پروفیسرصابر لودھی کا اصل نام محمد صابر علی خاں لودھی
ہے۔ انہوں نے 38 برس اردو زبان وادب کی تدریس میں گزارے ہیں۔ ان میں سے 34
برس ان کا تعلق گورنمنٹ کالج لاہور سے رہا۔ آپ کو استاد الاساتذہ کہا جائے
تو بے جا نہ ہو ۔صابر لودھی دس برس اورینٹل کالج میں بطور وزیٹنگ پروفیسر‘
شعبہ اردو ، منسلک رہے۔ انہوں نے شاعری بھی کی اور تنقیدی مضامین بھی لکھے
لیکن ان کے خاکوں کا مجموعہ ’’بھلایا نہ جائے گا‘‘ ان کی حقیقی پہچان کی
شکل دھار چکا ہے۔اس کتاب میں انہوں نے ڈاکٹر سید عبداﷲ ، سید وقار عظیم ،
قیوم نظر ، ڈاکٹر نذیر احمد ، ڈاکٹر محمد اجمل ، رحمان مذنب ، ڈاکٹر محمد
حمیدالدین ، مرزا محمد منور ، غلام الثقلین نقوی ، میرزا ریاض ، جعفربلوچ ،
ڈاکٹر وزیر آغا ،ڈاکٹر انور سدید ، ڈاکٹر عبدالمجید اعوان اور فرخندہ لودھی
(ان کی اہلیہ ) خاکے شامل کیے ہیں جو واقعی پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔
پروفیسر صابر لودھی کہا کرتے تھے کہ ان کا بہت سا وقت اپنی اہلیہ فرخندہ
لودھی کے افسانوں کو Rewrite کرتے ہوئے گزرا اور یہ ان کی زندگی کے قیمتی
لمحات تھے۔پروفیسر صابر لودھی مشرقی پنجاب کے ضلع انبالہ کی تحصیل کھرڑ کے
گاؤں سیالبہ ( ماجری) میں 12دسمبر 1933 میں پیدا ہوئے ۔ یہ گاؤں چندی گڑھ
سے 21 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔پروفیسر صابر لودھی اپنی سوانح عمری میں
لکھتے ہیں کہ میرے جد امجد کا تعلق ضلع روپڑ سے تھا ۔ خاندان کے لوگ
ہوشیارپورمیں بھی آباد تھے اور بہلول پور ( ضلع لدھیانہ ) میں بھی ۔ آبائی
پیشہ سپہ گری اور زمینداری تھا ۔ میرے پڑدادا ٗرنجیت سنگھ کی فوج میں کمان
دار تھے ۔ ان کانام عاقے خان تھا ( غالبا عاقل خان ) انگریزوں کے خلاف لڑے
۔ زوال کا شکار ہوئے ۔ سیالبے کی قدیم حویلی میں پناہ لی ۔ وہیں زمینداری
کرتے رہے ۔ میرے والد محترم کی شادی بسی پٹھاناں ۔ سرہندبسی ) پٹیالہ سٹیٹ
میں ہوئی ۔ انہوں نے اسی شہر میں سکونت اختیار کی۔ مکان بنایااور مدرسی کو
پیشہ بنایا ۔ میری والدہ محترمہ حافظ قرآن تھیں ۔ انہوں نے مجھے قرآن پاک
پڑھایا ۔ ساتویں جماعت تک میری تعلیم "بسی پٹھاناں "کے گورنمنٹ ہائی سکول
میں ہوئی ۔ درمیان میں ایک سال ( چھٹی جماعت ) پونے کے عبدالواحد اسلامیہ
ہائی سکول میں پڑھتا رہا۔ آٹھویں جماعت کاامتحان اپنے گاؤں کے مڈل سکول سے
پاس کیا ۔ پھر تقسیم ہند کے فسادات شروع ہوگئے ۔ مشرقی پنجاب سے ہجرت کرکے
ہمارا خاندان لاہور سے ہوتا ہوا علی پورمیں آباد ہوا کیونکہ یہاں ہی ہمارے
خاندان کو کچھ اراضی الاٹ ہوئی تھی ۔ میٹرک کاامتحان علی پور ضلع مظفر گڑھ
سے دیا اور پھر چار سال ایمرسن کالج ملتان میں گزارے ۔ ان دو تعلیمی اداروں
نے میری ذہنی تربیت کی ۔ بی اے میں ٗ میں نے پروفیسر ملک بشر الرحمان کی
شاگردی میں اردو زبان و ادب کی اتنی کتابیں پڑھ لی تھیں کہ ایم اے میں محنت
کی ضرورت محسو س نہیں کی ۔ 1956ء میں اورینٹل کالج سے ایم اے اردو اور
1958ء میں ایم اے فارسی کیا۔ اساتذہ سے جو سیکھا وہی عملی زندگی میں میرے
کام آیا۔ آپ دوران ملازمت گورنمنٹ کالج لاہور( جسے اب گورنمنٹ کالج
یونیورسٹی کہا جاتاہے)کے علاوہ ایچی سن کالج لاہور ، میونسپل کالج اوکاڑہ،
گورنمنٹ ڈگری کالج مظفرگڑھ میں بھی پڑھاتے رہے ۔ جنرل سیکرٹری ویسٹ پاکستان
لیکچرار ایسوسی ایشن کے عہدے پر 1966ء سے 1974ء تک فائز رہے ۔راوی جو
گورنمنٹ کالج کا معروف اور قدیمی رسالہ ہے ۔اس رسالے میں شائع ہونے والے
افسانوں کو تالیف کرنے کا فریضہ بھی آپ نے دوران سروس انجام دیا ۔ ایک ادبی
فنکشن میں اتفاقی طورپر میری ان سے ملاقات ہوگئی جب وہ اپنی اہلیہ فرخندہ
لودھی صاحبہ کے ہمراہ تشریف لائے تھے ۔تو مجھے مل کر پروفیسر صابر لودھی
اور فرخندہ لودھی بہت خوش ہوئیں اور مجھے اپنے گھر پر کھانے کی دعوت بھی دی
۔ جب میں اپنی اہلیہ سمیت ان کے گھر پہنچا تو اتنا پرجوش استقبال دیکھ کر
میں حیران رہ گیا کیونکہ میری حیثیت ان کے سامنے سورج کے سامنے چراغ جیسی
تھی ۔ ہم باتوں میں اس قدر مصروف ہوئے کہ وقت گزرنے کا احساس ہی نہ رہا ۔سردی
کی اس شام جب میں واپس آنے لگا تو پروفیسر صابر لودھی نے اپنے سر سے پشاوری
گرم ٹو پی اتار کر میرے سر پر رکھ دی کہ یہ آپ کو سردی سے بچائے گی ۔اس
صاحب علم و دانش خاندان کے ساتھ تین چار مزید ملاقاتیں ہوئیں جو میری زندگی
کا بہترین سرمایہ ہیں۔فرخندہ لودھی مئی 2010ء میں انتقال کرگئیں جبکہ
پروفیسر صابر لودھی 31دسمبر 2014ء کو اس دنیا سے رخصت ہوئے ۔اگر یہ کہا
جائے تو غلط نہ ہو گا کہ ان کے دنیا سے رخصت ہوتے ہی میرے سر سے سائبان کا
سایہ اٹھ گیا۔
|