینیٹر
کامران مرتضیٰ ایڈووکیٹ نے بتایا کہ سچ اور جھوٹ ثابت کرنے کا یہ کوئی
طریقہ نہیں ہے اس لیے کسی ایسے عمل کی اسلام اور ملکی مروجہ قوانین میں
کوئی گنجائش نہیں۔ |
|
Partner Content: BBC Urdu |