مجھے یاد نہیں آرہا ہے کہ جب میں دربھنگہ آیا تھا تب آپ
سے ملاقات ہوئی تھی یا نہیں۔ دربھنگہ کا سفر واقعی میرے لیے یاد گار تھا۔
منصور خوشتر کے علاوہ جن شعراء وادبا سے ملاقات ہوئی ان میں پروفیسر
عبدالمنان طرزی ، جناب اظہر نیر، ڈاکٹر مجیر احمد آزاد، ایڈوکیٹ صفی الرحمن
راعین کے اسمائے گرامی یاد ہیں۔ ڈاکٹر امام اعظم سے اسباق کی وجہ سے پرانی
مکتوبی ملاقات تھی۔ دربھنگہ میں ان سے دوبدو ملاقات ہوئی ۔ ہم دونوں برابر
برابر کرسیوں پر بیٹھے ہوئے تھے۔ سامعین کی کرسیوں کے آخری حصہ پر نظر پڑی
تو خلیق الزماں نصرت نظر آئے۔ پہلے جب ان سے ملاقات ہوئی تھی تو ان کا چہرہ
ریش مبارک سے مزین نہیں تھا اب ان کے چہر ے پر داڑھی تھی۔ ایک پل کے لئے
میں ان کو پہچان نہیں سکا، جب ان سے نظر دو چار ہوئی تو موصوف نے ہاتھ
اٹھاکر سلام کیا اور میں نے انہیں پہچاننے میں تاخیر نہیں کی ۔ اس روز مجھے
علم ہوا کہ نصرت صاحب کا تعلق دربھنگہ ہی سے ہے۔ بعد میں جب انعامی جلسے
میں گیا تو انور آفاقی صاحب سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے اپنا تعارف خود ہی
کرایا اور پھر ہم لوگ ایک ساتھ بیٹھ کر شاعری سننے میں مصروف ہوگئے۔
جب تک دربھنگہ نہیں آیا تھا دربھنگہ سے اتنا قریب نہیں تھا۔ حالانکہ امام
اعظم اور منصور خوشتر سے ادبی رابطہ ان کے رسائل کی وجہ سے تھا۔ باقی مظہر
امام کی وجہ سے تو بہت پہلے دربھنگہ کے نام سے آشنا ہوچکا تھا۔ دربھنگہ سے
کچھ آشنائی پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی کی وجہ سے ہوئی۔ فون پر گفتگو کرتے
وقت کسی نہ کسی زاویہ سے دربھنگہ کا ذکر آہی جاتا۔ اکثر پروفیسر طرزی،
ڈاکٹر امام اعظم، ڈاکٹر احسان عالم اور منصور خوشتر کے تعلق سے باتیں ہوتی
رہتی تھیں۔ مناظر صاحب چلے گئے تو دربھنگہ کی جانب کھلنے والا ایک روزن
ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بند ہوگیا۔
ابھی گذشتہ دنوں آپ کی کتابوں کا رجسٹرڈ پارسل دستیاب ہوا۔ کورونا کے گذشتہ
دو برسوں میں رسائل کم اور کتابیں زیادہ موصول ہوئیں۔ سب سے زیادہ کتابیں
تو مرحوم مناظر عاشق ہی کی موصول ہوئی تھیں۔ وہ اگر اب تک اس دنیائے فانی
میں موجود رہتے تو ان کے اشاعتی منصوبے کے مطابق کئی کتابیں آچکی ہوتیں۔
ایک کتاب تو میری ہی تھی عنوان تھا ’’مناظر عاشق ہرگانوی اسباق کے اوراق
میں‘‘ ۔ نہایت تلاش و جستجو کے بعد میں نے مناظر صاحب کی وہ نظمیہ او ر
نثریہ تخلیقات جمع کی تھیں جو چالیس برسوں تک سہ ماہی ’اسباق‘ میں شائع
ہوتی رہیں۔ گفت باہمی کے ساتھ مسودہ تیار کرکے ان کو ارسال کر دیا تھا ۔
مسودہ دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ بتایا کہ ان میں بہت سی چیزیں میرے پاس نہیں
ہیں اور یہ بھی وعدہ کیا تھا کہ ماہ اپریل میں مسودہ کمپوز ہوجائے گا اور
پھر اشاعت کے لئے دلی چلا جائے گا۔ یہ بھی کہا کہ یہ اپنی نوعیت کی پہلی
کتاب ہوگی۔ کتاب اگر شائع ہوجاتی تو ضخامت ۳۰۰؍ صفحات سے کم نہ ہوتی۔ دوسری
کتاب ان مضامین اور تبصروں پر مشتمل تھی جو انہوں نے میری کتابوں پر تحریر
کیے تھے لیکن :
زندگی جب موت کی باہوں میں جاکر سوگئی
سارے منصوبے ادھورے کے ادھورے رہ گئے
(نذیرؔ )
ایک کتاب میری فرمائش پر جے پور راجستھان کے ایک صوفی شاعر پر لکھ رہے تھے۔
ایک بار انہو ں نے خبر دی کہ ۳۵ صفحات لکھ چکا ہوں ۔ پھر وہ اچانک بیمار
ہوگئے اور کتاب مکمل نہ ہوسکی۔ آپ کی ارسال کردہ تین کتابوں میں سب سے پہلے
میں ’’پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی :چند یادیں‘‘کا مطالعہ کیا۔ مناظر صاحب
کے انتقال کے بعد آپ کی یہ پہلی کتاب ہے جو ان کی شخصیت اور فن پر شائع
ہوئی ہے۔ میں نے مناظر شناسی کے عنوان سے مضامین لکھنے کی ابتدا کی تھی،
تین مضامین لکھے جو ماہنامہ ’’رنگ و بو‘‘ حیدر آباد میں شائع ہوئے۔ رنگ و
بو کے مدیر نے ہر شمارے کے لیے لکھنے کی اجازت دی تھی لیکن بعد میں انہوں
نے گریز سے کام لیا اور یہ سلسلہ رک گیا۔ ادھر میں سخت علیل ہوا۔ ایک بڑا
آپریشن کرانا پڑا۔ جسے ریڈھ کی ہڈی کہتے ہیں۔ عموماً لوگ اس آپریشن سے گریز
کرتے ہیں لیکن میرے لیے ہر حال میں یہ آپریشن لازم تھا۔ آج بھی میں آپ سے
مخاطب ہوں تو کمر پٹے سے بندھی ہوئی ہے ۔ میں نے ’’اسباق ‘‘ کے اکتوبر تا
دسمبر ۲۰۲۱ء کے شمارے میں ایک گوشہ مناظر صاحب کے تعلق سے شائع کرکے اپنے
آپ کو تسلی دے دی۔ لیکن یہ احساس کم نہ ہوا:
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
آپ نے اپنی کتاب کے ذریعہ یہ حق ادا کرنے کی کوشش کی ہے ۔ آپ اس میں ایک حد
تک کامیاب ہیں ۔ آپ نے اپنی کتاب میں مناظر صاحب کی مطبوعہ کتابوں کی تعداد
۲۵۴ لکھی ہے۔ مناظر صاحب کے شاگرد محمد پرویز نے یہ تعداد ۲۶۰ بتائی تھی۔
مناظر صاحب کے فکر وفن پر شائع کتابوں کی فہرست میں میری نو کتابوں کے نام
درج ہیں۔ ایک کتاب کا نام چھوٹ گیا ۔ جس کا عنوان تھا :’’شبنمی لمس کے بعد
ایک مطالعہ‘‘۔
اس طرح مناظر عاشق سے متعلق میری کل ۱۰؍ کتابیں شائع ہوئیں۔
اپنے تعارف میں آپ اپنی تاریخ پیدائش اور سال ضرور لکھا کریں۔ آئندہ اس کی
اہمیت ضرور ہوگی۔ یہ آپ کی اٹھارہویں کتاب ہے ۔
’’مجھے پیارا ہے وہ جس کو کتابوں سے محبت ہے‘‘
جو نظم میں مناظر صاحب کے لیے لکھی تھی اسی کایہ مصرع ہے۔
کتاب کی ابتدا میں آپ نے لکھا ہے:
’’۱۲؍ اپریل کو پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی سے گفتگو ہوئی تو انہوں نے
بتایا کہ میری طبیعت خراب ہے۔ میں کافی کمزور ہوگیا ہوں۔ ۱۵؍ اپریل سے ان
کے موبائل پر بات چیت کا سلسلہ بند ہوگیا۔ ان کے شاگرد پرویز سے بات کی تو
پتہ چلا کہ مناظر صاحب کی طبیعت بہت خراب ہوچکی ہے ۔ انہوں نے کھانا پینا
بند کردیا ہے۔‘‘
یہی معاملہ میرے ساتھ ہوا۔ مجھ سے بات کرتے کرتے کھانسی کا دورہ پڑا۔ کہنے
لگے
’’میری طبیعت خراب ہے، بعد میں بات کریں گے۔‘‘
میں نے کہا ’’کھانسی بہت ہے۔ جانچ کرالیجئے۔ ‘‘
بولے:
’’معمولی سی کھانسی ہے اور کوئی بات نہیں۔‘‘
بس یہ ہمارے درمیان آخری گفتگو تھی۔ جس طرح آپ نے لکھا کہ دوسرے دن فون بند
ہوگیا۔ میرا دل ڈوبنے لگا ۔ یا اﷲ ! اردو کے اس بندے کو صحت کاملہ عطا
فرمایا۔
ساری دعائیں قبول کہاں ہوتی ہیں ۔ محمد پرویز سے رابطہ کیا جواب ملا:
’’سر نے کھانا پینا چھوڑ دیا۔ آپ ان سے کہئے کہ کچھ کھائیں۔ وہ آپ کی بات
ضرور مانیں گے۔ ‘‘
میں ہاتھ سے لکھ کر ایک تحریر ان کو وہاٹس ایپ کے ذریعہ ارسال کیا۔ جس میں
ان سے گذارش کی تھی کہ آپ کچھ نہ کچھ ضرور کھائیں۔ لیکن یہ تحریر انہوں نے
نہیں پڑھی اور راہی ملک عدم ہوگئے۔
ابواللیث جاوید کی تحریر کہیں دیکھی تھی:
’’مناظر عاشق ہرگانوی کا معاملہ بھی مختلف ہے۔ چونکہ انہوں نے ہندوستان کے
ہر حصہ میں اپنی نگارشات سے گہری چھاپ چھوڑی ہے۔ اس لیے انہیں چاہتے ہوئے
بھی لوگ نظر انداز نہیں کر پاتے۔
ہاں ادب کا ایک مخصوص طبقہ ان کی ہر حال میں مخالفت کرتا نظر آتا ہے جس کی
میرے خیال سے کوئی اہمیت نہیں ۔‘‘
ان کی مخالفت کرنے والے بس مخالفت کرتے ہی رہ گئے اور وہ خنداق کے پار
ہوگئے۔
آپ کی کتاب مختصر ہوتے ہوئے کارآمد ہے۔ مناظر صاحب کے دادا انہیں حافظ قرآن
بنانا چاہتے تھے ، یہ میرے لیے انکشاف ہے ۔ یہ انکشاف آپ نے کیا ہے۔مجھے
یاد ہے اس سے پہلے یہ بات میرے علم میں نہیں تھی۔ آپ نے اسی مضمون میں ایک
جگہ میرے ادبی رسالے ’’اسباق‘‘ کا بھی حوالہ دیا ۔ جسے دیکھ کر مجھے خوشی
ہوئی اور آپ کے مطالعہ کا اندازہ بھی ہوا۔
آپ نے صفحہ نمبر ۱۹ پر خلیل انجم کے انٹرویو کا حوالہ دیا ہے۔ میرا پہلا
انٹریو خلیل انجم ہی نے کیا تھا۔ جو برسوں پہلے ماہنامہ ’’خاتون مشرق‘‘ دلی
کے کسی شمارے میں شائع ہوا تھا۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ اس وقت میری دو یا تین
کتابیں ہی شائع ہوئی تھیں۔ خلیل انجم کاشی، ناگپور، مہاراشٹر سے تعلق رکھتے
تھے ۔ اسباق کے ابتدائی دنوں میں برسوں تک انہوں نے میرا ساتھ دیا تھا۔
طویل خطوط نگاری کی عادت تھی انہیں، جس شہر میں جاتے سفر نامہ ضرور لکھتے ۔
آپ کی کتاب پڑھ کر خلیل انجم کی یادیں زندہ ہوگئیں۔
مناظر صاحب کی ادبی خدمات کا جائزہ بھی آپ نے ذمہ داری کے ساتھ پیش کیا ہے۔
مناظر صاحب کی افسانہ نگاری سے متعلق آپ کی رائے نہایت قیمتی ہے:
’’پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی افسانوں میں سماجی حالات کی عکاسی ، فرقہ
وارانہ فسادات ، ذہنی غلامی، زبان اور علاقائیت کا بھید بھاؤ، جنسی بے راہ
روی ، گرتا سیاسی ماحول، اخلاقی قدروں کی گراوٹ، طبقات میں منقسم ہوتا
سماج، شادی بیاہ میں بڑھی پیچیدگیاں اور تعلیمی مسائل پر روشنی ملتی ہے۔ ہر
افسانہ ایک نصیحت ، کسک ، سبق اور دماغ کے پردے پر ثبت ہوجانے والا انمٹ
نشان چھوڑ جاتا ہے۔ ان کے افسانوں کا غور سے مطالعہ کرنے پر ان میں دلچسی
اور مکالمہ کی چستی بھی نظر آتی ہے جو قاری کو افسانے کا اسیر بنائے رکھتی
تھی۔ (صفحہ: ۲۱)
آپ نے مناظر صاحب کی آزاد غزلوں پر بھی اظہار خیال کیا ہے۔ میں مناظر صاحب
کی آزاد غزل کی تحریک میں برابر کا شریک تھا، مناظر صاحب کی ایک آزاد غزل
پر میں نے تضمین بھی کی تھی۔ وہ ان ادبی طور پر نہایت ہنگامہ خیزی کے دن
تھے ۔ مظہر امام کی اختراع آزاد غزل کو مناظر صاحب نے قوت پرواز عطا کی اور
خوب فضاؤں میں اڑان بھری۔ مناظر صاحب کے لیے آپ نے بہت سچ لکھا ہے:
’’پروفیسر ہرگانوی نے آزاد غزل کو فروغ دینے میں بیش بہا خدمات پیش کیں۔
آزاد غزل کے سفر میں وہ کافی بلند مقام پر فائز رہے۔ انہوں نے آزاد غزل میں
ایک نئی روح پھونکی۔ اس صنف کی ترقی اور نشو و نما میں مناظر عاشق ہرگانوی
کا ایک بڑا رول رہا۔‘‘ (صفحہ: ۲۵)
احسان عالم صاحب! سچ تو یہ ہے کہ مظہر امام نے اپنی پوری زندگی میں غالباً
۱۰؍ آزاد غزلیں کہنے کی زحمت اٹھائی ۔ اگر آزاد غزل کو مناظر عاشق جیسا
عاشق نہ ملتا تو آزاد غزل تخلیقی تجربے کی کسوٹی تک کبھی نہیں پہنچ پاتی ۔
آزاد غزل کے فروغ کے لئے مناظر صاحب نے ایک سوا ل نامہ ترتیب کرکے نقادوں
اور شاعروں سے ان کی رائے حاصل کی۔ کچھ شعراء نے ان کے مشورے پر آزاد غزل
کہی۔ بعد میں آزاد غزل کے کچھ مجموعے بھی شائع ہوئے۔ ’’غزل اندر غزل ‘‘کے
عنوان سے میری آزاد غزلوں کا مجموعہ جب شائع ہوا تو آزاد غزل کے مجموعوں کی
فہرست میں اس کا پہلا نمبر رہا۔ آج آپ کی کتاب پڑھتے پڑھتے بہت سی یادیں
میرے اندر زندہ ہوگئیں۔
مناظر صاحب کی ایک اور کتاب ’’یادیں باتیں‘‘ پر اظہار خیال کرتے ہوئے آپ نے
آخری سطور میں لکھا ہے :
’’چند یادیں میں ۔ حسین یادیں، دلچسپ یادیں، دلخراش یادیں، شگفتہ یادیں تو
ساتھ ہی دلچسپ باتیں، ادب کی باتیں، نجی باتیں، گھریلو باتیں، فکرو فن کی
باتیں ، تنقید کی باتیں، محبتوں کی باتیں ، رفاقتوں کی باتیں دلچسپ انداز
میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔‘‘
(ص: ۴۹)
آپ کی تحریر میں بلا کی روانی ہے۔ ایسا اسلوب کم دیکھنے میں آتا ہے۔ تنقید
کی زبان میں شگفتگی وارث علوی کے یہاں دیکھنے کو ملتی ہے ۔ وارث علوی کی
تنقیدی تحریر کو پڑھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ہم تنقید میں افسانے کا
لطف لے رہے ہیں۔ لیکن وارث علوی جب تنقید کی رگیں نچوڑنے پر آتے ہیں تو
پورا خون نچوڑ لیتے ہیں ۔ میں وارث علوی کی تحریروں کا مطالعہ بھی کرتا ہوں
اور ان سے کچھ سیکھتا بھی ہوں۔
بھاگلپور کے فرقہ وارانہ خون سے لکھی کتاب ’’آنکھوں دیکھی‘‘ جب میرے پاس
آئی تو میں اسے پڑھ نہیں سکا۔ اس کتاب پر اظہار خیال کرتے ہوئے آپ نے بہت
درست لکھا ہے:
’’آنکھوں دیکھی میں بھاگلپور اور مضافاتِ بھاگلپور کی سجی اور حقیقی
تصویریں نظر آتی ہیں۔ بلاشبہ یہ نظمیں اتنی ابال کے تحت وجود میں آتی ہیں
لیکن ان کی ایک تاریخی اہمیت ہے۔ سالہا سال کے بعد جب مورخ بھاگلپور کی
تاریخ لکھنا چاہے گا ۔ ایک مصور اس میں رنگ بھرنا چاہے گا تو آنکھوں دیکھی
اس کی مدد کرے گی کہ یہ بھاگلپور کے چہرے کا وہ داغ ہے جسے دھویا نہیں
جاسکتا۔ ‘‘
(ص:۵۰)
شاعرانہ عظمتوں اور فنکارانہ ہنر مندیوں کو بالائے طاق رکھ کر ’’آنکھوں
دیکھی‘‘ کا مطالعہ کرنے والوں کو مایوسی نہیں ہوگی۔ آپ نے اسے وقتی ابال کے
تحت وجود میں آئی کتاب قرار دیا ہے۔ یہ غلط نہیں ہے۔ جب یہ کتاب منظر عام
پر آئی تب کئی مبصروں نے اس کتاب پر اسی قسم کے ریمارکس کیے تھے لیکن اس کی
سچائی کو ہر ایک نے تسلیم کیا تھا۔ یہ کام مناظر صاحب نہ کرتے تو کون کرتا۔
فنکاری کا ٹھپہ ہرگز نہیں لگایا جانا چاہئے ۔ اس کتاب کے ہر صفحہ پر خون
بکھرا نظر آتا ہے۔
آپ نے مناظر صاحب کی نعت گوئی کا بھی جائزہ لیا ہے۔ ہر سانس محمدؐ پڑھتی ہے
پر میں نے ۲۲ صفحوں کی ایک کتاب فوری طور پر لکھ دی تھی اور پہلی فرصت میں
وہ شائع بھی ہوگئی تھی۔
مناظر صاحب کے پہلے ناول پر میری کتاب چھپ چکی تھی۔ دوسرے ناول ’’آتشیں لمس
کے بعد‘‘ پر میں لکھنے سے قاصر رہا۔ ٹھیک اسی طرح ان کی ’’عضویاتی غزلوں‘‘
پر میں صرف ایک صفحہ ہی لکھ سکا اور بعد میں اسے ضائع کردیا۔ آپ نے نہایت
سوچ سمجھ کر اس ناول پر لکھا ہے ۔ بلکہ اختتامی سطور میں کچھ نکتے بھی آپ
نے تلاش کرلیے جو صحت مند ہیں۔ مبارک۔
مناظر صاحب عجلت پسند شاعر ہی نہیں تھے، عجلت پسند مرتب بھی تھے۔ کورونا
کال کی پہلی لہرکی ابتدا میں موصوف نے بیک وقت تین کتابیں مرتب کرکے شائع
کردیں۔ اپنی زیر مطالعہ کتاب میں تینوں کتابوں پر آپ نے تبصرہ کیا ہے۔
کورونا وائرس افسانچے، کورونا وائرس منظوم ، کورونا وائرس لطیفے۔ بعد میں
کورونا وائرس کے موضوع پر چند کتابیں آئیں۔ ان میں ایک کتاب ’’کورونا وائرس
۲۲ کہانیاں‘‘ میری بھی ہیں۔
مناظر صاحب نے ادبی سفر بھی کئے اور چند سفر نامے بھی لکھے۔ آپ نے ان کی
کتاب ’’لندن یاترا‘ پر بہت عمدہ طریقے سے روشنی ڈالی ہے۔ آپ کا یہ مضمون
بھی دل پر اثر کرتا ہے۔ ان کے سفر نامے ’’پونے یاترا‘‘ بھی کچھ رقم طرازی
ہوجاتی ۔
مناظر عاشق کی آخری کتاب ۲۰۲۰ کیسے گزارا ، ۲۰۲۱کیسے گزاریں گے۔یہ کتاب
مناظر صاحب کے انتقال کے بعد چھپ کر آئی۔ اس کتاب کے تعلق سے پہلی بار
انہوں نے مجھ سے مدد لی۔ میں نے مہاراشٹر کے چند اہل قلم سے جواب لکھ کر
ارسال کیے۔ آپ نے اس کتاب کا تجزیہ پیش کرتے ہوئے میری رائے بھی پیش کی ہے
اس کے لیے شکریہ ادا کرتا ہوں۔
احسان عالم صاحب، آپ کی کتاب پر ابھی اور بھی لکھا جاسکتا ہے لیکن میں اتنے
پر ہی اکتفا کر رہا ہوں۔ یہ تبصرہ میں دانستہ طور پر خط کی صورت میں لکھا
ہے تاکہ خط کی روایت کو زندہ رکھ سکوں۔
میری طبیعت واقعی پہلے سے بہتر ہے۔ لیکن پوری طرح نہیں۔ ڈاکٹرو ں نے کہا ہے
کہ دھیرے دھیرے مجھے مکمل صحت مل جائے گی۔ اس بات پر پرانا دوہا مجھے یاد
آگیا ۔ آپ کے گوش گذار کر رہا ہوں:
دھیرے دھیرے اے منا، دھیرے سب کچھ ہوئے
مالی سینچے سو گھڑے رِتو آیا پھل ہوئے
جب بہاروں کی رُت آئے گی تو پھول کھل جائیں گے اور پھل آجائیں گے ۔ میں
رحمت خداوندی سے مایوس نہیں ہوں۔
٭٭٭
Nazeer Fatehpuri
Editor Asbaque
Saira Manzil, 203/B/102
Viman Darshan, Sanjay Park
Ohgaon Road, Pune - 411032 (MS)
Dr. Ahsan Alam
Ahmad Complex
Near Al-Hira Public School
Moh: Raham Khan, P.O. Lalbagh
Darbhanga - 846004 (Bihar)
|