تحریر: ساحر مرزا، گجرانوالا
شام کے سائے ڈھلنے لگے تھے، پرندوں کی ڈاریں اپنی کمین گاہوں کو لوٹ رہی
تھیں، وہ اکیلا سمندر کنارے بیٹھا بس سوچے جارہا تھا…… دھندلائے چشمے کو
اتار کر صاف کرتے، ہوئے وہ اکتاہٹ سے اُٹھا اور فٹ پاتھ ے کنارے کنارے چلنے
لگا۔
کیا یہ زندگی ہے……؟ کیا ایسے خوش رہا جاتا ہے؟
کیا گھر اس طرح پرسکون رہتا ہے۔؟ بے طرح و بے ہنگم سوالات میں ایک ہی چیز
مشترک تھی اور وہ تھی اس کی محبوب زوجہ، اس کی چندا، اس کی جان، اس کے اندر
باہر کے موسم کی واحد وجہ، ہما تاج۔
عبدالواسع کو نوجوانی میں محبت کا روگ لگا …… وہ مدرسے سے واپس آتے ہو جس
اکیڈمی میں خطاطی سیکھنے جاتا تھا، وہیں اس کی نظر ہما کی سنجیدہ اور
باشعور نگاہوں سے ٹکرا گئی …… اب دینی مدرسے کا طالبعلم عجب شش و پنج کا
شکار ہوا۔
جس خاتون کے صرف نام سے واقف تھا، اس سے ہم کلام ہونے کی ہمت نہ تھی اور
اوباشوں کی طرح گھورنے یا بے ڈھنگی حرکتوں سے اُسے متوجہ کرنے میں کچھ
تربیت کا اثر اور غیرت آڑے آرہی تھی۔
دل کڑا کر ایک دن غیر محسوس طریقے سے اس نے ہما کا پیچھا کیا اور اس کے گھر
جا پہنچا اور بس ایڈریس لئے واپس ہولیا۔ چند روز گزرے، طبیعت کی بے چینی
اور دل کے اضطراب نے اسے بے بس کردیا۔
عبدالواسع نے صبح مدرسے جانے سے قبل اپنے بڑے بھائی سے تمام تر قصہ کہہ
سنایا۔
بیٹا والد ہوتے تو معاملہ کچھ اور ہوتا …… الغرض مجھے ان کا پتہ دو…… میں
معلوم کرتا ہوں۔
بڑے بھائی ، حاجی عبدالحاسب نے نرمی سے معاملہ فہمی کا ثبوت دیتے سر
پرستانہ انداز میں بات کو سمجھتے ہوئے حوصلہ دیا۔
اور سنو ……!
خود سے کوئی حماقت مت کرنا، جو بھی ہوسکا، میں سنبھال لوں گا، بس تم اپنے
دل کو سنبھالے رکھنا۔
حاجی صاحب نے تنبیہی انداز میں متنبہ کرتے ہوئے خوشگوار انداز میں کہا ……!
جی حاجی صاحب ……!
عبدالواسع نے سعادت مندی سے سر خم تسلیم کرتے ہوئے کہا۔
……٭……٭……
جمعتہ المبارک کا روشن دان تھا۔
نمازِ جمعہ کے بعد عبدالواسع کا مسجد میں ہی نکاح ہوا، نمازیوں میں چھوہارے
بٹے۔
بیٹا …… لڑکیوں سے محبت، پیچھا کرنا، آنکھ مٹکا، سب بازاری کام مجھے سخت
معیوب لگتے ہیں، لیکن تمہاری سعادت مندی اور شرافت نے مجھے متاثر کیا ہے……
کوشش کرنا، محبت کی بجائے عزت کا دامن پکڑنا اور ہمیشہ عزت اور ترجیح دینا۔
مسجد سے نکلتے قدم قدم ساتھ چلتے خسر محترم فیاض ہمراہی صاحب نے بڑے پیار
سے اپنے داماد عبدالواسع کو نصیحت کرتے ہوئے کہا۔
جی بابا جان …… میں ہمیشہ اسے یاد رکھوں گا۔
عبدالواسع نے سعادت مندی سے کہا۔
البتہ اس کے بڑے بھائی حاجی عبدالحاسب دمکتے چہرے کے ساتھ بڑی شریر نظروں
سے عبدالواسع کے گلنار چہرے کو دیکھ رہے تھے۔
……٭……٭……
عبدالواسع ……!
آج معمول کے مطابق وہ کام سے دن ڈھلے لوٹا تو اس کی جیب میں اتنے ہی روپے
تھے کہ جن میں بس تین وقت کے کھانے کا سامان بھی میسر آتا اور آج بیگم کی
طبیعت بھی کچھ ناساز تھی اور مزاج بھی برہم، ڈاکٹر نے دوا دودھ سے کھانے کا
کہا تھا۔
اور آپ ……!
عبدالواسع …… اﷲ رحم کرے، آپ کی دیہاڑی اور آپ کے کام، میں گزارہ کرلوں گی،
کل کو اولاد کے دنیا میں آنکھ کھولتے خرچ بڑھیں گے۔
کچھ کیجئے ……!
مجھے فکر سے پیٹ میں گرہیں پڑنے لگتی ہیں۔
ہما آج بس بولے گئی۔
آج مزاج کی برہمی معمول سے زیادہ اور آواز میں فکر کی آمیزش تھی، پہلے جو
دو بول تسلی کے عبدالواسع کہہ پاتا تھا۔
آج بس سے گیا۔
آپ سے کئی بار کہہ چکی ……لیکن!
بش اب ہما کی بڑبڑاہٹ خاموش ہوگئی۔
عبدالواسع نے اُٹھ کر سماوار سے ربڑ کی بوتل بھر کر ہما کو پکڑائی اور اس
کیلئے بستر سیدھا کرنے لگا۔
ہما کے لیکن کے بعد ایک ہی بات تھی کہ عبدالواسع بنئے سے قرض لے کر اپنا
کاروبار کرے، لیکن دونوں یہ بات جانتے تھے کہ یہ ہونا ناممکن ہے۔ رات کا
پہر ڈھل چکا تھا، عبدالواسع نے مصلیٰ تہہ کیا اور ہما کے قریب آکر بیٹھ
گیا۔
کمر کا درد اب کیسا ہے؟
ہاں بس ٹھیک ہے …… کبھی کبھی کوئی ٹیس اُٹھتی ہے جو بے دم کئے دیتی ہے، ہما
نے نرمی سے جواب دیا، اور پلٹ کر عبدالواسع کے کمر دباتے ہاتھ ہاتھوں میں
لے کر اُسے دیکھنے لگی۔
کیا بات ہے چندا ……!
عبدالواسع نے نرمی سے پوچھا۔
آپ کیوں غصہ نہیں کرتے مجھ پر ……؟
جب کہ سب حالات سے واقف ہوکر بھی میں غصہ کرنے لگتی ہوں، آپ سے لڑتی ہوں……
؟
ہما نے نم لہجے میں دھیرے سے کہا۔
کیونکہ چندا میں آپ کی بہت عزت کرتا ہوں۔
عبدالواسع نے دھیرے سے اس کا چہرہ ہاتھوں میں بھر کر نم ہوتی آنکھوں کو صاف
کرتے ہوئے کہا۔
کیوں ……؟ عزت کیوں ……؟
اِک ادا سے سوال ہوا۔
کیونکہ میری جان……!اس افلاس میں معاشی تنگی اور مشکلات میں بھی آپ میرا
ساتھ نہیں چھوڑتیں۔
عبدالواسع نے محبت پاش نگاہوں سے اُسے دیکھتے ہوئے کہا۔
کیسا ساتھ ……؟
اتنا تو لڑتی ہوں، تنگ کرتی ہوں آپ کو ……؟
لیکن دیکھو تو …… آج آپ غصے میں تھیں، تب بھی اسی محبت سے کھانا دیا اور
میری ضروریات کا خیال رکھا حالانکہ آپ کی اپنی طبیعت ناساز تھی۔
تو وہ تو اس لئے کہ آپ اتنی محبت کرتے مجھ سے …… تاویل ہوئی ۔میں اتنا بھی
نہ کروں تو ناشکری ہوگی کہ اﷲ نے اس قدر خیال رکھنے والا شوہر عطا کیا ……
جو میرے غصے، جھنجھلاہٹ، اُکتاہٹ اور پریشانی میں بس مجھے محبت سے اپنے
ہونے کا احساس دلاتا ہے۔
ہما سمٹ کر عبدالواسع کے ساتھ ٹیک لگاتے ہوئے دونوں ہاتھوں میں ہاتھ لئے
محبت سے کہنے لگی۔
ارے میری چندا ……!
یہ جھنجھلاہٹ، اُکتاہٹ، پریشانی، یہ سب فطری عمل …… ایسے حالات میں یہ سب
معمول کے مطابق ہے، مگر ان سب کیفیات کے باوجود رشتے کے پاس اور تعلق نہ کو
مضبوط رکھنا ہی تو وفا ہے۔
تو بتاؤ میں تمہاری وفا کی حیا کیسے نہ کروں ……!
کیسے اس رشتے کے خلوص سے وفا نہ کروں……!
عبدالواسع محبت سے سمجھاتے ہوئے کہنے لگا۔
اور پتہ ہے جب جب آپ غصہ کرتی ہیں یا کوئی ایسا ناخوشگوار واقعہ جو مجھے
آزردہ کرتا ہے تو میں وہ دن یاد کرتا ہوں۔
کون سا ……؟ ہما نے کھوئے کھوئے لہجے میں پوچھا…… جب میں نے پہلی بار آپ کو
دیکھا…… جب آپ سے متعلق جذبات کا احساس ہوتا گیا اور پھر آپ کا مل جانا۔
الحمدﷲ …… بس میں جب ایسی کسی کیفیت کا شکار ہوتا ہوں تو یاد کرتا ہوں کہ
میں تم سے محبت کیوں کرتا ہوں۔
بس پھر مجھے تم پر پیار آتا ہے میں کچھ اور سوچنا بھی چھوڑ دیتا ہوں۔
بات مکمل کرکے اس نے ہما کے پرسکون چہرے کو دیکھا …… جو اسے سنتے سنتے اس
کے سینے سے ٹیک لگائے سوچکی تھی۔
|