اللہ تعالیٰ کا احسان اور فضل و کرم ہے کہ
ہمیں ایک بار پھر اﷲ تعالیٰ کے مہمان مہینے رمضان المبارک کے روزے رکھنے کی
توفیق حاصل ہوئی۔ میرا اس عنوان کو تحریر کرنے کا مقصد صرف اور صرف اتنا ہے
کہ خدا ہمارے لیے آسانی چاہتا ہے تنگی نہیں لیکن ہم جیسے مسلمانوں نے دین
کو بہت مشکل بنا دیا ہے۔ تبھی آج کی نسل انگریزی‘ سائنس کو پسند اور
اسلامیات کو ناپسند کررہی ہیں۔ ہم نے دین کو پھیلانے کے بجائے اپنے سروں پر
سوار کر لیا ہے جبکہ حدیث پاک ہے ”دین میں کوئی جبر نہیں“ تبھی میں نے سوچا
نماز‘ روزہ‘ حج‘ زکوٰة اﷲ تعالیٰ کا انسانوں پر لاگو کرنے کا کیا مقصد ہے۔
چونکہ یہ رمضان کا مہینہ ہے تو میں ماہ رمضان کی فضیلت اور روزہ کا مقصد
بیان کروں گی۔ جب میں نے اس سوال کا جواب جاننے کے لیے تحقیق کی تو قرآن
مجید کی پہلی سورة البقر کی آیت نمبر 183سے 185 میں ہی تمام سوالوں کے جواب
مل گئے۔ ”رمضان“ رَمض سے نکلا ہے جس کے معنی ہیں ”جلد ڈالنا“ چونکہ یہ مقدس
مہینہ انسانوں کے گناہوں کو جلا دیتا ہے۔ اس لئے اسے رَمضَان کہتے ہیں۔
دوسری طرف حضرت علی ؓ سے منقول ہے ‘ آپ نے فرمایا ”تم اس مہینہ کو صرف
رمضان نہ کہا کرو بلکہ ماہ رمضان کہا کرو‘ کیونکہ تمہیں معلوم نہیں ہے کہ
”رمضان کیا ہے اور نہ یہ کہو یہ رمضان ہے اور رمضان چلا گیا اور رمضان آگیا۔
رمضان تو اﷲ کے نام میں سے ایک نام ہے اور اﷲ تو کہیں بھی آتا جاتا نہیں ہے۔
کیونکہ جو آئے اور جائے تو وہ چیز زوال پذیر ہوتی ہے۔ اس لیے تم کہو ”شھر
رمضان“ یعنی ماہِ رمضان‘ لفظ ماہ یا شہر مضاف ہے اور لفظ رمضان مضاف الیہ
ہے۔ یعنی رمضان کا مہینہ بالفاظ دیگر خدا کا مہینہ۔ اﷲ نے اس ماہ میں قرآن
نازل کیا۔ اس مہینہ کو مثالی بنایا اور اسے عہد کا بیش خیمہ بنایا۔ تبھی
سورة البقرہ کی آیت نمبر 183 اور 185 میں واضح الفاظ میں فرمان الہٰی ہے کہ
اے ایمان والوں! تم پر روزے اسی طرح سے فرض کیے گئے ہیں جیسا کہ تم سے پہلے
لوگوں پر فرض کیے گئے تھے شاید تم اس طرح متقی بن جاﺅ۔ یہ روزے گنتی کے چند
دنوں کے ہیں۔ تم میں سے جو کوئی بیمار ہو یا سفر میں ہو تو اتنے ہی دن
دوسرے دنوں میں روزے رکھے اور جو لوگ مشکل سے روزہ رکھنے کے قابل ہوں تو وہ
روزے کے عوض ایک مسکین کو کھانا کھلائے۔ جو شخص اپنی خوشی سے بھلائی کرے تو
یہ اس کے لیے زیادہ بہتر ہے اور اگر تم علم رکھتے ہو تو روزہ رکھنا ہے اور
اگر تم علم رکھتے ہو تو روزہ رکھنا تمہارے لئے زیادہ اچھا ہے۔ ماہ رمضان وہ
مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو لوگوں کا رہنما ہے اور اس میں ہدایت
اور حق و باطل کے امتیاز کی روشن نشانیاں ہیں۔ خدا تمہارے لیے آسانی چاہتا
ہے تنگی نہیں چاہتا۔“
ایک بار کچھ یہودی حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے
اور ان کے عالم نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے کچھ سوال کیے۔ ان
سوالوں میں سے ایک سوال اس نے یہ کیا: ”اﷲ نے آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی
امت پر تیس روزے کیوں فرض کیے؟ جبکہ دوسری امتوں پر اس سے زیادہ دنوں کے
روزے فرض کیے گئے تھے؟ آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ”آدم علیہ
السلام نے شجرہ ممنوعہ کا پھل کھایا تھا اور اس کا اثر تیس دن تک ان کے شکم
میں باقی رہا تھا اس لیے اﷲ نے نسل آدم پر تیس دن کی بھوک پیاس کو فرض کر
دیا اور رات کو کھانے پینے کی جو اجازت ہے وہ اس کی طرف سے فضل و کرم ہے
اور یہی فضل اﷲ نے آدم پر بھی کیا تھا۔ اﷲ تعالیٰ نے اسی لیے میری امت پر
تیس روزے واجب کیے۔“ رسول اﷲ کا یہ جواب سن کر یہودی نے کہا محمد صلی اﷲ
علیہ وآلہ وسلم ! آپ نے سچ فرمایا۔ ایک اور جگہ روایت ہے کہ ایک مرتبہ جب
ماہ شعبان کی تیس تاریخ تھی تو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت بلال
سے فرمایا: لوگوں کو جمع ہونے کے لیے ندا کرو۔ جب لوگ مسجد میں جمع ہو گئے
تو آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم مسجد پر تشریف لائے اور خدا کی حمد و ثناءکی
اور فرمایا: لوگوں! ماہِ رمضان شروع ہونے والا ہے ! اﷲ نے اس فضیلت کے لیے
تمہیں مخصوص کیا ہے اور یہ تمام مہینوں کا سردار ہے۔ وہاں خطبہ کے دوران آپ
صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے کسی نے سوال کر دیا کہ روزے کیوں واجب کیے گئے تو
آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے جواب دیا کہ روزے اس لیے واجب کیے گئے تاکہ
لوگوں کی بھوک و پیاس کی تکلیف کا پتہ چلے اور وہ اسے مثال بنا کر فقر آخرت
کے دور کرنے کی طرف متوجہ ہو سکیں اور اس کے ساتھ ساتھ روزے کا ایک مقصد یہ
بھی ہے روزہ دار میں خشوع و عاجزی اور انکساری پیدا ہو اور بھوک پیاس
برداشت کرکے معرفت کے درجات طے کرے۔ پھر آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے یہ
بھی فرمایا ”اﷲ تعالیٰ نے مجھے اور میری امت کو ایک ایسا تحفہ دیا ہے جو آج
تک کسی امت کو نصیب نہیں ہوا اور وہ تحفہ خدا کا خصوصی فضل ہے۔“ صحابہ نے
عرض کیا: یارسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم ! وہ خصوصی تحفہ کونسا ہے؟ وہ
تحفہ سفر میں افطار قصر نماز ہے اور جو اس حکم پر عمل نہیں کرتا تو وہ خدا
کے تحفہ کو ٹھکرا رہا ہے۔ پھر ایک صحابی نے آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے
سوال کیا یا رسول اﷲ قرآن مجید تو کم و بیش بیس سال تک نازل ہوتا رہا مگر
اﷲ تعالیٰ نے فرمایا کہ قرآن ماہِ رمضان میں نازل ہوا۔ آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ
وسلم نے فرمایا پورے کا پورا قرآن ماہِ رمضان میں بیت المعمور پر اتارا گیا۔
پھر وہاں سے ضرورت کے تحت تھوڑا تھوڑا کرکے بیس سال کے عرصہ تک نازل ہوتا
رہا۔ جب صحابہ سمجھ نہ سکے تو آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے تفصیل سے بیان
فرمایا کہ صحف ابراہیم ماہِ رمضان کی پہلی تاریخ کو نازل ہوئے اور تورات چھ
ماہِ رمضان کو‘ انجیل تیرہ ماہِ رمضان کو‘ زبور اٹھارہ مارہِ رمضان کو اور
قرآن مجید تیس ماہِ رمضان کو نازل ہوا۔ پھر ایک یہودی نے پوچھا کہ ”رات کے
وقت کھاﺅ پیو یہاں تک کہ فجر کی سفید دھاری سیاہ دھاری سے جدا ہوجائے ۔“ اس
سے کیا مراد ہے آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ”ماہِ رمضان میں رات کے
وقت اگر کوئی سو جاتا تھا تو اس کے بعد اس کے لیے کھانا پینا حرام ہو جاتا
تھا۔ اگر کوئی افطار کیے بغیر سو جاتا اور پھر بیدار ہوتا تو اس کے لیے
افطار کرنا حرام ہو جاتا تھا۔“ ایک دفعہ نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا
ایک صحابی تھا جس کا نام خوات بن جیر تھا اور وہ عبد اﷲ بن جہر کا بھائی
تھا جسے رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے جنگ احد میں پچاس تیر اندازوں
کا امیر مقرر کرکے درہ کوہ پر متعین کیا تھا اور وہ جنگ احد میں بارہ افراد
سمیت شہید ہو گیا تھا۔ خوات بن جہر ایک بوڑھا اور کمزور شخص تھا اور اس نے
روزہ رکھا۔ اس کی بیوی نے افطاری پیش کرنے میں دیر کردی اور اسے افطار سے
قبل نیند آگئی اور جب وہ بیدار ہوا تو اس نے کہا: اﷲ نے آج رات کا کھانا
میرے لیے حرام کردیا ہے اور صبح کھانے کے بغیر ہی خندق کھودنے لگا۔ بھوک
پیاس کی شدت سے نڈھال ہو کر وہ بے ہوش ہو گیا۔ رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ
وسلم نے اس کی یہ حالت دیکھی تو آپ کو اس پر بڑا ترس آیا۔ تب اﷲ نے یہ آیت
اتاری ”را ت کو کھاﺅ پیو یہاں تک کہ سیاہ ڈورے سے فجر کا سفید ڈورا نمایاں
ہو جائے۔ پھر اک اور صحابی نے سوال اٹھایا کہ روزہ میں بیمار اور مسافر کے
لیے کیا رعایت ہے۔ سفر اور بیماری کے روزوں کے متعلق عامہ کا اختلاف ہے۔ ان
میں سے کچھ کہتے ہیں کہ بیمار اور مسافر روزہ نہ رکھیں اور کچھ کہتے ہیں کہ
یہ بیمار اور مسافر کی اپنی مرضی پر منحصر ہے۔ بلکہ ہم کہتے ہیں کہ بیمار
اور مسافر کو ہر حالت میں افطار کرنا چاہیے۔ اور اگر کوئی بیمار یا مسافر
روزہ رکھے تو ماہِ رمضان کے بعد اس دن کی قضا رکھے کیونکہ خدا تعالیٰ کا
فرمان ہے کہ ”تم میں سے جو بیمار ہو یا سفر پر ہو تو وہ اتنے دن دوسرے دنوں
میں روزے رکھے“۔ ”کیونکہ اﷲ ہمیشہ اپنی مخلوق کے لیے آسانی چاہتا ہے تنگی
نہیں۔“ کیونکہ فرض کبھی ادھورا نہیں ہوتا۔ |