ہم ذلیل وخوار ہوئے تارکِ قرآن ہو کر

انسانی زندگی کے گلیشئر، حیوانی زندگی کی طرح پگھل رہے تھے۔ ہر طرف بدامنی، خون ریزی، نانصافی اور ظلم کا پرچار تھا۔ بنی آدم کے بچھونے کیلئے بنائی زمین بنی آدم کے خون سے رنگین تھی۔ آوے کا آوا بگڑا ہوا تھا، جس کی لاٹھی اسی کی بھینس کی فضا تھی۔ بالآخر اللہ تعالیٰ کو انسان کی حالت پر رحم آیا اور محمد ﷺ کے واسطہ سے اسے قرآن مجید عطا کیا جس نے انسان کے نئے دور کا آغاز ہوا۔ مظاہر فطرت کی پرستش کرنے والے کو ان کی تسخیر کا راستہ دکھایا گیا۔ نسلوں، قبیلوں، زبانوں، رنگوں اور ملکوں میں بٹے ہوئے انسان کو وحدت کا درس دیا گیا۔ حیوانوں کی طرح زندگی گارنے والوں کو انسانیت کا سبق سکھایا گیا۔

نزول کے بعد دیکھتے ہی دیکھتے یہ کتاب لوگوں کے دلوں میں اتر گئی اور لوگوں کے دلوں پر سحرانگیز اثر ڈالا۔ یہاں تک بعض لوگوں نے اس کے اثرات کو دیکھ عناد اور دشمنی کی وجہ سے اسے جادوگر کا کلام کہا۔ لیکن حضور کے جانثار، وفادار، پہرے دار اور فرمانبردار صحابہؓ نے اپنی زندگیوں کو قرآنی احکامات کی لڑی میں پرویا۔ دلوں کی ویران بستیوں کو اس کی تلاوت سے آباد کیا۔ قرآن سے رہنمائی حاصل کرکے اس کی صفت ہدایت سے استفادہ کیا اور اس کے احکامات پر استقامت دکھا کر اس میں دی گئی خوشخبریوں کو بھی دامن میں سمیٹا۔

صحابہ کرام قرآن کی تلاوت اس قدر دل لگی، توجہ اور شوق سے کرتے تھے کہ ایک مرتبہ خود نبی کریم ﷺ نے حضرت اُبی بن کعب کو فرمائش کی کہ وہ تلاوت کریں۔ اُبی بن کعبؓ نے تلاوت فرمائی اور آپ ﷺ نے سماعت فرمائی۔

افسوس کہ آج مسلمانوں نے قرآن کریم کی تعلیمات کو پس پشت ڈال دیا ہے جس کی وجہ سے ہر جگہ مسلمان آج ذلیل وخوار ہو رہا ہے۔ وہ قرآن جس کو نازل کیا گیا تھا تاکہ لوگ اس کی تلاوت کرکے اندھیروں سے روشنی کی طرف قدم بڑھائیں آج مسلمان نے اس کو محض اپنے گھروں اور الماریوں کی زینت بنالیا۔ وہ قرآن جس کے نزول کا مقصد گمراہ کن عقائد کا قلع قمع کرکے عقیدہ توحید سے آگاہ کرنا ہے آج مسلمانوں نے اسے محض مردوں کے ایصال ثواب کیلئے خاص کرلیا ہے۔ وہ قرآن جس سے دلوں کی مردہ بستیوں کو سرسبز وشاداب کیا جاتا تھا آج مسلمان اسے سالہا سال تک ہاتھ بھی نہیں لگاتا وہ قرآن جس کی تلاوت کسی دور میں مسلمان کی روح کی غذا تھی آج اسے محض تعویذ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

اے مسلمان! تیری اس بے قدری اور ناانصافی کو دیکھ کر گویا قرآن کریم زبان حال سے یوں کہہ رہا ہے۔
طاقوں میں سجایا جاتا ہوں
آنکھوں سے لگایا جاتا ہوں
سو بار رلایا جاتا ہوں
ایک بار ہنسایا جاتا ہوں

ذرا سوچیے! یہی قرآن تھا جس کی تعلیمات پر صحابہ نے عمل کرکے دنیاوی زندگی میں ہی جنت کے پروانے حاصل کرلیے تھے۔ آج ہمارے پاس وہی قرآن موجود ہے لیکن ذلت ورسوائی ہمارا مقد آخر کیوں........؟؟

اس لیے کہ ہم نے قرآنی تعلیمات کو پس پشت ڈال رکھا ہے قرآن کی عظمت، رفعت اور مقام کا ہم زبان سے تو دعویٰ کرتے ہیں لیکن ہماری عملی زندگی اس سے کوسوں دور ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام جہاں جاتے تھے کامیابی ان کے قدم چومتی تھی اور آج کا مسلمان جہاں جاتا ہے ذلت ورسوائی اس کا مقدر ہے۔ بقول شاعر
وہ معزز تھے زمانے میں مسلمان ہو کر
ہم ذلیل وخوار خوئے تارکِ قرآن ہو کر

کاش! مسلمان پھر سے اپنی زندگیاں قرآنی تعلیمات کی لڑی میں پرو دیں پھر انشاءاللہ وہ وقت دور نہیں کہ بڑی بڑی طاقتیں ان کے سامنے موم کی طرح نرم ہوجائینگی اور ایک مرتبہ پھر سے اللہ کی دھرتی پر اللہ کا نظام نافذ ہوگا۔
Muhammad Afaq Abbasi
About the Author: Muhammad Afaq Abbasi Read More Articles by Muhammad Afaq Abbasi: 12 Articles with 10979 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.