ملت کا پاسباں ہے محمد علی جناح
مملکت ِخدادادپاکستان اﷲ تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت اور بے بہا عطیہ ہے جو
ہمیں رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں مقدس رات (شب قدر)کو عطا کیا
گیا۔مسلمانان برصغیرکوقائد اعظم محمد علی جناح کی عظیم قیادت میں اسلامی
ریاست کی صورت میں پاکستان عطا کیا اور کروڑوں اہل ایمان کو آزادی کی نعمت
عظمیٰ سے شرف یاب فرمایا۔آزادی ایک عظیم ترین نعمت ہے، اس نعمت کی قدروقیمت
کا صحیح اندازہ صرف انہی اقوام اور افراد کو ہو سکتا ہے جو غلامی کی آزمائش
سے گزر چکے ہوں۔تاریخ عالم میں مدینہ طیبہ کے بعد مملکت خداداد اسلامی
جمہوریۂ پاکستان ہی ایک ایسی واحد مملکت ہے کہ جس کی بنیاد اﷲ کے پسندیدہ
دین اسلام پر رکھی گئی ہے، جس کے حصول کیلئے ہندوستان کے مسلمانوں نے
’’دوقومی نظریہ‘‘کی بنیادپر One Nation-One State
( ایک قوم۔ایک ریاست)کا نعرہ بلندکیا اور ایک طویل اورہمہ جہت تحریک
اورجدوجہدکے بعد اپناالگ وطن حاصل’’پاکستان‘‘حاصل کرلیا۔
پاکستان صرف اور صرف اسلام کی بنیاد پر حاصل ہواہے،اس لئے پاکستان کے بقاء
کیلئے بھی اسلام ناگزیر ہے اور پاکستان میں بسنے والوں کیلئے لازمی ہے کہ
وہ اپنے وطن عزیز کی عزت وناموس اور اس کی آن وشان کو قائم ودائم رکھنے
کیلئے ہرمیدان میں ہمہ وقت اپنا مثبت اور تعمیری کردار ادا کرتے رہیں
اورمملکت خداداد کے خلاف ہونے والی ہر قسم کی اندرونی اوربیروزنی سازشوں کا
منہ توڑاور دندان شکن جواب دیتے رہیں اوراس کی تعمیر وترقی اوراستحکام
کیلئے اس سے کہیں زیادہ محنت وجدوجہد کرنی ہوگی کہ جتنی قربانیاں ہم نے اس
پاک وطن کے حصول کیلئے دی تھیں۔
ہماری قومی تاریخ میں بڑے بڑے عظیم رہنماؤں کا ذکر ملتا ہے۔ ان لوگوں نے
اپنے ملک اور قوم کے لیے بیش بہا خدمات سر انجام دی ہیں اوران رہنماؤں میں
قائد اعظم محمدعلی جناح کا نام سرِ فہرست ہے۔قائد اعظم بڑی صلاحیتوں کے
مالک تھے۔ پاکستان بنانے کا کام ایک معجزے سے کم نہ تھا ۔ یہ کام انھوں نے
انتھک محنت ، جد و جہد اور پورے خلوص کے ساتھ سر انجام دیا آپ جیسے محنتی،
پُر خلوص اور دیانت دار لیڈر روز روز پیدا نہیں ہوتے۔ قائد اعظم کاکردار،
ان کی خدمات اور ان کی مثالی قیادت وجدوجہد آج بھی ہمارے لیے مشعل راہ
اورمینارہ نور کی حیثیت رکھتی ہے۔شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ:
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پر روتی ہے بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدۂ
ور پیدا
بانی پاکستان ،ملت کے پاسبان،بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح
25دسمبر1876ء کو کراچی میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد کانام جناح پونجا اور
والدہ کا نام مٹھی بائی تھا۔آباؤاجدادکاتعلق کاٹھیاواڑ (ہندوستان ) سے
تھا۔قائداعظم نے سندھ مدرسۃ الاسلام کراچی اور چرچ مشنری اسکول سے ابتدائی
تعلیم حاصل کی اوربیرسٹری کا امتحان’’لنکن ا ن‘‘سے پاس کیا تھا۔قائداعظم کی
پہلی شادی محترمہ ایمی بائی سے1892میں ہوئی اوردوسری شادی محترمہ رتن بائی
سے 1918ء میں ہوئی۔دینا جناح قائداعظم کی اکلوتی بیٹی تھیں جن کا انتقال
2017ء میں ہوا۔قائداعظم کو بچپن میں گھڑ سواری کا بہت شوق تھا۔
ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعدبرطانوی راج کے دورمیں انگریزوں
اور ہندووں کے گٹھ جوڑ اورمظالم سے نجات حاصل کرنے اور مسلمانوں کے لیے ایک
الگ مسلم مملکت اور وطن حاصل کرنے کے لیے مسلمانان برصغیر نے ایک تحریک
چلائی جسے تحریک پاکستان کہا جاتا ہے، اس مقصد کے لیے آل انڈیامسلم لیگ کا
قیام ۱۹۰۶ء میں عمل میں لایاگیاجس میں مسلمانوں کے بڑے بڑے سیاسی ومذہبی
قائدین شامل تھے۔ یہ تحریک 1906 سے 1947ء تک آزادی کے لیے جدوجہدکرتی رہی
اور 41کی مسلسل جدوجہد،عمل پیہم اورمساعی کے بعداپنے مقصدمیں کامیاب رہی
اور بالآخر 14اگست 1947ء کواپناالگ وطن حاصل کرلیا۔
قائداعظم محمد علی جناح نے کچھ عرصہ کانگریس میں ہندوؤں کے ساتھ بھی کام
کیا لیکن تو آپ پر جلدواضح ہوگیا کہ ہندو تو صرف ہندوؤں کی آزادی
اوراپنامفادچاہتے ہیں اور مسلمانوں کو اپنی غلامی میں جکڑنا چاہتے ہیں
لہٰذا آپ نے کانگریس سے علیحدہ ہوکر1913ء میں مسلم لیگ میں شمولیت اختیار
کر لی اور اپنی ساری زندگی مسلمانوں کے لیے وقف کردی۔آپ کی شمولیت سے مسلم
لیگ کو بہت مضبوطی اور طاقت ملی۔آپ کا یہ نظریہ درست تھا کہ مسلمان ایک الگ
قوم ہیں مسلمانوں کا مذہب اور تمدن ہندوؤں سے بالکل الگ ہے اور اسی بناء
پرآپ نے ایک الگ آزادمسلم ریاست کا مطالبہ کیا اور ۲۳؍مارچ۱۹۴۰ء کولاہورمیں
ایک قراردادکے ذریعے ’’ پاکستان ‘‘ کا مطالبہ کیا۔
دوستوں کابہترین انتخاب
کسی انسان کے اخلاق وکردار اوراس کی ظاہری وباطنی کیفیات کی ایک پہچان اس
کے دوستوں سے ہوتی ہے۔ اس حوالے سے قائد اعظم محمد علی جناح کا اخلاق
وکرداراُن کے دوستوں کے انتخاب سے واضح ہوجاتاہے کہ آپ نے اپنی زندگی میں
جن لوگوں سے دوستی کی اوراُن کے ساتھ وقت گزارا، وہ کون لوگ تھے، وہ لوگ
اپنے وقت کے بہترین،پڑھے لکھے، سلجھے ہوئے، باعمل وباکردار اوراسلام کے
شیدائی لوگ تھے۔ قائد اعظم محمد علی جناح کے دوستوں میں علامہ
محمداقبال،قائدملت لیاقت علی خان، نواب عبدالرب نشتر،پیرسید جماعت علی
شاہ،مولاناپیرامین الحسنات(مانکی شریف)،مولانا پیرعبداللطیف (زکوڑی شریف)،
مولانامحمدبخش مسلم بی اے،خواجہ ناظم الدین ،نواب بہادریارجنگ وغیرہ جیسے
مشہورزمانہ اکابرین شامل تھے ۔
علمائے کرام اورمشائخ عظام سے خاص تعلق
قائداعظم کے ایک سچے اور کھرے مسلمان تھے۔آپ ہمیشہ مسلمانوں کے بڑے گروہ
یعنی سواداعظم کے ساتھ منسلک رہے۔ آپ کی فکری اساس اﷲ تعالیٰ اوراس کے رسول
ﷺکی تعلیمات سے سے روشن تھیں۔آپ اپنی زندگی کے آخری ایام تک قرآنی نظام کی
بالادستی پر اور نفاذکی عملی کوشش پر یقین رکھتے تھے اور اس نظام کوعملی
طورپر نافذ کرنے اوراسلامی نظام کی ترویج کے لیے علمائے کرام اور مشائخ
عظام سے مستقل رابطے میں رہتے تھے۔ان مشائخ عظام میں مولانامحمدبخش مسلم بی
اے ،پیر جماعت علی شاہ صاحب اورعلامہ ابوالحسنات (مانکی شریف)نمایاں ہیں۔
قائداعظم کے اجدادکاحضرت مجدد الف ثانی سے تعلق
تحریک پاکستان کے سرگرم مجاہد،قائد اعظم کے مخلص معتمدمولانامحمدبخش مسلم
بی اے(1888-1987) ایک انٹرویومیں فرماتے ہیں:
’’میں ایک مرتبہ قائداعظم علیہ الرحمۃ سے ملا تو میں نے پوچھاکہ پاکستان کب
بنے گا؟انہوں نے کہا:’’یہ سوال بے معنی ہیں…… پاکستان اسی وقت ہی بن گیاتھا
جس وقت پہلا ہندومسلمان ہوگیاتھا‘‘، میں نے کہاکہ:’’جس طرح برسوں پہلے آپ
کے بزرگوں نے ہندوستان میں اسلام کو بچایا تھا،اسی طرح آپ بھی آج کے دورمیں
اسلام کو بچا رہے ہیں‘‘۔میری یہ بات سن کرانھوں نے اس کی وضاحت مانگی تو
میں نے کہاکہ ’’مغل بادشاہ اکبرنے جب ’’دین الٰہی‘‘کاآغازکیاتھا توحضرت
مجدد الف ثانی علیہ الرحمۃ نے اس کی مخالفت کی تھی، اس مخالف میں وہ لوگ
بھی پیش پیش تھے جو حضرت مجدد الف ثانی سے بیعت تھے اور یہ لوگ آپ کے
اجدادتھے‘‘،میری بات سن کروہ سوچ میں پڑ گئے اور بولے:’’آج مجھے پتا چلا ہے
کہ میرے عزیز واقارب ’’سرہند‘‘جاناکیوں ضروری سمجھتے ہیں۔یہ حقیقت ہے کہ
قائداعظم علیہ الرحمۃ کے اجدادحضرت مجدد الف ثانی علیہ الرحمۃ سے گہری
عقیدت رکھتے تھے اوراس وقت تک وہ اپنے آپ کو مکمل نہیں سمجھتے جب تک وہ
حضرت شیخ مجدد الف ثانی علیہ الرحمۃ کے مزارپرحاضری نہیں دے لیتے تھے ‘‘۔
(قائداعظم کا مسلک: ص 247بحوالہ قومی ڈائجسٹ لاہور اگست 1983ص20)
عظیم مخلص انسان
شرف ملت علامہ عبدالحکیم شرف قادری علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں:’’ قائد اعظم
صحیح اسلامی سوچ رکھنے والے رہنماتھے۔عزم کے کوہِ ہمالیہ……کردار کے سچے اور
کھرے انسان……وہ نہ صرف ماہرقانون دان تھے بلکہ انگریزاورہندوکی نفسیات سے
بھی پوری طرح باخبر تھے۔ سیاست کے میدان میں اتنے کامیاب کہ کبھی
انگریزحکمرانوں کو انہیں گرفتار کرنے کی جرأت نہ ہوسکی۔ چونکہ انگریزی میں
گفت گو کرتے تھے اس لیے عوام ان کی گفت گو سمجھنے سے قاصر تھے، اس کے
باوجوداسلامی ذہن رکھنے والے عوام وخواص ان پرآنکھیں بند کرکے اعتماد کرتے
تھے اور یہ یقین رکھتے تھے کہ ’’یہ مخلص انسان کبھی ہمیں دھوکہ نہیں دے گا
‘‘اورجانتے تھے کہ ’’یہ قائدنہ کبھی جھکے گا اور نہ کبھی بکے گا‘‘۔
(قائداعظم کا مسلک:ص45)
ایک روپیاتنخواہ
قائداعظم محمد علی جناح۱۹۱۳ء میں آل انڈیامسلم لیگ میں شامل ہوئے اور
پھرمارچ ۱۹۳۴ء میں وہ وقت بھی آگیا جب قائد اعظم کوآل انڈیامسلم لیگ کا
صدربنادیا گیا۔۱۴؍اگست۱۹۴۷کوپاکستان معرضِ وجود میں آیا۔قیامِ پاکستان کے
بعدقائداعظم پاکستان کے پہلے گورنر جنرل بنے اور بڑی دلچسپ بلکہ حیران کن
بات یہ ہے کہ قائد اعظم گورنرجنرل کے طورپر صرف ایک روپیا تنخواہ لیتے
تھے،حالانکہ قائداعظم بہ حیثیت وکیل ہزاروں روپے کی فیس لیتے تھے۔
پاکستان کا طرزِحکومت کیاہوگا؟
آل انڈیامسلم لیگ اسٹوڈٹنس فیڈریشن کے سالانہ جلسہ(منعقدہ 15نومبر1942ء)میں
قائداعظم نے خطاب کرتے ہوئے فرمایاکہ’’مجھ سے اکثرپوچھا جاتاہے کہ پاکستان
کا طرزِحکومت کیاہوگا؟آپ نے فرمایا: ’’پاکستان کے طرزِحکومت کاتعین کرنے
والامیں کون ہوتاہوں،مسلمانوں کا طرزِ حکومت آج سے تیرہ سوسال قبل قرآن
کریم نے وضاحت کے ساتھ بیان کردیاتھا، الحمدﷲ!قرآن مجید ہماری رہنمائی کے
لیے موجودہے اورقیامت تک موجود رہے گا‘‘۔
اس خطاب سے معلوم ہوا کہ قائد اعظم پاکستان کو ایک مثالی مملکت اور فلاحی
ریاست بناناچاہتے تھے۔قائداعظم نے جب برصغیرکے مسلمانوں اور مسلم لیگ کی
قیادت سنبھالی توآپ نے قوم کے سامنے تین رہنمااصول رکھے’’ایمان،
اتحاد،تنظیم‘‘۔اوریہ وہ رہنمااصول تھے جو کسی بھی انسان ،ملک اور معاشرہ کی
کامیابی،ترقی اور عروج کے لیے بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔تاریخ شاہد ہے کہ
برصغیر کے مسلمانوں نے قائداعظم محمد علی جناح کے ان اصولوں پر عمل کرتے
ہوئے اپنی منزل مراد پاکستان کو حاصل کیا۔
تحریک پاکستان اورقائداعظم علیہ الرحمۃپرلکھنے والے مورخین اورمصنفین کے
مطابق قائداعظم کے پاس رسول کریم ﷺاور خلفائے راشدین کی سوانح اورسیرت
وکردارپرمشتمل کئی انگریزی کتابیں تھیں جن کا وہ مطالعہ کرتے تھے۔چنانچہ
محمدسلیم ساقی اپنی کتاب ’’مقام واحترام قائداعظم کے صفحہ 72پر تحریک
پاکستان کے ایک کارکن سردار شوکت حیات کے حوالے سے لکھتے ہیں::’’ قائداعظم
پہلے ہی خلفائے راشدین کانظام قائم کرنے کا فیصلہ کرچکے تھے۔ قائداعظم علیہ
الرحمۃ نے جناب شریف الدین پیرزادہ سے علامہ شبلی کی کتاب ’’الفاروق‘‘کے
دوسرے حصے کاجس میں حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ کے طرزِ حکومت کی تفصیل دی
گئی ہے کا انگریزی ترجمہ کرایاتھا اور کہاتھا:’’میں پاکستان میں حضرت فاروق
اعظم رضی اﷲ عنہ کا نظام لاناچاہتاہوں‘‘۔
قوم کی بے لوث خدمت
قائد اعظم سچے اورکھرے مسلمان تھے ۔آپ نے ساری عمر مسلمانوں کی خدمت کی اور
مسلمانوں کے لیے آزاد وطن پاکستان حاصل کیا ۔سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اس کا
معاوضہ قوم سے وصول کرنے کے بجائے آپ قوم کے لیے خود خرچ کرتے رہے۔ آپ نے
نصف صدی تک قوم کی بے لوث خدمت کی ۔ اس مقصد کے لیے آپ نے نہ تواپنی زندگی
کی پروا کی اورنہ اپنی دولت کی پروا کی ہو بلکہ ہمہ وقت اپنی قوم کی خدمت
کا جذبہ رکھتے تھے۔ قوم کا یہ عظیم رہبر اورمحبوب رہنما ۱۱؍ستمبر ۱۹۴۸ء کو
اس جہانِ فانی سے رخصت ہوکرہمیشہ کے لیے امر ہوگیا۔
قائداعظم کامزارکراچی میں ہے۔ جس کو دیکھنے کے لیے پاکستان بھر سے لوگ
کراچی آتے ہیں اور خصوصاً۱۴؍اگست ، ۱۱؍ستمبراور۲۵دسمبرکی تواریخ میں یہاں
بہت بڑی تعدادمیں لوگ حاضری دینے آتے ہیں اوربانی پاکستان کوخراج عقیدت پیش
کرتے ہیں ۔پاکستان اورقائداعظم کے تعلق سے ایک دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ
۱۴؍اگست جس دن کوآتاہے،ا۱؍ستمبراور۲۵؍دسمبر بھی اسی دن کوآتا ہے۔
بانی پاکستان بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح
نام ………… محمدعلی
والدکانام ………… جناح پونجا
والدہ کا نام ………… مٹھی بائی
پیدائش ………… 25دسمبر1976
جائے پیدائش ………… کراچی
والد کا پیشہ ………… تجارت
آباء واجدادکاتعلق ………… کاٹھیاواڑ (ہندوستان)
ابتدائی تعلیم ………… سندھ مدرسۃ الاسلام کراچی،مشنری اسکول کراچی
میٹرک ………… 1896ء
بیرسٹری کاامتحاس پاس کیا ………… 1900ء
کانگریس میں شمولیت ………… 1904ء
کل ہندمسلم لیگ کا قیام ………… 1906ء
قائداعظم کی شمولیت ………… 1913ء
چودہ نکات ………… 1929ء
مسلم لیگ کی پہلی صدارت ………… 1934ء
٭․․․قائداعظم محمد علی جناح 25دسمبر1876ء کو کراچی میں پیدا
ہوئے۔٭․․․قائداعظم کے والد کانام جناح پونجا اور والدہ کا نام مٹھی بائی
تھا۔
٭․․․قائداعظم کے آباؤاجدادکاتعلق کاٹھیاواڑ(ہندوستان ) سے تھا۔
٭․․․قائداعظم نے سندھ مدرسۃ الاسلام اور چرچ مشنری اسکول سے ابتدائی تعلیم
حاصل کی۔
٭․․․قائداعظم نے بیرسٹری کا امتحان’’لنکن ا ن‘‘سے پاس کیا تھا۔
٭․․․قائداعظم کی پہلی شادی محترمہ ایمی بائی سے1892میں ہوئی اوردوسری شادی
محترمہ رتن بائی سے 1918ء میں ہوئی۔
٭․․․دینا جناح قائداعظم کی اکلوتی بیٹی ہیں۔
٭․․․قائداعظم 1913ء میں آل انڈیا مسلم لیگ میں شامل ہوئے ۔
٭․․․قائداعظم نے پہلی بار مسلم لیگ کے اجلاس کی صدارت 1916ء میں کی۔
٭․․․قائداعظم محمد علی جناح 7اگست1947ء کو کراچی تشریف لائے۔
٭․․․قیامِ پاکستان کے بعدقائداعظم پاکستان کے پہلے گورنر جنرل بنے۔
٭․․․11ستمبر1948کوقائداعظم محمد علی جناح کا انتقال ہوا۔
٭․․․قائداعظم کی نمازِ جنازہ علامہ شبیراحمد عثمانی نے پڑھائی۔
٭․․․قائداعظم کوسب سے پہلے بابائے قوم قاضی محمد اکبر نے کہاتھا۔
|