پنجاب کا مشہورتاریخی شہرقصور۔5لاکھ کی آبادی پر مشتمل
ایک تاریخی شہرہے جو کہ برصغیر پاک و ہندکی مشہور اداکارہ گلوکارہ میڈم
نورجہاں کی جائے پیدائش بھی ہے۔ لاہور کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ پاکستان
کا دل تو قصوراس کی آنکھ ہے۔یہ شہر پہلے لاہورکی ایک تحصیل تھاجسے1976 میں
لاہور سے علیحدہ کرکے ضلع کا درجہ دیاگیا۔ قصورشہرکو انگریزدورمیں 1867 میں
میونسپلٹی کا درجہ دیاگیا۔3995 مربع کلومیٹر پر محیط یہ شہرلاہور سے
55کلومیٹر دورواقع ہے جوکہ مذہبیروحانیثقافتی اور تاریخی لحاظ سے اہمیت کا
حامل ہے۔ اس شہرکو مغل بادشاہ ظہیرالدین بابرنے1528 میں افغانوں کی جنگی
خدمات کے بدلے میں تحفتا دیدیاتھا۔
قصورشہر سے 25کلومیٹرکے فاصلے پر انڈیا کا شہرفیروزپور واقع ہے۔گنڈاسنگھ
والابارڈربھی قصورشہر کے قریب واقع ہے۔جہاں انڈیا اور پاکستان کی افواج کی
جانب سے روزانہ واہگہ بارڈرکی طرز پرمارچ پریڈکا اہتمام ہوتا ہے۔جہاں مجھے
جانے کا اتفاق ہوا۔یہاں سیاحوں کا جم غفیر ہرشام موجودرہتاہے۔ گنڈا سنگھ
والابارڈرکی دوسری جانب بھارتی شہر فیروز پور واقع ہے جہاں پاکستان بننے سے
قبل ٹرین کی آمدورفت تھی لیکن اب بندہے کیا ہی اچھاہو کہ اگردونوں جانب سے
اگرحکومتیں سیاست کو چمکانا بندکردیں اورعوام کے لئے ویزے کی آسانیاں
پیداکریں تاکہ اپنے آبائی گاں شہر سے برسوں سے محروم کروڑوں کی تعدادمیں
لوگ آجاسکیں۔
اس شہرمیں راقم کودومرتبہ دعوت وتبلیغ کی محنت کے سلسلہ میں جانے کا اتفاق
ہواتبلیغی مرکز رائیونڈ کے قریب ہونے کے باعث اکثر جماعتوں کی تشکیل یہاں
ہوتی رہتی ہے۔ہم بھی دومرتبہ عشرے کیلئے یہاں آئے اورشہر کے لوگوں کی
روایتی مہمان نوازی اور یہاں کی مشہورسوغات فالودہاندرسیمصالحے دار مچھلی
سے لطف اندوزہوئے۔ بدقسمتی سے یہ اہم تاریخی شہر کسی بھی یونیورسٹی سے
محروم ہے۔ کالجزکی سہولیات یہاں موجودہیں ریڈیو اسٹیشن بھی ہیں لیکن
یونیورسٹی کا قیام یہاں کے نوجوانوں کا دیرینہ مطالبہ ہے۔ پہلے لاہورتا
قصور سڑک کی حالت ناگفتہ بہ تھی جبکہ مسلم لیگ (ن) کے پچھلے دورِاقتدارمیں
کشادہ سڑکیں تعمیر ہوئیں آپ حیران ہونگے کہ ایک تاریخی شہرہونے کے باوجود
یہاں سے کوئی روزنامہ اخبارنہیں چھپتا۔یہاں باقاعدگی سے 1989 میں ایک ہفت
روزہ اخبار گلستان کا آغازمحمداشرف واہلہ نے کیا۔9اگست 2017 میں محمداشرف
واہلہ کی وفات کے بعد ان کے فرزند ذوالفقار اشرف واہلہ کی شبانہ روزمحنت
اورکاوش کے باعث جاری ہے کسی بھی علاقے کی ترقی و خوشحالی میں میڈیاکا اہم
کردار ہوتاہے۔قصورمیں یہ کردار ہفت روزہ گلستان باقاعدگی سے گزشتہ 33 سالوں
سے سرانجام دے رہاہے۔اگریہ کہاجائے کہ آج قصورشہرمیں جوبھی ترقیاتی کام
اوروہاں کے مسائل کو اجاگرکرنے میں گلستان کے بانی ایڈیٹر محمداشرف واہلہ
مرحوم کا اہم کردار ہے۔ زردصحافت کی لعنت سے پاک محمداشرف واہلہ مرحوم قصور
سے (اے پی پی)کے 45سال ڈسٹرکٹ رپورٹربھی رہے ہیں ان کی وفات کے بعد ان کی
جگہ انکے فرز ند ذوالفقاراشرف واہلہ(اے پی پی)قصورمیں ڈسٹرکٹ رپورٹرکے
فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔محمداشرف واہلہ مرحوم نے صحافتی میدان کیساتھ
ساتھ پاک اصلاحی کمیٹی رجسٹرڈقصورکے پلیٹ فارم سے ایک فری ڈسپنسری اور
دستکاری سینٹرکا آغازبھی کیاہواتھاجوکہ اپنی مدد کے تحت جاری و ساری
ہے۔یہاں سے ہزاروں نادار غریب یتیم بیواں کو مفت ادویات بھی فراہم کی جاتی
ہیں جبکہ سینکڑوں کی تعدادمیں بچیاں دستکاری کا ہنربھی سیکھ چکی ہیں۔صحافت
کے مصروف شعبے کے ساتھ ساتھ عوامی وفلاحی کاموں کا کرنا قابل تعریف ہے۔
گلستان اخبارکے مالک مدیر ذوالفقاراشرف واہلہ سے میراتعلق(اے پی پی)کی
نمائندگی کی وجہ سے بنا۔پورے ملک کے (اے پی پی)جیسی بڑی سرکاری خبررساں
ایجنسی کے نمائندے ایک دوسرے کے ساتھ انٹرنیٹ واٹس اپ کے باعث جڑے ہوئے
ہیں۔
آج کل کے دورمیں ویسے تو بڑے بڑے الیکٹرانک چینلزروزنامیہفت روزہ اشتہاروں
کی بندش کے باعث زبوں حالی کاشکارہیں ایسے بدترین حالات میں ہفت روزہ
کوباقاعدگی سے شائع کرنا قابل تعریف اور مشکل ترین کام ہے۔میرے والدنے بھی
1970 سے ہفت روزہ کوثرکے نام سے ہفت روزہ کوثر سے اپنی صحافتی زندگی کا
آغازکیا۔ راقم نے بھی 1990 میں اپنے والدکی وفات کے بعد 2016 تک جاری رکھا
لیکن اب روزنامہ اخبارات کی اشاعت اور سرکاری اشتہارات کی کمی اور بندشوں
کے باعث قصور سے ہفت رو زہ گلستان کو باقاعدگی سے شائع کرناجرات مندانہ
اقدام ہے جو قابل تعریف ہے۔
دعاہے یہ اخبارمزیدترقی کرے اورجلدازجلد روزنامہ کادرجہ پائے اور اپنے
علاقے میں ترقی و خوشحالی میں اپنا کردار ادا کرتارہے۔ راقم ہفت روزہ
گلستان کی 33ویں سالگرہ کے موقع پر ایڈیٹر ذوالفقاراشرف واہلہ اور ان کی
پوری ٹیم کو مبارکباد پیش کرتاہے۔
|