حسب روایت آج بھی ہم بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی
جناح ؒ کا یوم ولادت نہایت عقیدت و احترام سے منائیں گے، قائد اعظمؒ کی
تعلیمات کی روشنی میں حکمرانوں کے پیغامات ہوں گے ، قوم کو قائد کے افکار و
تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی تلقین کی جائے گی ، سیمینار ، مذاکرے اور
تعلیمی اداروں میں تقریبات ہوں گے ۔سیاسی قائدین دھواں دھار تقریریں کرین
گے، قائد اعظم ؒکے افکار پر عمل پیرا ہونے کا عہدکیا جائے گا ۔یوں ہم
سمجھتیں ہیں کہ ہم نے قوم کو پند و نصائح کرکے اپنا فرض ادا کر دیا ہے۔اس
سے زیادہ ہم شاہد کسی اور عمل کی ضرورت محسوس نہیں کرتے ۔ سچ تو یہ ہے کہ
ہم ’’یوم قائدؒ ودیگرایّام منانا ہی کافی سمجھتے ہیں ۔جبکہ ہماری یہ سوچ و
فکر وقت کے ضیاع اور قوم کو حتیٰ کہ خود کو بے وقوف بنانے سے زیادہ کچھ
نہیں ۔ بیشک ! فرنگی سامراج اور ہندوؤں کی غلامی سے نجات دلا کر ہمارے قائد
اعظم محمد علی جناح ؒ نے برصغیر کے مسلمانوں پربہت بڑا احسان کیا ہے ورنہ
آج بھی ہم فرنگیوں اور ہندوؤں کے تلوے چاٹ رہے ہوتے ۔
بابائے قوم نے اپنی تعلیمات میں ہمارے لئے جو راہیں متعین کیں اور جن کی
بدولت برصغیر کے مسلمانوں کو پاکستان جیسی عظیم اسلامی مملکت نصیب ہوئی،وہ
ہمارے لئے مشعل راہ ہیں ۔اور آج 75برس گذرنے کے باوجود پاکستان اوراسلام
دشمن قوتوں کی سازشوں کے باوجود ایک آزاد ، جمہوری اور اسلامی ریاست کے طور
پرپاکستان کا دُنیا کے نقشے پر موجود ہونا کسی معجزے سے کم نہیں ۔ ۔وطن
عزیز کو قائد کی تعلیمات و افکار کی روشنی میں ایک خوشحال و مستحکم ریاست
بنانا ہر اُس شخص کا فرض ہے جو پاکستان میں رہتا ہے اورخلوص ِدل سے ایک سچے
اور محب وطن شہری کی طرح پاکستان کی سلامتی پر ایمان رکھتا ہے ۔
پاکستان کو اب تک جن نازک ادوار سے گذرنا پڑا وہ کسی سے پوشیدہ نہیں
،اقتدار پسندوں اور مفاد پرستوں نے دونوں ہاتھوں سے ملک کولوٹا ،سیاسی
قائدین کی ہوس اقتدار نے ملک کو دولخت کیا، دوقومی نظریہ کی روح کو مسخ
کیاگیا، یہ تمام کارہائے نمایاں تاریخ کے آئینے میں رقم ہو چکے ہیں ۔آج کا
یہ دن ہمارے لئے اپنے کارناموں ، نالائقیوں اور کوتاہیوں کاجائزہ لینے کا
دن ہے جو ہم نے قیام پاکستان کے بعد قائد اعظمؒ کا نام پر انجام دئیے ۔سوال
یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا قائد اعظم ؒ حقیقت میں اسی ایمان ، اتحاد اور تنظیم
پر یقین رکھتے تھے جس کا مظاہرہ ہم اب تک کرتے چلے آئے ہیں۔آج ہمیں سوچنا
ہوگا کہ کیا بابائے قوم ؒ حقیقتا! ہم میں یہی نظم و ضبط پیدا کرنے کے
خواہاں تھے جو ہم نے ذاتی اغراض کے حصول کے لئے روا رکھا ہوا ہے اور کیا
بانی ء پاکستان ؒکے نزدیک یہی یقین محکم پاکستان کو مضبوط ومستحکم بنانے کی
ضمانت تھا جس کو اپنا کرہم ساری ملّت کا مذاق اڑاتے رہے ہیں ۔ ایسا نہ تھا
بلکہ بابائے قوم ؒ کی منشاء اس سے مختلف تھی ۔
انسان کے لئے زندگی گذارنے کے بھی کچھ اصولوں ہوتے ہیں ۔لیکن بحیثیت قوم
ہمارا المیہ ہے کہ ہم اپنے مفاد کے لئے اخلاق و حمیت کی تما م حدیں پار
کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے ۔ہمارا یہ وطرہ بن چکا ہے کہ ہمیشہ ہی
اقتدار سے محروم شخص جمہور کی باتیں کرتانظر آتا ہے لیکن وہی شخص اقتدار
ملنے کے بعدسب کچھ بھول جاتا ہے،اور بڑی ڈھٹائی سے اپنے ہر غیر جمہوری عمل
کو ’’جمہوری ‘‘کہہ کر قوم کو بے وقوف بناتاہے ۔ قوم آمریت اور جمہوریت کے
بہت سے ادوار دیکھ چکی ۔قوم کے ساتھ حکمران بھی قائد کے افکار و نظریات کو
یکسر فراموش کر چکے ہیں۔جس کی وجہ سے ہم قوموں کی برادری میں اپنا وہ مقام
بھی کھو چکے ہیں جو ہماری پہچان تھا ۔افسوسناک بات یہ ہے کہ ہم آج زندگی کے
اُس دوہرائے پر کھڑے ہیں کہ ہماری زندگیوں میں کہیں بھی قائد کے افکار کا
پَر تو نظر نہیں آتا ، قول و فعل میں تضاد اور دیگراں را نصیحت کے مصداق
۔۔۔ہم اپنے گریباں میں جھانکنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے ۔ہمیں اپنے قائد
ؒسے کوئی شرمندگی محسوس نہیں ہوتی کیونکہ ہم عملاً بے حس ہو چکے۔وزیر اعظم
عمران خان بھی اس عزم کے ساتھ اقتدار میں آئے تھے کہ وہ قائد کے خوابوں کی
تعبیر کے مطابق ایک ’’نیا پاکستان ‘‘تشکیل دیں گے لیکن انہیں بھی تین سال
کا عرصہ گذرنے کے بعد اسکی توفیق نہ ہو سکی ،کیونکہ ان کے گرد بھی
مفادپرستوں کا ایک ہجوم ہے جو انہیں کام ہی نہیں کرنے دے رہا ۔ضرورت اس امر
کی ہے کہ وزیر اعظم عمران خان اپنے اردگرد موجود لوگوں پر نگاہ رکھیں اور
مملکت کو ایک خوشحال ریاست بنانے کیلئے اپنی بہترین صلاحیتوں کو برائے کار
لائیں ۔ بانی پاکستان ؒکا یوم ولادت اس امرکا متقاضی ہے کہ ہم قائداعظم ؒ
کے افکار کو محض پند و نصائح تک محدود نہ رکھیں بلکہ خلوص دل سے عہد کریں
کہ ہم جہاں اپنی زندگیوں کو قائدؒ کی تعلیمات ایمان ، نظم و ضبط اور یقین
محکم کے اصولوں کی روشنی میں ڈھالنے کی سعی کریں گے وہاں وطن عزیزکو اپنے
قائدؒ کے خوابوں کی تعبیر بنانے کیلئے اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لائیں گے
۔ قومی ترقی کے لئے لازم ہے کہ ہم اپنے ذاتی اغراض و مقاصد کو پس پشت ڈال
کر دنیا میں باوقار قوم کی طرح سر اٹھا کر جی سکیں ۔
|